چھوٹا ہٹلر
چوہدری پرویز الہی نے 16 اپریل کو پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے مبہنہ طور پر جو ہتھکنڈے استعمال کئے، ان سے سب سے زیادہ خوشی ہٹلر اور مسولینی جیسے آمروں کی روحوں کو ہوئی ہو گی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی ہوگی کہ ان کے نام لیواؤں میں چوہدری پرویز الہی کا اضافہ ہوگیا ہے اور اس خواہش کا اظہار کیا ہوگا کہ اس میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ موقع ملنے پر وہ ہٹلر بھی بن کر دکھا سکتا ہے۔ ویسے بھی چوہدری پرویز الہی ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو دس بار وردی میں صدر منتخب کروانے کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ پچھلے دو تین ہفتوں سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ تاریخ کے بدترین آمروں یعنی مسولینی اور ہٹلر کی روحیں آج کل پاکستان میں بھٹک رہی ہیں۔ان آمروں کی لیڈرشپ‘ سیاسی مخالفین کو کچلنے، اظہار رائے اور میڈیا پر پابندی، تشدد اور انتقام، مسلسل جھوٹے پراپیگنڈ ے اور hypernationalism پر مبنی تھی۔بدقسمتی سے عمران خان بھی انہی سویلین آمروں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور جمہوری عمل سے زیادہ انتقامی کاروائیوں اور پراپیگنڈے پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان میں بھی پہلے عمران خان نے قومی اسمبلی میں جمہوری عمل کو غیر آئینی طریقہ سے 3 اپریل کو روکنے کی کوشش کی۔ تحریک عدم اعتماد جمہوری عمل کا حصہ ہوتا ہے لیکن قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اس وقت کے وزیر اعظم اور پارٹی لیڈر عمران خان کے حکم پر آئین شکنی کرتے ہوئے ووٹنگ کرانے کی بجائے اسے مسترد کر دیا۔ سپریم کورٹ نے 5-0 کے متفقہ فیصلہ سے 9 اپریل کو ووٹنگ کرانے کا حکم صادر کیا تو اس دن عمران خان آخری گھنٹہ تک اسے رکوانے کی اس وقت تک کوشش کرتے رہے جب تک انہیں باور نہیں کرادیا گیا کہ آئین اورسپریم کورٹ کے حکم پر من و عن عمل کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ عمران خان پاکستان کے آئین کی دھجیاں اڑانے والے پہلے سویلین بن گئے جس کی وجہ سے انہیں ہٹلر سے تشبیہ دی جاتی رہی۔ چنانچہ بادل نخواستہ نصف شب سے چند لمحے پہلے ووٹنگ کا عمل شروع ہوا جس میں میاں شہباز شریف مطلوبہ ووٹ حاصل کرکے وزیر اعظم بن گئے۔
ادھر دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں عمران خان کے اتحادی اور ان کے وزارت اعلی کے امیدوار چوہدری پرویز الہی غیر جمہوری، غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر پارلیمانی ہتھکنڈے جاری رکھ کر پنجاب اسمبلی کا نہ صرف اجلاس ملتوی کراتے رہے بلکہ خاردار تار لگا کر باقاعدہ اسمبلی کی تالہ بندی کر دی۔ان کے کارِ خاص سیکرٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی نے تمام غیر قانونی اقدامات میں چوہدری پرویز الہی کا ساتھ دیا اور جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ لاہور ہائی کورٹ نے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی صدارت میں 16 اپریل کووزیر اعلی کے انتخاب کا حکم دیا کیونکہ سپیکر چوہدری پرویز الہی خود امیدوار تھے تو اسے بھی روکنے کے تمام شرمناک ہتھکنڈے استعمال کئے اور نت ہاؤس گجرات سے باقاعدہ غنڈے اور اشتہاری بلا کر اسمبلی میں داخل کئے گئے جنہوں نے بلوہ کرکے انتخاب رکوانے کی ہرممکن کوشش کی۔ اجلاس کے شروع ہوتے ہی پی ٹی آئی اور قاف لیگ کے اراکین نے ڈپٹی سپیکر پر حملہ کیا جس کے بعد باہر سے آنے والے بدمعاشوں نے بھی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملے کئے۔ پانچ چھ گھنٹے تک پنجاب اسمبلی کا ایوان میدان جنگ بنا رہا۔اس عمل کی ویڈیو فوٹیج محفوظ اور وائرل بھی ہو گئیں جو اب تاریخ کا حصہ بن کر ہمیشہ کے لئے چوہدری پرویز الہی کو چھوٹا ہٹلر ثابت کرتی رہیں گی۔ اس موقع پر آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری نے بروقت صورت حال کو کنٹرول کرکے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کروایا جس کی وجہ سے وزیر اعلی کا انتخاب ممکن ہوا اور جس میں حمزہ شہباز 197 ووٹ لے کر پنجاب کے وزیر اعلی منتخب ہو گئے۔
مجھے گجرات کے چوہدری خاندان کے تقسیم ہونے پر ذاتی طور پر بہت دکھ ہے کیونکہ گذشتہ چالیس پچاس سال سے میں چوہدری برادران کو ایک جان دو قالب کے طور پر دیکھتا چلا آ رہا تھا۔ چوہدری ظہور الہی کے وقت سے چوہدری خاندان اپنی وضع داری اور سیاست میں دی گئی زبان پر سختی سے کاربند رہنے کے لئے جانا جاتا تھا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے فرزند چوہدری شجاعت حسین نے اپنیے والد کی سیاسی اور اخلاقی روایات کو آگے بڑھایا اور پچھلے 40 سال سے وہ اس پر قائم ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو چوہدری خاندان نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کی کمٹمنٹ کی لیکن پھر اچانک چوہدری پرویز الہی پینترا بدلتے ہوئے عمران خان کے ساتھ مل گئے۔ میں نے تین ہفتے پہلے بھی لکھا تھا کہ چوہدری پرویز الہی نے وزیر اعلی بننے اور بیٹے مونس الہی کی وزارت بچانے کے لئے یہ گھاٹے کا سودا کیا ہے کیونکہ نہ تو مونس الہی کی وزارت بچنی ہے اور نہ انہیں وزارت اعلی ملنی ہے لیکن اس طرح وہ خاندان کی 60 سالہ سیاسی تاریخ میں خاندان کو تقسیم کر بیٹھیں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے چوہدری شجاعت حسین کی خاندانی روایات اور اپنی دی گئی زبان کی پاسداری پر یقین تھا اور بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔ چوہدری خاندان تقسیم ہو چکا ہے، تحریک عدم اعتماد میں چوہدری شجاعت حسین کے بیٹے چوہدری سالک حسین اور طارق بشیر چیمہ نے قراردار کے حق میں ووٹ دیا جبکہ مونس الہی نے عمران خان کا ساتھ دیا۔پچھلے دو تین ہفتوں کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ عمران خان نے اپنی حکومت بچانے کے لئے آئین، قانون اور پارلیمانی روایات کے ویسے ہی پرخچے اڑائے جیسا کبھی وہ بطور فاسٹ باؤلر مخالف ٹیم کے بیٹسمینوں کے اڑایا کرتے تھے۔ پہلے قومی اسمبلی اور پھر پنجاب اسمبلی میں ہونے والے واقعات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہٹلر اور مسولینی کی روحوں نے پاکستان میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ قومی اسمبلی میں عمران خان نے آئین شکنی کرکے اپنا نام ہمیشہ کے لئے تاریخ میں اپنا نام سیاہ حروف میں درج کروایا ہے اور ایک فرضی خط کی کہانی گھڑ کر مغربی ممالک اور خصوصا امریکہ سے پاکستان کے تعلقات کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ اس وقت وہ اپنے جلسوں میں قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے کی کوششوں پر عمل پیرا ہیں۔