غیر معمولی حالات اور واقعات میں گھری، عظیم ریاست پاکستان (3)
پاکستان سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد سے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی شعبوں میں بے شمار اتار چڑھاؤ کا شکار ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہماری اقتصادی سرگرمیوں کا پھیلاؤ ہوشربا ہے، ہماری زراعت، زرعی صنعت و حرفت اور زرعی معیشت نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ گندم کی پیداوار ہو یا کپاس کی، مِلک پروڈکشن ہو یا چاول اور گنے کی پیداوار، پاکستان دنیا کے نمایاں ممالک کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے۔
تر شاوے پھل کی پیداوار میں بھی ہم عالمی چیمپئن ہیں۔ ٹیکسوں کی یافت کا حجم بھی مسلسل بڑھ رہا ہے، گو جی ڈی پی کے حوالے سے شرح خاصی کم ہے، ٹیکسوں کی وصولیوں کو اور بھی زیادہ ہونا چاہیے، لیکن جتنی بھی ہورہی ہیں، وہ کم نہیں ہیں، خاصی معقول ہیں۔ قرضوں کی عالمی مارکیٹ کے ہم اہم حصہ دار ہیں۔ عالمی بینک ہو یا آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی ادارے، ہم ان سب سے قرضے لیتے ہیں۔
ان کی شرائط کی وجہ سے ہمارے قومی قرضوں کا حجم خاصا بڑھ چکا ہے۔ بیرونی قرضوں کا حجم 89 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ جی ڈی پی کے حوالے سے یہ شرح خطرناک حد کراس کر چکی ہے، لیکن ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے قرضوں کی طے شدہ اقساط کی ادائیگیوں کے حوالے سے کبھی ڈیفالٹ نہیں کیا، ہمیشہ وعدوں کا ایفا کیا ہے۔ہماری اوسط فی کس آمدنی بہت اچھی نہ سہی، لیکن معقول ضرور ہے۔
قومی آمدنی کا حجم خاصا ہے، لیکن تقسیم دولت کا نظام غیر منصفانہ ہونے کے باعث غربت کی شرح بلند اور بار بارکے سرکاری اعلانات کے باوجود اس میں کمی نہیں ہورہی، کیونکہ ہم نے قومی سطح پر اس حوالے سے بہت زیادہ غور و فکر نہیں کیا ہم تقسیم دولت کے نظام کو کس طرح منصفانہ اور عادلانہ بنا سکتے ہیں؟ہماری عدلیہ، کئی تاریخی داغوں کے باوجود اپنے اندر میچورٹی لا چکی ہے۔گو ہماری لوئر کورٹس ناانصافی کے راستے پر چل جاتی ہیں، لیکن اعلیٰ عدلیہ نے بہت اچھے کام کئے ہیں اور کئے جا رہے ہیں، لیکن پانامہ کیس کے حوالے سے بحث اور تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ خود عدلیہ کے فاضل جج بھی اس پر تبصرے کررہے ہیں۔
ہمارا سیاسی سفر، جمہوریت کاسفر، ہچکولوں کا شکار رہا ہے، نظریاتی و فکری طورپر اب بھی یہ بحث جاری ہے کہ فوجی حکمرانی ٹھیک ہے، نتیجہ خیز ہے اور امن و سکون کی ضامن ہوتی ہے، جبکہ سیاست و جمہوری ادوار غیر ہموار، پُراسرار اور اقتصادی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں، اس لئے فوج یا مارشل لاء کار سرکار کے لئے بہتر ہیں۔
پھر یہ بھی بحث ہو رہی ہے کہ صدارتی نظام زیادہ ذمہ دارانہ اور بہتر ہے اس لئے یہاں اسے نافذ کر دینا چاہئے۔ ہمارے کچھ دانشور سائنس دان ووٹر کے لئے میٹرک پاس کی شرط کے لئے دلائل تحریر کر رہے ہیں۔ یہ ایک نظریاتی بحث ہے، لیکن ہمارے سامنے پاکستان کی 70سالہ تاریخ موجود ہے۔ 1958,ء1969,ء1977,ء اور 1999ء کے مارشل لاؤں کے نتائج سامنے ہیں جنرل ایوب خان کا 1958ء، جنرل یحییٰ خان کا 1969ء، جنرل ضیاء الحق کا 1977ء اور جنرل پرویز مشرف کا 1999ء کا مارشل لاء اب ہماری قومی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان ادوار ہی کی خوبیاں اور خامیاں ہمارے سامنے ہیں۔ جنرل ایوب کے مارشل لاء دور میں بنگالیوں کے دلوں میں مرکز کے خلاف نفرت پیدا ہوئی، علیحدگی کے رجحانات نے فروغ پایا، جنرل یحییٰ کے مارشل لا میں سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ ہوا۔
جنرل ضیاء الحق کے بعدملک میں فرقہ واریت نے جڑیں پکڑیں، کاروباری سیاست کے رجحانات نے فروغ پایا، غیر جماعتی انتخابات کی وجہ سے سیاست میں سرمایہ کاری اور نفع اندوزی کے رجحانات نے جڑیں پکڑیں۔ جنرل مشرف کے دور حکمرانی نے ملک کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں۔معیشت، معاشرت کا بیڑہ غرق ہوگیا، پاکستان دہشت گردوں کی جنت اور اہل پاکستان کے لئے جہنم بن گیا۔
جہاں تک ہماری قومی سیاست اور جمہوریت کا تعلق ہے، اس کی تاریخ بھی کوئی بہت شاندار نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان قائداعظم جیسے ایک سیاست دان کی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم پر سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہوا۔ قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر پاکستان کا مقدمہ لڑا۔ آئینی و قانونی اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے ایک عظیم نظریاتی ریاست کی تخلیق کا کارنامہ سر انجام دیا۔
قیام پاکستان کے فوراََ ساتھ ہی نوزائیدہ مملکت سول اور خاکی بیوروکریٹس کی چالوں کا شکار ہوگئی، ان سرکاری ملازموں نے اپنے فرائض منصبی کے علاوہ قومی سیاست میں دخل اندازی شروع کر دی اور پھر حکومتیں بنانے اور بگاڑنے کا منصب خود ہی سنبھال لیا ،جس کے باعث یہاں سیاسی استحکام پیدا نہ ہوسکا۔
پہلا آئین بننے میں 9سال کا عرصہ لگ گیا، پھر اس آئین کو دو سال بھی چلنے نہیں دیا گیا اور1958ء میں جنرل ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔
انہوں نے ملک کو صدارتی نظام کے تحت چلانے کی کاوشیں کیں۔ 1962ء میں دوسرا آئین دیا، جسے انہوں نے 1969ء میں خود ہی پامال کر کے ملک کی باگ ڈورجنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دی۔
جنرل یحییٰ نے حسبِ روایت سیاست بازی کی اور مشرقی پاکستان میں لشکر کشی کا حکم دیا۔ ہندوستان نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے مکتی باہنی کے ذیعے پاک فوج کو بے بس کر دیا، پھر مشرقی پاکستان میں فوجیں داخل کر کے وہاں علیحدگی پسندوں کی مدد کی اور پاکستان کی افواج کو شکست سے ہمکنار کیا ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر باقی ماندہ ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا 1988ء میں ان کے منظر سے ہٹنے کے بعد پارلیمانی جمہوری دور کا آغاز ہوا۔
حکومتیں بنتی بگڑتی رہیں، حتی کہ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ 2002ء کے الیکشن کے ذریعے ایک بار پھر سے جمہوری دور حکمرانی شروع ہے۔
میثاق جمہوریت نے سیاستدانوں کی بالغ نظری کو ظاہر کیا تھا، لیکن عوامی سطح پر سیاستدانوں کی اہلیت اور گورننس کے مسائل کے باعث معاملات زیادہ پختہ نظر نہیں آرہے۔
ایک طرف قومی معاملات میں فوج کی مداخلت کے بارے میں منفی خیالات پائے جاتے ہیں، لیکن ایک طبقہ فوج کے کردار کو قومی معاملات میں احسن گردانتا ہے۔
پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ فوجی حکمرانی ہمارے لئے باعث برکت نہیں ہے، ہر مارشل لا کے بعد ملک واپس جمہوریت کی طرف ہی لوٹ کر آیا ہے، مارشل لا حکمران کو بھی سیاست ہی کرنا پڑتی ہے اس لئے یہ بات اب طے ہی سمجھنی چاہئے کہ پاکستان کی بقاء اور تعمیر و ترقی جمہوریت کے ساتھ وابستہ ہے۔
پاکستان کے عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنی خوشحالی دیکھنا چاہتے ہیں۔ جمہوری نظام کی خرابیوں کو درست کرنا بھی ضروری ہے لیکن جمہوری انداز میں ووٹ کی طاقت سے ۔ (ختم شُد)