آرمی چیف اور ہائی برڈ وار کا انتباہ
14اپریل 2018ء کو ہفتے کا دن تھا اور آرمی چیف، پاکستان ملٹری اکیڈمی، کاکول میں کیڈٹس کی ایک پاسنگ آؤٹ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ یہ تقریب سال میں دوبار منعقد ہوتی ہے اور اپریل اور اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں اس کا انعقاد ایک معمول بن چکا ہے۔
اس تقریب میں پاکستان اور دنیا کے عسکری وی آئی پیز کو خطاب کی دعوت دی جاتی ہے۔ پاکستانی اہم شخصیات میں صدر مملکت، وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور ملک کی تینوں مسلح افواج کے سربراہ شامل ہوتے ہیں۔
14اپریل کی اس تقریب میں پاکستان آرمی کے چیف آف دی آرمی سٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ مہمان خصوصی تھے۔ یہ پاسنگ آؤٹ پریڈ کئی حوالوں سے اہم کہی جا سکتی ہے۔ مثلاً ایک تو پاکستان کی سیاسی صورت حال آج ایک نازک موڑ سے گزر رہی ہے اور دوسرے کمیشن پانے والے نوجوان اور نو عمر آفیسرز ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی سیاسیات و حالات کے نشیب و فراز سے، ماضی کے مقابلے میں زیادہ باخبر بھی ہیں اور اس تناظر میں ایک تشویش انگیز دور سے بھی گزر رہے ہیں۔ ہمارے دشمن خواہ وہ ہمسائے میں بیٹھے ہوں یا ہمسائے سے دور بہت دور کہیں موجود ہوں، ان کے مذموم یا محمود عزائم سے آگہی پانا یہ نو عمر آفیسرز اپنا ایک پروفیشنل فریضہ سمجھتے ہیں۔
ایک تو وارٹیکنالوجی نے زمان و مکاں (Time and Space) کے فاصلے گویا مٹا دیئے ہیں۔ اب دشمن نزدیک ہو یا دور ، اندھیرے میں ہو یا اجالے میں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اوردوسرے آج کی جنگوں نے ماضی کے مقابلے میں ایک بالکل مختلف شکل اختیار کرلی ہے۔
ماہرینِ حرب نے جنگوں کی تاریخ کی ان شکلوں کو کئی نسلوں (Generations) میں تقسیم کیا ہوا ہے۔۔۔ مثلاً اول اول جب تیر تلوار کا دور تھا تو اس کو فرسٹ جنریشن وار فیئر کہا جاتا ہے۔ پھر اس میں ٹرانسپورٹیشن اور سپاہ کی انفرادی موبلٹی میں تبدیلی آئی اور بیل، اونٹ، خچر اور گھوڑے کا استعمال شروع ہوا جو طویل عرصے تک چلا۔
اس کو سیکنڈ جنریشن وار فیئر کا نام دیا جاتا ہے۔ پھر بارود ایجاد ہوا، تیر کمان اور تلوار ڈھال کی جگہ رائفل اور توپ نے لے لی۔ اسی دور میں بھاپ کا انجن بھی ایجاد ہوا اور ریل گاڑی نے فوجیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں آسانی پیدا کر دی۔
یہ تھرڈ جنریشن وارفیئر کہلائی اور جب اس بارود کی انتہا جوہری بارود تک پہنچ گئی اور کئی قوموں کے پاس جوہری اور میزائلی اہلیت آ گئی تو یہ جنگ کی چوتھی نسل قرار دی گئی ۔اب یہ ہوا کہ جوہری بارود کی دریافت نے جنگ کی تیز رفتار گاڑی کو ایکدم بریک لگا دی۔
پراکسی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ساتھ ہی انسان کو احساس ہونے لگا کہ اگر دشمن کا مکمل صفایا کرنے کی کوشش کی گئی تو اپنا مکمل صفایا بھی ساتھ ہی ہو جائے گا، اس لئے اب ایک نئی دوڑ شروع ہوئی۔ حریف کو مالی اعتبار سے مفلس کرنے کی حکمت عملی بروئے کار لائی گئی تاکہ وہ جنگ و جدال کا مالی بوجھ برداشت نہ کر سکے اور بغیر جنگ لڑے ہمت ہار دے۔ اس جنگ کو پانچویں نسل کی جنگ قرار دیا گیا۔ اب چونکہ ان ان نسلوں نے آگے بڑھنا تھا اس لئے چھٹی نسل کو ہائی برڈ (Hybrid) جنگ کا نام دے گیا۔
اس جنگ میں گزشتہ تمام جنگوں کی چالوں،چالاکیوں، عیاریوں، مکاریوں، دھوکے بازیوں، غداریوں، وطن فروشیوں اور اس قسم کے دیگر تمام حربوں کو استعمال کرنے کا ایک کیپسول بنایا گیا اور تمام ممکنہ ء روائتی اور غیر روائتی حیلوں اور حربوں سے اسے زیر کرنے کا طریقہ ایجاد کر گیا۔ چونکہ جوہری دور نے جوہری جنگ کے سکوپ کو محدود کر دیا تھا اور ایک جوہری ملک دوسرے جوہری ملک سے دوبدو صف آراء ہو کر جنگ میں نہیں کود سکتا تھا اس لئے کوشش کی گئی کہ دشمن کو اندرونی اور بیرونی طور پر کمزور کر دیا جائے، اس کو سماجی تفریق اور معاشرتی امتیاز کی بیماری میں مبتلا کر دیا جائے، فرقہ پرستی اور نسلی تفاخر کو ہوا دی جائے، مذہبی کارڈ استعمال کیا جائے، لسانی اور گروہی تعصبات کو ایکسپلائٹ کیا جائے اور اس کو اتنا کمزور، کنفیوز اور بے حوصلہ کر دیا جائے کہ وہ اپنے جوہری وارہیڈز کے ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے پر مجبور ہو جائے۔۔۔پاکستان کے خلاف یہی کچھ کیا جا رہا ہے اور یہی ’’ہائی برڈ وار‘‘ ہے۔
بہت سے قارئین کے لئے ہائی برڈ جنگ کی یہ اصطلاح شائد اجنبی ہو لیکن آرمی چیف نے جن افسروں سے خطاب کیا ان کے لئے یہ نئی یا اجنبی نہیں تھی۔ جنگ کی نسلیں، کیڈٹس کے ملٹری ہسٹری کے نصاب کا حصہ ہیں۔ البتہ ملٹری اور سویلین لغاتوں میں ابھی یہ اصطلاح نسبتاً نووارد ہے۔ لفظ Hybridکا لغویٰ معنی ’’دو نسلا‘‘ یا ’’مخلوط النسل‘‘ ہے۔ دو ناجنس یا غیر جنس چیزوں /جانداروں کے ملاپ سے جو ایک نئی نسل تشکیل پاتی ہے اسے ہائی برڈ کہا جاتا ہے۔
مثلاً خچر، چونکہ گھوڑے اور گدھے کی مخلوط نسل ہے اس لئے اس کو ہائی برڈ جانور کہا جاتا ہے۔ اسی طرح آپ نے حالیہ برسوں میں سڑکوں پر نئی گاڑیاں دیکھی ہوں گی جن کے پیچھے ’’ٹیوٹا ہائی برڈ‘‘ لکھا ہوتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کار/ گاڑی پٹرول انجن سے بھی چل سکتی ہے اور الیکٹرک موٹر سے بھی۔۔۔ تیل اور بجلی کے ملاپ سے جو انجن تیار کیا جاتا ہے اس کو ہائی برڈ انجن کہا جاتا ہے۔
یعنی جب کار میں پٹرول ختم ہو جائے تو وہ بیٹری جو قبل ازیں ڈیزل یا پٹرول سے چلنے والے جنریٹر سے چارج ہوتی تھی اسے ایک الگ بیٹری میں چارج کرکے سٹور کر لیا جائے جس کی مدد سے یہ ہائی برڈ انجن چلتا رہے۔۔۔ جنگ کی بھی یہی صورت حال ہے۔
جب دشمن کو معلوم ہو کہ وہ کسی ملک پر جسمانی حملہ نہیں کر سکتا تو وہ اس کے ذہن اور مورال پر اٹیک کرتا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ فزیکل چھیڑ خانی بھی جاری رکھتا ہے۔
انڈیا، لائن آف کنٹرول پر فزیکل چھیڑ خانیاں بھی کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت، معاشرت اور سیاست کو بھی نشانہ بنانے پر عمل پیرا ہے۔ یہ کرتوت صرف انڈیا ہی پاکستان کے خلاف نہیں کر رہا بلکہ ہمارے اور بہت سے ’’دوست‘‘ بھی یہی دوغلی (Hybrid) ’’مہربانیاں‘‘ کر رہے ہیں۔
آپ نے دیکھا ہو گا فاٹا اور پختونخوا میں اچانک ایسے جلسے اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں جن کا پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ سب جلسے انجینئرڈ (Engineered)ہیں۔ یعنی ان کے پیچھے یہ احتجاجی ہجوم نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔
ان جلسوں میں بظاہر مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت پشتونوں کے بنیادی حقوق غصب کر رہی ہے۔ لیکن بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا واویلا ایک ڈھکوسلا ہے اور یہ کوئی نیا نہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ان کی ڈور کون کون سی NGOs ہلاتی ہیں اور ان کو مالی معاونت اور پالیسی ہدایات کہاں کہاں سے ملتی ہیں۔ آرمی چیف نے بجا طور پر اس طرح کے انجینئرڈ احتجاجوں سے قوم کو خبردار کیا ہے ۔ان کا یہ انتباہ بروقت ہے۔
گزشتہ ہفتے انہوں نے اسی موضوع کو اپنی ایک اور تقریر میں بھی موضوعِ سخن بنایا اور کہا کہ ملک کی مسلح افواج اور محبِ وطن پاکستانی اچھی طرح آگاہ ہیں کہ یہ احتجاج اور جلسے جلوس کس کی ایماء پر ہو رہے ہیں۔
جنرل صاحب نے خبردار کیا کہ پشتونوں اور بلوچوں کو پاکستان کی دوسری آبادیوں یعنی پنجابی، سندھی، کشمیری اور گلگتی عوام سے متصادم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’’ہمارے دشمن جانتے ہیں کہ وہ فزیکل ڈومین (Domain) پر ہمارے ساتھ دوبدو نہیں ہو سکتے۔
اسی لئے ہم کو ہائی برڈ جنگ کی ظالمانہ، مذموم اور مسلسل کشمکش کی طرف کھینچا جا رہا ہے۔ یہ لوگ ہمارے عزمِ صمیم کو اندر سے کھوکھلا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔۔۔ لیکن ہم ان ہتھکنڈوں کو اچھی طرح جانتے ہیں اور دشمن کے حکومت مخالف ایجنڈے کو ان احتجاجوں کے عقب میں پنپنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔
جہاں تک پشتونوں اور بلوچوں کے حقوق کا تعلق ہے تو اس کا واشگاف ثبوت یہ ہے کہ اس پاسنگ آؤٹ پریڈ میں جن کیڈٹوں کو کمیشن دیا گیا ہے ان میں 67کا تعلق بلوچستان اور 31کا فاٹا سے ہے۔
انہوں نے مزید کہا : ’’ہم رنگ و نسل، عقیدے، قومیت اور فرقے کا کوئی امتیاز نہیں رکھتے۔پاکستان عقائد و افکار کی حامل اسی کثرت میں اپنی قوت کی وحدت کا اظہار دیکھتا ہے۔پاکستان کی نمائندگی صرف مسلح افواج ہی سے نہیں ہوتی کہ جس میں ہر طبقہ ء رنگ و نسل کے افراد شامل ہیں بلکہ پاکستان کی ساری آبادی ایک لچکدار مقصدِ وحید کی پیروکار ہے۔
دہشت گردی کی کمر توڑنے میں جہاں بالعموم پاکستانی عوام کی بے مثال قربانیاں شامل ہیں، وہاں فاٹا اور خیبرپختونخواہ کے عوام کی ہمت، دلیری اور قربانیوں کی کنٹری بیوشن بھی بالخصوص لائقِ صد ستائش ہے‘‘۔
آخر میں عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کل ہائی برڈ جنگ کی بہت سی تاویلیں اور تشریحیں کی جاتی ہیں۔ یہ ایک نہائت بسیط موضوع ہے اور وہ قارئین جن کا تعلق ملک کی مسلح افواج سے نہیں اور وہ گنجلک عسکری موضوعات اور ان میں استعمال ہونے والی اصطلاحات سے کماحقہ آگاہ نہیں ان کے لئے شائد بور کرنے والا موضوع بھی ہو۔
اس کی بہترین تعریف (Definition) امریکن آرمی کے چیف آف سٹاف نے کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ : ’’ہائی برڈ تھریٹ (خطرہ) ایک ایسا دشمن ہے جو جنگ میں مختلف اور مخلوط تراکیب کو آپس میں ملا جلا کر استعمال کرتا ہے۔
یہ مرکب بہت کارگر ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں روائتی جنگ، غیر روائتی (جوہری) جنگ، دہشت گردی اور ہر طرح کی ایسی چالیں شامل ہوتی ہیں جو دشمن کے حوصلے کو پست کر دیں‘‘۔۔۔۔
ذرا پاکستان کی موجودہ صورتِ حال پر ایک سرسری سی نظر ڈالیں۔ ملک کے اندر کئی دھڑے ایسے ہیں جو فوج کو سیاسیات میں بے جا مداخلت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
ان حالات میں کسی بھی ملک کی نیشنل آرمی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ خارجی تناظر میں دیکھیں تو انڈیا اور افغانستان ہمارے دائیں اور بائیں بازو (Flank) پر آئے روز شب خون مارتے رہتے ہیں۔
مشرقی طرف تو لائن آف کنٹرول ہے جس پر پاکستان کی سویلین آبادی کو نشانہ بنانے کی روش پر عمل کیا جا رہا ہے اور مغربی طرف سے سویلین سے زیادہ وردی پوش پاکستانیوں کو ہدف بنایا جاتا ہے۔
اس سارے ’’کھیل‘‘ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے ہمسایوں کا نہیں پاکستان کی سول اور فوجی آبادی کا ہو رہا ہے۔ اس پر طرہ یہ بھی ہے کہ دنیا کی واحد سپریم قوت کھل کر پاکستان کی مخالفت پر اتر آئی ہے۔
ان قوتوں کا خیال ہے کہ پاکستان پر یہ دباؤ ڈال کر اس کے بازوئے شمشیرزن کو اگر زخمی نہیں کیا جا سکتا تو مفلوج تو کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے مفلوج کرنے کے لئے جن زہریلی گیسوں کا استعمال ضروری خیال کیا جاتا ہے وہ استعمال کی جا رہی ہیں۔۔۔ ایسے حالات میں آرمی چیف کا یہ عزم (Resolve) جو انہوں نے 14اپریل کو کاکول کے خطاب میں دہرایا اس کے اخلاص اور بلند ہمتی کو ہزاروں سلام!