شاہ نواز کیسے شاھوٹیرر بنا؟
[چھوٹو گینگ کی طرح شاہو ٹیرر بھی ایک کردار ہے۔ بچوں کے لئے لکھی گئی تازہ مطبوعہ کتاب ’’انعامی لیپ ٹاپ ‘‘میں سے ایک مضمون جسے بڑے بھی پڑھ سکتے ہیں۔]
امانت پور ایک نہایت پر امن بستی تھی۔ تمام لوگ ایک دوسرے سے واقف اور آپس میں دوستی و محبت کے رشتوں میں منسلک تھے۔ پھر بھی کبھی کوئی چھوٹا موٹا جھگڑا ہوجاتا تو فریقین کی طرف سے گاؤں کے رئیس بابا شاہ نواز کے پاس جا کر فیصلہ کرالیا جاتا۔ گاؤں کی تاریخ میں نہ کبھی پولیس یہاں آئی تھی، نہ کبھی عدالت کچہری کا منہ کسی کو دیکھنا پڑا تھا۔ بابا شاہ نواز بہت بڑے زمیندار ہونے کے باوجود انتہائی نیک دل انسان تھے، نرم مزاج اور ہر دل عزیز۔ اس کے ساتھ ان کا رعب ایسا تھا کہ گاؤں کا کوئی بڑی عمر کا آدمی یا چھوٹی عمر کا بچہ ان کو آتا ہوا دیکھتا تو مؤدّب کھڑا ہوجاتا۔ وہ کبھی کسی کو نہ جھڑکتے تھے، نہ کسی پر غصے ہوتے تھے۔ راستے میں جو ملتا اس سے سلام دعا کرتے اور حال احوال پوچھتے۔ جب لوگوں کے درمیان فیصلے کرتے تو نہ کبھی ہنستے نہ کسی کا مذاق اڑاتے۔ وہ اپنی ذات میں ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے۔
ایک دن ان کے دونوں سگے بھائی اور ایک چچازاد بھائی ان کے پاس آئے۔ وہ سبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز رہے تھے۔ بابا شاہ نواز گاؤں ہی میں مقیم تھے جب کہ ان کے بھائیوں نے شہروں میں کوٹھیاں بنا رکھی تھیں۔ بابا جی مطمئن اور قناعت پسند انسان تھے۔ ان کے بھائیوں نے ازراہِ مذاق کہا: ’’بھائی جان، آپ کبھی کبھار کوئی ہنسی مذاق بھی کرلیا کریں، یہ کیا کہ ہر وقت سنجیدگی اوڑھے رکھتے ہیں۔ بابا جی نے کہا: ’’افسرانِ ذی وقار، آپ کو یاد نہیں رہا کہ جب والد مرحوم نے اپنی زندگی میں اپنی پگ اپنے سر سے اتار کر میرے سر پر رکھی تو سارے مجمع کو اور خصوصاً مجھ کو مخاطب کرکے چند نصیحتیں فرمائی تھیں۔۔۔‘‘ذرا سی خاموشی کے بعد بابا شاہ نواز نے کہا :’’مجھے آج تک یاد ہے کہ بابا جان نے فرمایا: ’’شاہ نواز بیٹا! یہ پگ آبا و اجداد کا ورثہ ہے۔ وہ نیک اور عدل پسند لوگ تھے۔ جائیداد اور حیثیت کے باوجود ان میں غرور و تکبر نام کو نہ تھا۔ اس عاجزی و انکسار کا یہ پھل تھا کہ بڑے بڑے سورما بھی ان کے سامنے شیخی بگھارنے کی کبھی ہمت نہ کرسکتے تھے۔ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہمیشہ سنجیدگی اور وقار کو ملحوظ رکھنا، شستہ مزاح میں ہرج نہیں مگر ٹھٹھا مذاق اور تمسخر، قہقہے اور غیر سنجیدگی دل کو مردہ کر دیتے ہیں اور یہ میں نہیں کہہ رہا یہ اللہ کے پیارے پیغمبر، ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے محبوب و جاں نثار صحابی حضرت ابو ذر غفاریؓ سے فرمایا تھاتو برادرانِ عزیز! میں نے اس دن سے لے کر آج تک یہ پدری نصیحت پلے باندھ رکھی ہے اور اس نے مجھے عزت، وقار ، رعب اور اطمینانِ قلب، ہر چیز عطا کی ہے۔‘‘
پیارے بچو! بستیوں کی عزت اور وقار اچھے باشندوں کی بدولت ہوتی ہے۔ بڑے بڑے محلوں، کوٹھیوں اور بنگلوں سے کسی بستی کی شان نہیں ہوتی۔ اچھے انسان، مہمان نواز، غریب پرور، انسان دوست اور خدا خوفی سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جھونپڑیوں میں بھی مقیم ہوں تو یہ بستیاں مثالی شمار ہوتی ہیں۔ جب اچھے لوگ اٹھ جائیں تو خلا پیدا ہوجا تا ہے۔ جب خلا پیدا ہوتا ہے تو اچھائی اور برائی ہر ایک اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جو طاقتور ہو وہ اس خلا کی جگہ لے لیتی ہے۔ امانت پور میں بابا شاہ نواز کا وجود غنیمت تھا مگر اس کے بعد خلا تھا۔ اس کے بھائی بند، عزیز و اقارب، آل اولاد سبھی شہروں میں جا کر وہیں کھو گئے تھے۔ بابا جی کی زندگی میں کئی والدین اپنے بچوں کے نام ان کے نام پر رکھتے تھے۔ یہ بچے اکثر اچھے اخلاق و کردار کے مالک ہوتے تھے مگر کبھی کبھار کوئی گندی مچھلی بھی تالاب میں آہی جاتی ہے۔
گاؤں کا ایک شریف، غیر کاشتکار خاندان محنت مزدوری کرکے اچھی روزی کما لیتا تھا۔ ان کے ایک بیٹے کا نام بھی والدین کی طرف سے بابا جی کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس نونہال کا بچپن ہی شر اور خباثت میں شروع ہوا۔ اسے سکول میں داخل کرا دیا گیا مگر اس نے سکول میں ایک گینگ بنالیا تھا، شرارتی اور بدطینت لڑکے اس گینگ میں شامل تھے۔ بھلے مانس بچوں کو تنگ کرنا اور شور ہنگامے برپا کرنا اس گینگ کی پہچان تھی۔ شاہ نواز نے اپنا نام خود بگاڑ کر شاہو رکھ لیا تھا۔ ذرا بڑا ہوا تو وہ خود کو شاھو ٹیرر کہنے لگا۔ اس نے اپنے بازو پر یہی نام گدوا رکھا تھا۔ بابا جی شاہ نواز فوت ہوئے تو گاؤں ایک لحاظ سے یتیم ہوگیا۔ ہر گھر میں سوگ کی کیفیت تھی۔ اب شاھو سکول چھوڑ کر آوارہ گردی کرتا تھا۔ اس کا والد بے چارہ اس کی ایسی ہی حرکتوں سے آزردہ ہو کر دل کے عارضے میں مبتلا ہوگیا اور اسی بیماری سے آخر فوت ہوگیا تھا۔
شاہو کی والدہ نے بھی اسے اپنے مرحوم خاوند کی طرح سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ کہاں ماننے والا تھا۔ بابا جی کی وفات پر بھی اس بدبخت نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’بستی کا مسکین شاہ نواز مر گیا ہے، اب بستی کا یہ سپوت بستی کا نام روشن کرے گا۔ لوگ مثالیں دیا کریں گے کہ شاہو ٹیرر نے ایک گم نام بستی کو عالمی شہرت دلا دی۔‘‘ بدمعاشوں کو اپنے نام بگاڑنے میں بھی لطف آتا ہے۔ ماں باپ اتنے اچھے نام رکھتے ہیں مگر یہ بدبخت ان ناموں کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں، اور پھر اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اشرف اچھو بن جاتا ہے، صفدر سے چھدّا، فاروق سے فوکا، محمد خاں سے ماکھا اور نہ معلوم کیا کیا۔ شاہو نے پہلے تو چھوٹی موٹی وارداتیں شروع کیں اور پھر اس کے گینگ نے بڑے جرائم کی دنیا میں قدم رکھ لیا۔ جس گاؤں میں پولیس کبھی دیکھی بھی نہ گئی تھی، اب وہ پولیس کا گڑھ بن گیا تھا۔ ڈاکے، قتل و غارت اور سنگین وارداتیں عام ہونے لگیں۔ پولیس مقابلوں میں کئی بدمعاش مارے بھی گئے مگر شاہو ہمیشہ بچ جاتا رہا۔ کئی پولیس مقابلوں میں اس نے پولیس اہل کاروں کو قتل بھی کر دیا تھا۔ اس پر وہ بڑا فخر کیا کرتا تھا۔
شاہو کے گھر پر بھی پولیس اہل کاروں نے کئی مرتبہ چھاپے مارے۔ پولیس اہل کار شاہو کو پکڑنے میں ناکامی پر اس کی والدہ اور بہن بھائیوں کو گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ یہ بھی پولیس والوں کی ایک ناکامی ہے کہ جب وہ مجرموں تک نہ پہنچ پائیں تو بے گناہ لوگوں کو تنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ شاہو کے آبائی گھر پر پولیس نے یلغار کی مگر گاؤں کے معززین نے پولیس کو بتایا کہ اس بدمعاش کی مسکین ماں تو اتنی نیک خاتون ہے کہ اس کی پارسائی کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔ اس کے سبھی بہن بھائی شریف النفس اور رزق حلال کمانے والے پرامن شہری ہیں۔ پولیس کپتان نیک انسان تھا۔ اس نے یہ گواہیاں قبول کرلیں۔ شاہو کی والدہ تو بے چاری اس کو بددعائیں دیتی تھی کہ اگر اس کے لئے ہدایت مقدر نہیں تو اللہ اسے ایسی عبرت کا نمونہ بنائے کہ درندے اس کی لاش کو نوچیں اور اسے گوروکفن بھی نصیب نہ ہو۔ کوئی ماں بھلا اپنے ہی بچے کو ایسی بد دعا بلا وجہ دے سکتی ہے؟ شاہو کے جرائم ہی ایسے تھے کہ اس کی بے چاری اور دکھی والدہ کے دل سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلتے تھے۔ شاہو اس قدر بے حیا تھا کہ اپنی ماں کو بھی برا بھلا کہتا۔ آدمی کی یہی کیفیت ہوتی ہے جسے قرآن جانوروں سے بدتر قرار دیتا ہے۔ ہر برے کام کا انجام برا ہوتا ہے۔ اللہ مجرموں کی رسّی دراز تو کرتا ہے مگر انھیں کھلی چھوٹ نہیں دیتا۔ وہ جب رسّی کھینچے تو مجرم عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔ اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اس بد بخت کا انجام بھی بڑا عبرت ناک تھا۔ وہ کتّے کی موت مرا کیوں کہ اس کے کرتوتوں کا یہی نتیجہ ہوسکتا تھا۔ اس کا انجام جاننے کے لئے اگلی کہانی کا مطالعہ کیجیے۔
