کچھ’’بموں کی ماں‘‘ کے بارے میں

کچھ’’بموں کی ماں‘‘ کے بارے میں
 کچھ’’بموں کی ماں‘‘ کے بارے میں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

13اپریل (2017ء) کو ایک بہت بڑا غیر جوہری بم امریکہ نے افغانستان پر گرایا۔اس کی بہت ساری تفصیلات میڈیا پر آ چکی ہیں۔لیکن بعض سوال ہنوز تشنۂ جواب ہیں۔مثلاً:
-1 اگریہ بم امریکہ نے مارچ 2003ء میں بنا لیا تھا تو اسی سال اور عین اسی ماہ امریکہ نے عراق پر حملہ کر دیا تھا۔اس حملے کے دوران بہت سے امریکی سولجر بھی مارے گئے تھے بلکہ 21ویں صدی میں مشرق وسطیٰ کی جنگ میں سب سے زیادہ امریکی ٹروپس عراق ہی میں ہلاک ہوئے۔اگر ایسا تھا تو یہ ’’بموں کی ماں‘‘کہاں تھی اور عراق پر کیوں نہ گرائی گئی؟
-2 امریکی میڈیا میں ایسا نہ کرنے کی جو واحد وجہ بیان فرمائی گئی وہ یہ تھی کہ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ اس بم سے عراقی سویلین شہری بھی ’’ہلاک ہو جائیں ۔۔۔‘‘ کیا کسی بھی قاری کو امریکیوں کے اس جذبۂ انسانی ہمدردی کا یقین ہے؟
-3 یہ بم، بُش جونیئر کے دور میں بن گیا تھا۔ لیکن بُش اور اوباما کیا اتنے ہی رحمدل صدر تھے کہ انہوں نے سارے مشرق وسطیٰ کو تو تقریباً کھنڈرات میں تبدیل کر دیا لیکن اس ایک بم (مادر بم) کو اس لئے استعمال نہ کیا کہ اس سے جانی و مالی نقصانات کی کثرت کا اندیشہ تھا۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
-4 یہ بم افغانستان کے ایک صوبے ننگرہار پر گرایا گیا۔۔۔ننگرہار اور پاکستان کے فاٹا کی سرحدیں ملتی ہیں۔ جلال آباد کے نام سے کون پاکستانی ہے جو واقف نہیں؟ یہی شہر ہے جو صوبہ ننگرہار کا دارالحکومت ہے۔ افغانستان کے 34صوبے ہیں۔ اور ننگر ہار ان میں سے ایک ہے۔اس صوبے کے 22اضلاع ہیں جن میں ایک ضلع کا نام ’’آچن‘‘ ہے۔اس کی آبادی تقریباً ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ ساری آبادی شروانی قبیلے پر مشتمل ہے‘ پشتو زبان بولتی ہے اور کابل میں اشرف غنی (صدر) اور عبداللہ عبداللہ (چیف ایگزیکٹو) حکومت کی اگر مخالف نہیں تو ان کی سپورٹر بھی نہیں۔ضلع آچن‘ دارالحکومت جلال آباد کے جنوب میں پاک افغان سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔بقول امریکہ اس ضلع میں داعش نے ڈیرے ڈال رکھے تھے اس لئے ان کو ٹھکانے لگانا ضروری تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا داعش صرف ننگرہار میں صف بند ہے؟ شمال میں چترال سے لے کر جنوب مغرب میں نوشکی تک افغانستان کے درجنوں صوبے پاکستان سے ملحق ہیں۔کیا کابل مخالف طالبان کی اکثریت ان صوبوں میں نہیں بستی ؟۔۔۔اگر ایسا ہے تو ’’بموں کی ماں‘‘ کے لئے آچن کا انتخاب ہی کیوں کیا گیا؟


-5 امریکی میڈیا کی طرف سے بتایا جا رہا ہے کہ آچن کی سرزمین حد درجہ دشوار گزار ہے۔اس میں غاروں کے اندر غاریں اور سرنگوں کے اندر سرنگیں بنی ہوئی ہیں۔یہ بھی ’’اطلاعات‘‘ ہیں کہ داعش کے ہارڈکور دہشت گرد انہی غاروں اور سرنگوں میں چھپے ہوئے تھے۔ ان کو وہاں سے نکالنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ ’’بموں کی ماں‘‘ استعمال کی جاتی۔بتایا گیا ہے کہ اس کے استعمال سے تقریباً 90‘ 95 داعش دہشت گرد مارے گئے ہیں۔۔۔لیکن اتنی تعداد تو دوسرے کئی نان نیوکلیئر بموں سے بھی ماری جا سکتی تھی اور بارہا ماری بھی گئی۔امریکہ گزشتہ 17برسوں سے افغانستان میں بیٹھا یہی کچھ تو کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں یہ داعش کس کی تخلیق ہے؟ کیا داعش ’’امریکی ماں‘‘ کی کوکھ سے پیدا نہیں ہوئی؟ تو کیا اس ماں کا اپنے ہی بچوں کو اپنی ہی ایک دوسرے ماں سے مارنے کا دعویٰ قابلِ اعتبار ہو سکتا ہے؟


-6 کیا اس بم کو آچن پر گرانے سے پاکستان کو خوفزدہ کرنا اور یہ بتانا مقصود تھا کہ جو ’’ماں‘‘ آچن کی غاروں پر پھینکی جا سکتی ہے وہ چند کلومیٹر دور کسی بھی پاکستانی غار پر بھی پھینکی جا سکتی ہے؟۔۔۔ ایسی ہی غاروں اور سرنگوں کا تو تمام فاٹا میں ایک جال بچھا ہوا ہے۔


اپنی بم برادری میں امریکہ نے جو یہ نئی ماں متعارف کروائی ہے اور اسے (MOAB) کا نام دیا ہے،یہ اس لئے نہیں دیا کہ اس کے سارے بم اسی ماں کے بطن سے پیدا ہوئے بلکہ یہ نام اس بم کا سائز بتانے اور جتلانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔یعنی اس کا بم سائز دوسرے تمام غیر جوہری بموں کے سائز کے مقابلے میں ویسا ہی ہے جیسا کہ ایک نومولود اور اس کی ماں کا ۔۔۔نومولود کتنا ہی اوورسائز کیوں نہ ہو اور ماں کتنی ہی انڈر سائز کیوں نہ ہو، ماں ہی رہتی ہے اور اس کا سائز اپنے نومولود سے کئی گنا بڑا ہی رہتا ہے۔بتایا گیا ہے کہ اس بم کا سرکاری نام تو GBU-43 ہے لیکن اس کا عرفی نام Massive Ordnanca Air Blastہے جس کا مخفف MOAB ہے۔لیکن اسی عرفی نام کوایک اور معنوں میں تبدیل کر کے اسے Mother of All Bombs کے جدید تر عرفی معانی پہنا دیئے گئے ہیں۔


آج تک دنیا میں جتنے بھی بم بنائے گئے ہیں ان میں اس بم کا حجم سب سے بڑا ہے۔ اس کا وزن تقریباً 10ہزار کلوگرام ہے۔۔۔جٹکا حساب کرنا ہو تو ایک بوری گندم میں ایک سو کلوگرام گندم سماتی ہے۔یعنی اگر ایک سو بوری گندم کو اکٹھا کسی جگہ رکھ دیا جائے تو ایک MOAB بنے گا۔ اس کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کی ’’ماں‘‘ کا قد کاٹھ کیا ہو گا اور اس کے پیٹ کا قطر کتنا ہو گا۔ویسے سرکاری طور پر پیٹ کا قطر صرف ایک میٹر بتایا گیا ہے لیکن لمبائی 30فٹ ہے۔ یعنی اگر آپ کا قد 6فٹ ہے تو حساب کر لیں کہ اگر آپ جیسے چار اور انسان آپ کے سر کے اوپر کھڑے کر دیئے جائیں تو تبھی آپ کی لمبائی اس ’’ماں‘‘ کے برابر ہو جائے گی:
قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا
تاریخِ انسانی میں اس سے پہلے اتنا بڑا بم بنایا تو شائد گیا ہوگا لیکن اسے فضا میں لے جا کر کسی عام جہاز سے گرایا نہیں گیا بلکہ اسے C-130 ٹرانسپورٹ طیارے کے ذریعے آچن پر گرایا گیا۔ میں نے بھی بارہا C-130 میں سفر کیا ہے۔ آپ نے بھی اگر کیا ہوگا تو مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ایسی ’’دو مائیں‘‘ بھی C-130 میں نہیں سما سکتیں!۔۔۔ مزید یقین کرنا ہو تو نیٹ پر جا کر C-130 کے اندرونی سائز کا حساب کتاب معلوم کرلیں۔ یہ بم امریکی ایئرفورس نے بنایا تھا اور شائد دوسرا نہیں بنا پائی۔ اس کو تین چار بار کامیابی سے ٹیسٹ بھی کیا گیا اور جب تسلی کر لی گئی تو پانچواں اور فائنل ورشن تیار کر کے اسی طرح سربمہر کر دیا گیا جس طرح ہماری عدالت عظمیٰ نے پانامہ لیکس کا فیصلہ سربمہر کر دیا ہے۔ اس MOAB کو تو شائد کوئی یاد رکھے نہ رکھے لیکن ہمارے ایک فاضل جج کے مطابق پانامہ لیکس کا فیصلہ صدیوں تلک یاد رکھا جائیگا۔ دیکھتے ہیں یہ MOAD بم یعنی Mother of All Decisions بم کب گرایا جاتا ہے۔


یہ MOAB بم دشمن کی بالائے زمین تنصیبات کو برباد کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ غاروں اور سرنگوں کو تباہ کرنے اور افواج کے ہجوم کو ملیامیٹ کرنے کے لئے بھی اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ بم زمین پر گرنے سے پہلے پھٹ جاتا ہے اور اس کے پھٹاؤ سے جو صدماتی لہریں پیدا ہوتی ہیں وہ تقریباً ویسی ہی ہوتی ہیں جو کسی جوہری بم کے پھٹاؤ سے پیدا ہوتی ہیں۔ چونکہ اس کا وزن بہت زیادہ ہوتا ہے اس لئے زمین پر گرنے کی رفتار آہستہ کرنے کے لئے اس کی دم پر پیراشوٹ لگا دیا جاتا ہے جس سے اس کی رفتار بھی کم ہو جاتی ہے اور طیارے کو اس کی صدماتی لہروں کے حصار سے نکل جانے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔


قارئین کرام! یہ تمام تفصیلات امریکی میڈیا پر موجود ہیں لیکن میں نے تو پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ امریکہ اس قسم کے جدید اور بھاری ہتھیار کے بارے میں جو معلومات ریلیز کرتا ہے ان کی اصابت اور صداقت ہمیشہ مشکوک رہتی ہے۔ یہ تفصیلات ہمیشہ Doctored ہوتی ہیں یعنی ان کو اپنی مرضی کے مطابق پلان اور ڈکلیئر کیا جاتا ہے۔میرے خیال میں صدر ٹرمپ نے اپنے دو پیشرو صدور کے علی الرغم جو اس ’’ماں‘‘ کو آچن پر گرایا ہے تو اس کے چار مقاصد ہو سکتے ہیں:
پہلا یہ کہ امریکہ چاہتا ہے کہ اگر روس، چین، افغانستان اور پاکستان دوسرے سات ملکوں کے ساتھ مل کر مسئلہ افغانستان کا جو حل ماسکو کانفرنس میں (14 اپریل 2017ء کو) تلاش کرنے کی سمت میں بڑھ رہے ہیں اس میں امریکی اِن پٹ (Input) بھی شامل کر لینی چاہئے۔ یہ Input بموں کی اس ماں کی شکل میں ایک ایسے علاقے پر پھینکی گئی ہے جو پاکستان، چین اور روس کے علاقوں سے دور نہیں۔ امریکہ نے جان بوجھ کر ماسکو کی گیارہ ملکی کانفرنس میں شرکت نہیں کی اور انعقادِ کانفرنس سے ایک روز پہلے افغانستان پر یہ بموں کی ماں گرا کر اپنا ’’فیصلہ‘‘ سنا دیا ہے!


دوسرا یہ کہ امریکہ فی الحال، افغانستان سے واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ بے شک سابق صدر افغانستان حامد کرزئی نے اس ’’مادر بم‘‘ کی مخالفت کی ہے اور اشرف غنی وغیرہ کے لئے خطرے کا گجر بجا دیا ہے، لیکن افغانستان کے پشتون قبائل کرزئی کے گزشتہ دور کو نہیں بھولے۔ اگر کرزئی صاحب آئندہ اپنے ’’امریکہ مخالف‘‘ ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں روس اور چین کو بھی شامل کر لیتے ہیں اور کابل و قندھار سے امریکی ٹروپس کے انخلا کی کوئی تاریخ لے لیتے ہیں تو شائد ایک نئے افغانستان کی بنیاد رکھ دی جائے۔ وگرنہ یہ معاملہ ’’جہاں ہے اور جیسے ہے‘‘ کی بنیاد پر لٹکتا رہے گا۔


تیسرا یہ کہ صدر ٹرمپ، روس اور چین) کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جس طرح اِدلیب پر ٹام ہاک میزائلوں کا حملہ کر کے شام کے عسکری ’’سٹیٹس کو‘‘ کو توڑا گیا تھا اسی طرح افغانستان پر یہ بم گرا کر روس اور چین کو یہ ’’چتاؤنی‘‘ دی گئی ہے کہ اوباما کا دور اور تھا اور ٹرمپ کا دور اور ہے۔ یعنی :
اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
اور چوتھا یہ کہ شمالی کوریا اور امریکہ میں آج کل کشیدگی کی جو فضا چل رہی ہے اس کے لئے شمالی کورین قیادت کو یہ بتانا مقصود ہے کہ آچن کی سرزمین، شمالی کوریا کی اُس سرزمین کے نشیب و فراز کے عین مشابہ ہے جس میں پیانگ یانگ نے جوہری اور بم بردار میزائیل ورکشاپس اور لیبارٹریز بنا رکھی ہیں۔ ابھی پرسوں ہی شمالی کوریا نے ایک مرعوب کن ملٹری پریڈ کا مظاہرہ کیا ہے جس میں جوہری بم بردار بین البراعظم میزائیلوں کے دستے نمایاں تھے۔ امریکہ اگر چاہے تو جنوبی امریکہ کی کسی بھی ایئر فیلڈ سے C-130 کے ذریعے اس قسم کے نان نیو کلیئر بم شمالی کوریا کے مختلف اہداف پر گرا سکتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ایسا کرتے ہوئے ایٹمی پھیلاؤ کے معاہدے کی خلاف ورزی کا ارتکاب بھی نہیں ہو گا (اگرچہ اس نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کئے لیکن وہ باقی ساری دنیا سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اس معاہدے پر دستخط کرے) اس طرح شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو زبردست نقصان پہنچا سکے گا۔۔۔لیکن امریکہ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ پیانگ یانگ کی پشت پر بیجنگ کھڑا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ وہ اسے ڈگمگانے نہیں دے گا۔ چودہ برس تک اس نان نیو کلیئر بموں کی ماں کو سٹور میں رکھ کر اب اچانک اس کو آچن پر گرانے کی وجوہات میں سے یہ آخری وجہ جو میں نے اوپر لکھی ہے، سب سے زیادہ قرین قیاس کہی جا سکتی ہے!

مزید :

کالم -