مشعال ، عبد اللہ اور زبیر پر توہین مذہب کا الزام ثابت نہیں ہوا : آئی جی خیبر پختونخوا

مشعال ، عبد اللہ اور زبیر پر توہین مذہب کا الزام ثابت نہیں ہوا : آئی جی خیبر ...
 مشعال ، عبد اللہ اور زبیر پر توہین مذہب کا الزام ثابت نہیں ہوا : آئی جی خیبر پختونخوا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پشاور(اے این این ) آئی جی خیبر پختونخوا صلاح الدین محسودنے کہا ہے کہ مشعال خان کے سوشل میڈیا اکاونٹ کی تصدیق کیلئے ایف آئی اے کو درخواست دیدی ہے ،پولیس تفتیش میں مشعال ،عبداللہ اور زبیر پر توہین مذہب کاالزام ثابت نہیں ہوا ، واقعے سے پہلے یونیورسٹی میں انکوائری چل رہی تھی،مشعال کوصفائی کا موقع نہیں دیا گیا گیا اس سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا قتل کے مقدمے میں 22ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے،جن میں 6یونیورسٹی ملازمین بھی شامل ہیں،عبداللہ عدالت میں پیش ہوا اور اپنا بیان ریکارڈ کرایا،اس نے توہین مذہب کے الزامات کی تردید کی ہے، منگل کو سپریم کورٹ میں جامع رپورٹ جمع کراؤں گا۔پشاور میں پریس کانفرنس میں آئی جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ قتل کے مقدمے میں 22ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے،جن میں 6یونیورسٹی ملازمین بھی شامل ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ عبداللہ نے عدالت میں 164کا بیان دیا ہے، جس صورتحال میں وہ پھنس گیا تھا اور جن واقعات کا اسے سامنا تھا، اس نے ان واقعات کی اپنی حد تک تفصیل بتائی ہے۔آئی جی خیبرپختونخوا کا مزید کہناتھاکہ اس مقدمے میں پولیس نے بہت حد تک کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں پولیس کا آنا جانا لگا رہتا ہے ،وہاں ڈسپلن کے مسائل رہتے ہیں،جامع میں 50سے 60سیکورٹی گارڈز بھی رکھے ہوئے ہیں، ملزمان کی سیاسی وابستگیاں ہیں، جو بھی ہو، ہمارے لیے وہ ملزم ہی ہیں ۔ آئی جی خیبرپختون خوا کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور چند افراد کی جانب سے مشال خان اور ان کے 2 ساتھیوں کے خلاف اطلاع ملی تھی کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر نازیبا الفاظ ادا کئے ہیں جس پر کارروائی کے لئے دوسرے روز ٹیم تشکیل دی گئی اور یونیورسٹی روانہ کردیا گیا تاہم تفتیش سے کچھ دیر پہلے ہی مشال خان کو قتل کردیا گیا اور اسے صفائی کا بھی موقع نہیں ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ مشال خان کے 2 دوستوں نے بیان ریکارڈ کرایا ہے اور انہوں نے اپنی اور مشال کی بے گناہی کا حلف دیا ہے جب کہ مشال خان کے قتل سے قبل بھی سوشل میڈیا پر کوئی بھی متنازعہ مواد موجود نہیں تھا۔صلاح الدین محسود کا کہنا تھا کہ مشال خان کی لاش ڈی ایس پی مردان حیدر خان نے نکالی اور پرتشددہجوم سے بمشکل اپنی جان بچا کر نکلے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری خان عبدالولی خان یونیورسٹی پہنچی اور 59 افراد کو گرفتار کرلیا گیا جن میں سے متعدد افراد کے کپڑے خون آلود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے یونیورسٹی کو خالی کروا کر کمروں کی تلاشی بھی لی تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ان کا کہنا تھا کہ مقدمے میں ملوث ایک ملزم عبداللہ نے عدالت کے روبرو بیان ریکارڈ کرادیا ہے جب کہ تفیصلی رپورٹ کل(منگل کو) سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں گے۔
آئی جی خیبر پختونخوا

مزید :

صفحہ اول -