کساد با زاری اور میڈیا کی صورت حال
پا کستان کے معاشی حالات کورونا وائرس کے پھیلا ؤ سے پہلے ہی خراب تھے۔ 2017ء کے بعد سے جی ڈی پی، افراط زر، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں گراوٹ اور بے روزگاری میں مسلسل اضا فہ دیکھنے میں آیا۔ اب کورونا وائرس کے اثرا ت کے باعث جہاں دنیا کی بڑی بڑی معاشی طا قتوں کا حال خراب ہو تا جا رہا ہے تو ایسے میں پا کستان جیسا ملک کیسے اس عالمی کساد با زاری کے اثرات سے محفوظ رہ پائے گا؟۔ پا کستان کی خراب معاشی صورت حال اور اس پر کورو نا اور لاک ڈاون کے بعد تو صورت حال مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے۔کساد بازاری کے باعث پا کستان میں بہت سے شعبے بری طرح سے متا ثر ہو رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ پا کستانی میڈیا بھی کساد بازاری کی لہر سے محفوظ نہیں ہے۔بلکہ اگر یہ کہا جا ئے کہ اس وقت کی کساد با زاری سے جو شعبے براہ راست متا ثر ہو رہے ہیں ان میں میڈیا سر فہرست ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔آئے روز ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں چینل مکمل طور پر شٹ ڈاون کر دیا گیا، یا فلاں چینل میں اتنے سو کا رکنوں کو نو کری سے نکا ل دیا گیا یا فلاں چینل میں کا رکنوں کی تنخواہوں میں 30فیصد تک کی کٹوتی کر دی گئی۔اکثر چھوٹے، بڑے میڈیا ہا وسز اور اخبارات میں شدید معا شی مشکلات کے باعث بڑے پیمانے پر ملازمین کو نو کریوں سے نکالا جا رہا ہے۔کئی کئی ماہ تک تنخواہ نہیں مل رہی۔ میں 2007سے بلواسطہ اور بلا واسطہ طور پر اسی شعبے سے منسلک ہوں بلکہ میں اپنے دوستوں، رشتے داروں، عزیز و اقارب کے سامنے ہمیشہ اس با ت پر فخر کرتا ہوں کہ میری روزی روٹی کا سلسلہ صحافت جیسے مقدس شعبے کے ساتھ وابستہ ہے۔
میں اپنے بچوں کی جس کما ئی سے پر ورش کر تا ہوں وہ اسی شعبے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔اور جو سچی بات ہے اس شعبے سے وابستہ ہونے کے باعث معا شرے میں بھی عزت ملتی ہے۔مگر گزشتہ کچھ عرصے سے میں نے یہ محسوس کیا کہ معا شی بدحالی کی وجہ سے میڈیا میں کام کرنے والے ملازمین شدید ما یوسی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔میں نے میڈیا میں کام کرنے والے اپنے کئی دوستوں حتیٰ کہ کئی سینئرصحافیوں کو بھی یہ کہتے سنا کہ اب اس شعبے کا کوئی مستقبل نہیں رہا۔تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور نوکری کھو جانے کے خوف سے کئی لوگوں کو نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہوتے دیکھا۔یہ بات درست ہے کہ اس وقت صرف پا کستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی بڑے ممالک بھی کساد بازاری کا شکار ہیں۔ مگر کیا پا کستان کی خراب معاشی صورت حال ہی میڈیا کی اس زبوں حالی کا واحد سبب ہے؟ یا پھر اس تاثر میں کتنی صداقت ہے کہ میڈیا کے اس معا شی زوال میں پی ٹی آئی کی حکومت کا بھی بڑا اہم کردار ہے؟۔ظاہر ہے کہ نیوز چینل اور اخبارات حکومتی اشتہارات کے ملنے یا نہ ملنے سے بھی متا ثر ہو تے ہیں۔مگر میرے نزدیک میڈیا کی اس موجودہ زبوں حالی کی وجوہات کچھ اور ہیں۔جب2002کے بعد پا کستان میں نجی نیوز چیلنز کھولنے کا سلسلہ شروع ہوا تو اس وقت کئی ایسے نیوز چینل قائم ہوئے کہ جن کے مالکان کے پاس اخبارات نکالنے کا ایک وسیع تجربہ تھا۔ جو لوگ کئی دہا ئیوں سے اخبارات چلا رہے تھے ان کو معلوم تھا کہ صحافت کیا ہو تی ہے یا صحافت کی حر کیات کیا ہو تی ہیں۔
اخبارات کے بھر پور تجربے کے ساتھ ایسے ایسے پیشہ ور صحافی ٹی وی کے پروگراموں کے اینکرز بن گئے جنہوں نے پورے پا کستان میں اپنی قابلیت کو منوایا۔پا کستان کے پڑھے لکھے متوسط طبقے کے افراد ایسے پیشہ ور صحافیوں کے تجز یے سن کر اپنی سیاسی سوچ کے رخ کا تعین کرتے رہے۔مگر اس سب کے ساتھ ساتھ جب کئی ایسے سرمایہ داروں کو بھی میڈیا کی طا قت کا اندازہ ہونے لگا کہ جن سرمایہ داروں نے کبھی سرے سے صحافت ہی نہیں کی تھی مگر ان کے پاس اربوں روپے موجود تھے تو ایسے سرمایہ داروں نے بھی اپنے میڈیا ہا وسز کھولنے شروع کر دیے۔اب اس سب سے ہوا کیا؟ان سرمایہ داروں کے پاس صحافت کا تجربہ تو سرے سے ہی نہیں تھا اسلئے ایسے میڈیا ہا وسز میں ایسے ایسے افراد کو کئی کئی لاکھ روپے کی بھاری تنخواہوں پر اینکر اور تجز یہ نگا ر بنا دیا گیا کہ جن کے پاس صحافت کا تجربہ تو دور کی بات ایک کالم تک لکھنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ایسے سرمایہ داروں کے اپنے میڈیا ہا وسز کھولنے سے الیکٹرانک میڈیا مکمل طور پر سرمایے کی گیم بن گیا۔”ریٹنگز“ کی جنگ شروع ہو گئی۔صحافت کے تجربے سے مکمل طور پر عاری ایسے اینکرز کی ”ریٹنگ“ ہی ان کی کامیابی کا سبب بننے لگی۔نیوز چینلز میں با قاعدہ اس بارے میں مقابلہ بازی شروع ہو گئی کہ فلاں اینکر کی فلاں ٹی وی میں بڑی زبر دست ریٹنگ ہے اس کی تنخواہ دو گنا یا تین گنا بڑھا کر اپنے میڈیا ہا وس میں لا یا جائے۔
اپنے کئی سالہ تجربے کے دوران میں نے خود ایسے ایسے منظر دیکھے کہ کیسے اچھی ”ریٹنگ“ لینے والے اینکرز کو اپنے اپنے ٹی وی پر لانے کیلئے 30,30لاکھ یا 40,40لاکھ کی تنخواہوں کا لالچ دیا جاتا یہ سب دیکھ کر مجھے خیال آتا کہ پا کستان میں پی ایچ ڈی کرنے والا کوئی عالم فاضل شخص کیاایک ماہ میں 30یا40لاکھ روپیہ کما سکتا ہے؟ مگر اوسط ذہن رکھنا والا شخص ٹی وی پر آسانی سے ایک ماہ میں اتنی رقم بنا لیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کئی گنا قابل صحافی چند ہزار روپے کی نوکری پر ہی قناعت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
اس سب سے صحافت کے پیشہ ور اصول بری طرح سے متا ثر ہونے لگے۔نیوز شوز میں صحا فت سے زیا دہ ”سیاست“ ہونے لگی۔ پروگرامز کی ”ریٹنگ“ کیلئے ان نیوز شوز میں ایسی ایسی حرکات کروائی جاتیں کہ جس کو کسی بھی طور صحافت نہیں کہا جا سکتا۔اب مسئلہ یہ تھا کہ ایسے میڈیا ہا وسز جن کے پاس کروڑوں کا سرمایہ سفید یا کالے دھن کی صورت میں مو جود تھا جنہوں نے صحا فت سے نہیں بلکہ دوسرے ذرائع سے اربوں بنا ئے تھے انہوں نے تو سرمایے کے اس کھیل میں اپنا کھیل جا ری رکھا مگر سرمایے کی اس دوڑ میں ایسے پیشہ ور نیوز چینلز بری طرح سے متا ثر ہونے لگے کہ جن کے پاس اخبارات کے علاوہ آمدن کے دوسرے ذرائع موجود نہیں تھے۔ایسے پیشہ ور نیوز چینلز کیلئے اپنے ملازمین کی تنخواہیں بھی وقت پر ادا کرنا نا ممکن ہو گیا۔جس کا نتیجہ میڈیا کی اس زبوں حالی کی صورت میں نکلا۔
میں نے اس کالم میں صحافت کیلئے مقدس شعبے کا لفظ دانستہ طور پر استعمال کیا ہے۔یہ شعبہ اسلئے مقدس ہے کیو نکہ تاریخ میں صحافت کو مشن کے طور استعمال کیا گیا ہے۔ آپ دنیا کے بڑے بڑے انقلابات کی تا ریخ کو دیکھیں ہر انقلاب کے پیچھے انقلابی پا رٹی کے اخبار کا کردار ہو تا تھا۔ بر صٖغیر میں انگر یزوں کے خلاف چلنے والی تحریک آزادی کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہر طرح کا سیاسی رجحان رکھنے والی جما عت کا اپنا پنا اخبار ہو تا تھا۔کانگرس اور مسلم لیگ جیسی بڑی جما عتیں اپنا اپنا پرو گرام لوگوں تک پہنچا نے کیلئے اخبارات کا ہی سہا را لیتیں۔ بڑی بڑی تحریکوں کو چلانے کیلئے اخبارات سے ہی مدد لی جاتی۔بائیں بازو اور دائیں بازو کی جما عتیں اخبارات کے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچاتیں۔اس سب سے لوگوں کو شعور ملتا۔یوں صحافت ایک با مقصد جذبے کے ساتھ کی جاتی تھی جس کا مقصد صرف سرمایہ بنانا نہیں ہو تا تھا۔آج سرمایہ داری نظام کے اس با زار میں جہاں تعلیم اور صحت جیسے شعبے بھی منا فع کیلئے استعمال کیے جاتے ہوں تو وہاں پر صحافت جیسا مقدس شعبہ بھلا کیسے اپنے آپ کو سرمایے کے اس مرض سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ ہزاروں انسانوں کی طرح میں بھی اپنی روزی روٹی کیلئے اسی شعبے کا مرہون منت ہوں۔اس شعبے کی زبوں حالی ہزاروں لوگوں کی طرح میرے لیے بھی انتہائی تکلیف دہ ہے اور اب تو کرونا کے بعد کی دنیا جس طرح کی شدید معا شی کساد با زاری کا سامنا کرنے جا رہی ہے اس سے میڈیا مزید بری طرح سے متاثر ہو گا۔ تاہم رجائیت پسندی کا سہارا لیتے ہوئے یہ امید ہی کر سکتا ہوں کہ یہ شعبہ زبوں حالی کی اس کیفیت سے جلد با ہر نکلے گا۔