پاکستانی طلبا نے ایک بار پھر پوری دنیامیں ملک کا نام روشن کر دیا

پاکستانی طلبا نے ایک بار پھر پوری دنیامیں ملک کا نام روشن کر دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی(اسٹاف رپورٹر)کستانی طلبا نے ایک بار پھر پوری دنیامیں ملک کا نام روشن کر دیاہے،چارٹرڈ سر ٹیفکیٹ اکاؤنٹنٹس ایسوسی ایشن (اے سی سی اے)نے مارچ میں ہونے والے حالیہ امتحانات کے نتائج جاری کردیئے ہیں، جس کے مطابق تین پاکستانی طلبا انعام یافتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔مارچ 2021 کے اے سی سی اے امتخانات میں   پاکستان کے عالمی انعام یافتہ طالب علم میں شامل کاہف معید، فقیحہ مقصود اور علی شان ہیں جنہوں نے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔آڈٹ اور آیشورنس کے مضمون میں کراچی کی کاہف معید نے سب سے زیادہ اسکور کیا  اور ظاہر کیا کہ خواتین پاکستان کا روشن مستقبل ہیں۔ کاہف معید کے والد دبئی میں ٹیلی کام انجینئر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، اور وہ پاکستان میں اپنی والدہ کے ساتھ رہائش پزیر ہیں۔ کاہف معید نے بتایا کہ میری والدہ میٹرک کے بعد اپنی تعلیم حاصل کرنے میں ناکام تھیں، لیکن وہ خاندانی فخر کا باعث بننے میں اپنی بیٹی کی ہر ممکن مدد کر رہی ہیں۔ایڈوانسڈ ٹیکسیشن میں اعلی اسکور کے ساتھ فیصل آباد کی فقیحہ مقصود عالمی سطح پر  فاتح یاب رہی۔ فقیحہ مقصود کے مطابق  اسٹریٹجک بزنس رپورٹنگ کے امتحان  میں  وہ پاکستان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والی طالب علم ہیں۔انہون نے کہا کہ میرے والد بھی ایک باصلاحیت اکاؤنٹنٹ ہیں  اور  اپنے والد کی ایمانداری، نظم و ضبط  کی وجہ سے ہی میں نے بطور کیریئر اکاؤنٹنٹ بننے کا فیصلہ کیا، چونکہ میں نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی تھی، اس لئے میں اے سی سی اے کی عالمی سطح پر سکوپ سے واقف تھی۔ اسی لئے پاکستان واپس آنے کے فوری بعد میں نے اے سی سی اے میں داخلہ لیا۔کراچی کے  رہائشی علی شان  نے فائنانشل رپورٹنگ ری ویو کے مضمون  میں سب سے زیادہ اسکور حاصل کرنے والے طالب علم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نمبرز میں  ہمیشہ سے میری دلچسپی رہی  ہے  جس سے میں لطف اٹھاتا ہوں۔ اس لیے نتیجے  اکانٹنگ کا مضمون میرے لیے ایک واضح انتخاب تھا۔ علی شان نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ  میں دنیا میں کام کرنے والی کمپنیوں کا انداز  تبدیل کرنا چاہتا ہوں، اور میں کام کی جگہ تخلیقی صلاحیتوں اور اخلاقیات کو فروغ دے کر ایسا کرنا چاہتا ہوں۔ ہم بحیثیت قوم پیچھے رہ گئے ہیں کیونکہ ہم نیغیر اخلاقی سرگرمیوں کو معمول بنا لیا ہے اور کام کرنے کے جدید طریقوں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ میں اپنی اے سی سی اے کی مہارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، نجی شعبے میں ترقی لانے کی کوشش کروں گا۔