’ہم یہاں کیمیائی ہتھیار نہیں بناتے بلکہ سانپوں کی۔۔۔‘ شام میں جس عمارت کو امریکہ نے کیمیائی ہتھیاروں کی فیکٹری کہہ کر تباہ کیا وہاں کام کرنے والا شخص منظر عام پر آگیا، دراصل یہاں کیا ہوتا تھا؟ جان کر امریکی فوج اپنا منہ چھپاتی پھرے گی

’ہم یہاں کیمیائی ہتھیار نہیں بناتے بلکہ سانپوں کی۔۔۔‘ شام میں جس عمارت کو ...
’ہم یہاں کیمیائی ہتھیار نہیں بناتے بلکہ سانپوں کی۔۔۔‘ شام میں جس عمارت کو امریکہ نے کیمیائی ہتھیاروں کی فیکٹری کہہ کر تباہ کیا وہاں کام کرنے والا شخص منظر عام پر آگیا، دراصل یہاں کیا ہوتا تھا؟ جان کر امریکی فوج اپنا منہ چھپاتی پھرے گی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دمشق(مانیٹرنگ ڈیسک)امریکہ، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے گزشتہ دنوں شام پر کئے جانے والے مشترکہ میزائل حملے میں شامی دارلحکومت میں واقع ایک کیمیکل فیکٹری کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ امریکہ نے دنیا کو بتایا کہ اس فیکٹری میں خطرناک کیمیائی ہتھیار بنائے جا رہ تھے لیکن فیکٹری میں کام کرنے ایک سینئیر عہدیدار نے اصل حقیقت بتا کر امریکا کے جھوٹ کا پول کھول دیا ہے۔ اس عہدیدار کا کہنا ہے کہ وہ جس فیکٹری میں کام کررہے تھے، جسے میزائل حملے میں تباہ کیا گیا، وہاں کیمیائی ہتھیار نہیں بلکہ سانپ کے زہر کا تریاق بنایا جاتا تھا۔ یہ دوا ایسے مریضوں کے علاج کے لئے استعمال ہوتی ہے جنہیں سانپ نے کاٹ لیا ہو۔ 
فرانسیسی خبر ایجنسی کے مطابق حملے میں تباہ ہونے والی کثیر المنزلہ فیکٹری دارالحکومت کے شمالی علاقے بارزح میں واقع تھی۔ امریکہ اور ا سکے اتحادیوں کے میزائل حملے کے بعد اب یہ ملبے کے ڈھیر میں بدل چکی ہے۔ اس فیکٹری کے پینٹ اینڈ پلاسٹکس ڈیپارٹمنٹ کے سربرہ انجینئر سعید نے بتایا ’’تباہ ہونے والی عمارت تین منزلہ تھی، اس کا ایک تہہ خانہ، گراؤنڈ فلور اور سیکنڈ فلور تھا۔ فیکٹری میں موجود لیبارٹری اور دیگر شعبے مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ اس میں موجود تمام مشینری اور فرنیچر بھی تباہ ہوگیا ہے۔
ہماری فیکٹری میں صرف غیر مہلک کیمیکلز پر تحقیق کی جاتی تھی۔ چونکہ ہم ایک سویلین فارماسوٹیکل و کیمیکل ریسرچ فیکٹری میں کام کررہے تھے، اس لئے ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ہمیں نشانہ بنایا جائے گا۔ دیکھئے ہم اس ملبے کے پاس کھڑے ہیں۔ اگر یہاں کسی بھی قسم کے کیمیائی ہتھیار ہوتے تو کیا ہمارا یہاں کھڑا ہونا ممکن ہوتا؟ میں یہاں کئی گھنٹوں سے موجود ہوں اور مجھے تو کھانسی تک نہیں آرہی۔‘‘