عدلیہ پر دوسرا حملہ ہوا ،ہائیکورٹ نے پابندی نہیں لگائی، نواز شریف اور مریم نے جو تقریر کرنی ہے عدالت آکر کریں : چیف جسٹس
اسلام آباد (صباح نیوز)سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر پر مبینہ پابندی کے حوالے سے لیا گیا ازخود نوٹس نمٹاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ میڈیا میں خبروں سے یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ ہائیکورٹ نے نوازشریف اور مریم نواز کو آف ائیر کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ تاثر دیا گیا کہ اظہار رائے کے بنیادی حق کو سلب کیا گیا، ہائیکورٹ کا حکمنامہ منگوایا جس میں عدالت عالیہ نے آرٹیکل 19 کے تحت عدلیہ کے خلاف تقاریر روکنے کا حکم دیا اور پیمرا کو عدلیہ مخالف تقاریر کی درخواستوں کو نمٹانے کی ہدایت کی۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عدالتی حکم میں نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر پر پابندی کا حکم نہیں دیا گیا۔ تمام اخبارات میں شائع خبریں بے بنیاد اور جھوٹی ہیں۔ عدالت میں پیمرا اور اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ عدالت نے دونوں کی تقاریر پر پابندی نہیں لگائی۔ عدالت نے کہا نواز شریف اور مریم نوازکی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا۔ چیف جسٹس کا معاملہ نمٹاتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم بنیادی حقوق کو کم نہیں کریں گے۔ جھوٹ بول کر عدلیہ کو بدنام کرنے کا منصوبہ ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ عدلیہ پر حملے کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا ایک حملہ عدلیہ پر پہلے ہوا اب ایک اور حملہ عدالت پر ہوگیا۔ ہمیں ریاست کی طرف سے کسی سکیورٹی تحفظ کی ضرورت نہیں۔ یہ قوم ہمارا تحفظ کرے گی۔ روز گالیاں نکالتے ہیں۔ عدلیہ کو خواتین نے آکر گالیاں دیں۔ سپریم کورٹ کے دروازے پر آکر گالیاں دی گئیں۔ میں تین دن سے ان واقعات کا پتہ کرا رہا ہوں۔ خواتین کو کون سپریم کورٹ لیکر آیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی تقاریر کے حوالے سے کیس کی سماعت کی تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہرکوئی الگ فیصلہ دے رہا ہے۔ ماشاءاللہ ہر اخبار میں خبریں لگی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خبر لگی ہے لاہور ہائی کورٹ نے تقاریر پر پابندی لگادی۔ دکھائیں فیصلے میں پابندی کہاں ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پیمرا کے چئیرمین کدھر ہیں؟ تو قائم مقام چئیرمین پیمرا عدالت میں پیش ہوگئے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہر کوئی فیصلہ پر الگ رائے دے رہا ہے۔ عدالتی ہدایت پر اٹارنی جنرل نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ نے عدلیہ اور ججز کے خلاف تقاریر پیمرا کو روکنے کا حکم جاری کیا جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 19کی عملداری نہیں ہونی چاہیے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیا ہوا پیمرا اور عدلیہ کو گالیاں نکالنا شروع کردیں؟ عدالت نے آرٹیکل 19اور 68کے تحت پیمرا کو کام کرنے کا حکم دیا۔ پیمرا نے آج تک آرٹیکل 19کے تحت کیا کیا ہے۔ پیمرا عرصے سے معاملات کو طول دے رہا ہے جس پر قائم مقام چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ خلاف ورزیوں پر چینل کو نوٹس جاری کیے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اگر نوٹس ہی کرنے ہیں تو پیمرا کی ضرورت کیا ہے؟ کیا پیمرا کے پاس اختیار نہیں ہے؟ پیمرا نے اب تک کیا ایکشن لیا ہے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ 2017 سے پیمرا کے پاس شکایات ہیں ، پیمرا نے ان شکایات کا کیا نوٹس لیا۔ پیمرا ریگولیٹر ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ کیا پیمرا کوکوئی آ کر بتائے گا کہ اپنا کام کریں۔ عدالت عالیہ نے حکم کچھ اور جاری کیا رپورٹنگ کچھ اور ہوتی رہی۔ کسی نے منظم طریقے سے یہ سب کچھ کیا ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا اٹارنی جنرل آپ کیا چاہتے ہیں نفرت انگیز تقاریر شروع ہوجائیں؟ صحتمندانہ تقریر اور تنقید سے کبھی نہیں روکا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ پیمرا یتیم خانہ لگتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پیمرا مکمل طور پر بے بس نظر آتا ہے۔ جعلی خبروں پر پیمرا نے کسی چینل کو نوٹس دیا۔ خبر کو ٹوئسٹ کرکے چلایا گیا۔ پیمرا نے کیا ایکشن لیا؟ قائم مقام چیئرمین پیمرا کا کہنا تھا کہ پیمرا نے غلط خبر پر ایکشن لیا ہے۔ چینل کو فوری نوٹس جاری کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم میں نواز شریف مریم نواز پر پابندی کا کہیں نہیں لکھا۔ کون اس معاملے کی تحقیقات کرے گا۔ کس نے یہ خبر بنا کر میڈیا کو دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک چینل پر غلطی ہوسکتی ہے۔ یہ تسلیم نہیں کرسکتا عدالت کے رپورٹر یہ غلط خبر دے سکتے ہیں۔ بتایا جائے کس نے اصل خبرکو تبدیل کروایا۔ چیف جسٹس نے کہا پیمرا کی طرف سے وہ وکیل پیش ہوا جو نواز شریف کا وکیل ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سلمان اکرم راجہ آپکو نوٹس جاری کریں گے۔ آج آپکا لائسنس معطل کرتے ہیں، آپ کس طرح پیمرا کی طرف سے پیش ہوئے، کیا آپکا پیمرا کی طرف سے پیش ہونا مفادات کا ٹکراﺅ نہیں ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ پیمراکی طرف سے کافی عرصے سے پیش ہورہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ن لیگ کی طرف سے بھی آپ پیش ہوئے۔ ٹی وی پر بھی آپ کمنٹس کرتے ہیں۔ اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ عدالت سے معافی چاہتا ہوں اپنا وکالت نامہ واپس لے لیتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کا لائسنس معطل کریں گے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پیمرا کی طرف سے اس لیے پیش ہوا کیونکہ انکا پہلے سے وکیل ہوں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت کے حکم میں کیا غلطی ہے؟ ہائیکورٹ کا حکم بالکل درست ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ ہائیکورٹ کے فیصلہ پر کیا کہتے ہیں؟ عدالتی حکم میں تو نواز شریف اور مریم نواز پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ایک اخبار یا ٹی وی کی طرف سے غلطی ہوسکتی ہے، سب اخبارات میں غلط خبر شائع ہوئی، کس سے تحقیقات کروائیں۔ کیا ایف آئی اے سے تحقیقات کروائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرا نے جھوٹی بے بنیاد خبر پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا جس نے غلط خبر دی سورس پتہ چلنا چاہیے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ عدلیہ پر حملے کے مترادف ہے۔ بعد ازاں عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ ہائیکورٹ نے نواز شریف اور مریم نواز کو آف ائیر کرنے کا حکم دیا ہے، یہ تاثر دیا گیا کہ اظہار رائے کے بنیادی حق کو سلب کیا گیا۔ ہائیکورٹ کا حکمنامہ منگوایا ہے اور ہائیکورٹ نے اپنے حکم میں آرٹیکل 19 کے تحت عدلیہ کے خلاف تقاریر روکنے کا حکم دیا۔ جبکہ ہائیکورٹ نے پیمرا کو عدلیہ مخالف تقاریر کی درخواستوں کو نمٹانے کا حکم دیا۔ عدالتی حکم میں نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر پر پابندی کاحکم نہیں دیا گیا۔ اس ضمن میں اخبارات میں شائع خبریں بے بنیاد اور جھوٹی ہیں۔ پیمرا اور اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ عدالت نے دونوں کی تقاریر پر پابندی نہیں لگائی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جھوٹ بول کر عدلیہ کو بدنام کرنے کا منصوبہ ہے۔ نوازشریف اور مریم نواز نے جو تقریر کرنی ہے عدالت آکر کریں۔دوران سماعت جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ حکم کچھ اور جاری کیا گیا جبکہ پورے ملک میں ڈھنڈورا کسی اور چیز کا پیٹا گیا۔ کسی نے باقاعدہ جعلی خبر چلوائی اور عدلیہ پر حملہ کیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہائی کورٹ نے اتنا اچھا حکم جاری کیا اور یہ فیصلہ بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہے۔