چاکلیٹی ہیرووحید مراد کا وہ ایک جملہ جسے سن کر پوری فلمی صنعت نے شرمندگی سے سر جھکا لیا تھا
لاہور(ایس چودھری )لالی ووڈ انڈسٹری کے سُپر سٹار ہیرووحید مراد کوانکی انفرادیت کی وجہ سے چاکلیٹی ہیرو کہا جاتا تھا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ واحد اداکار تھے جنہوں نے انگریزی لٹریچر میں ماسٹر کیا لیکن اپنے والد کی وجہ سے انہیں بھی شوبز میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور بہت جلد انہوں نے اپنا مقام بنا لیا ۔وحید مراد سب سے پڑھے لکھے ہیرو ہونے کے ناطے سے بھی اپنی شخصیت میں دلربائی اور سٹائل رکھنے کے باعث نوجوانوں اور لڑکیوں میں بے حد مقبول تھے۔جب وہ اڑان پر تھے تب بھی انہیں اپنی تعلیمی بالا دستی کی وجہ سے حساسیت اور انانیت کا سامنا تھا جس کا علاج وہ شراب سے کرتے اور خود کو مدہوش بھی رکھتے ۔اپنے زوال کے زمانے میں انور مقصود کے پروگرام میں وحید مراد نے کہا تھا کہ انہیں فلم انڈسٹری نے شہرت،عزت ،نام دولت سب کچھ دیا ،لیکن نہیں دیا تو ایم اے کرنے کا صلہ نہیں دیا کیونکہ فلم انڈسٹری میں جس نے پہلی جماعت بھی نہ پڑھی ہووہ زیادہ کامیاب ہوتا ہے۔ان کا یہ جملوں کئی سالوں تک ان جہلا کو ڈستا رہا جو واقعی ان پڑھ تھے۔ وحید مراد کا کہنا تھا کہ اگر انہیں کسی دوسرے ملک کی فلم میں کام کرنے کا موقع ملے تو ہوسکتا ہے ان کا ایم اے کام آجائے۔
وحید مراد کے انتہائی قریبی دوست علی سفیان آفاقی بتایا کرتے تھے کہ وحید مراد لیڈی کلر تھا،اسکو اپنے بالوں اور فلرٹ کی وجہ سے رومانوی کرداروں پر بڑا مان تھا ۔رکھ رکھاو میں دیدہ زیب انسان تھا لیکن اسے جاہل فلمسازوں نے جیتے جی ماردیا ۔اسکی ناقدری کی گئی،اسکی تعلیم اسکے فلمی کیرئیرمیں کام نہیں آسکی جس پر وحید مراد فلم انڈسٹری کی جہالت اور گنڈاسے پر بڑی تنقید کرتے ،ان کے اس رویہ پر خاص طور پر جب انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ” فلم میں تو اب انگوٹھا چھاپوں کا راج ہے“ تو انہیں نظر انداز کیا جانے لگا،یہ جملہ انہیں بہت مہنگا پڑاتھا۔لیکن یہ سچائی تھی،کوئی ان پڑھ فلمساز و پروڈسران کے سامنے سر اٹھا کر بات نہیں کرسکتا تھا ۔وہ خود سکرپٹ رائٹر،ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بھی تھے ۔ایسا قابل آدمی کہاں کسی جاہل اور ان پڑھ کے ساتھ کام کرسکتا تھا۔
وحید مراد فلمی صنعت کی جہالت پر برملا تنقید کرتے اور اسکا مذاق اڑاتے تھے ۔یہ واقعہ انہوں نے انور مقصود کے پروگرام میں ہی سنایا تھا کہ پاکستانی فلمی صنعت کو افغانستان کے شہر کابل کی سینما انڈسٹری نے پروان چڑھایا ۔اس دور میں وی سی آر نہیں تھے جس وجہ سے کسی کو یہ علم ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہاں جو فلم ہٹ ہورہی ہے وہ انڈین فلم کا چربہ ہے۔اس کے لئے وہ اپنے بندے کابل بھیجتے تھے جو فلم دیکھ کر اسکا پورا سکرپٹ لکھتے تھے ۔1973 کی بات ہے ، ایک پروڈیوسر نے ا پنے ایک جاہل رائٹر کو کابل بھیجا اور اسے کہا کہ وہ انڈیا کی راجہ رانی فلم دیکھ کر اسکا سکرپٹ لکھ لائے۔اس میں راجیش کھنہ اور شرمیلا ٹیگور تھیں۔یہ واضح کردوں کہ اس وقت انڈیا کی دوفلمیں راجہ رانی اور راجہ جانی سینما پر چل رہی تھیں ،راجہ رانی ہٹ اور راجہ جانی فلاپ فلم تھی۔وہ بندہ بھول گیا اور اس نے راجہ جانی فلم دیکھ کر اسکا سکرپٹ لکھا جس پر ہم نے فلم بنائی اور وہ دودن بھی نہ چلی ،پھر بھانڈہ پھوٹا کہ فلم کے ساتھ ہوا کیا ہے۔وحید مراد کی یہ باتیں ان پڑھ اور چربہ فلمیں بنانے والوں کے سینے پر مونگ دلتی تھیں ،انہوں نے اپنی خو نہ بدلی تو فلموں میں انہیں کاسٹ کرنا چھوڑ دیا گیا ۔