کیا پاکستان کے دیرینہ مسئلے کا حل جنرل الیکشنز ہیں؟

   کیا پاکستان کے دیرینہ مسئلے کا حل جنرل الیکشنز ہیں؟
   کیا پاکستان کے دیرینہ مسئلے کا حل جنرل الیکشنز ہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا کامیاب ہونا اگر ”رجیم چینج“ نہیں تو اور کیا ہے؟
فوج کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ جس خط کا اتنا واویلا مچایا جا رہا ہے، اس میں سیکیورٹی کمیٹی کے Minutes (مندرجات) میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ وہ ایک سازش ہے اور لفظ سازش (Consipracy) استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ لیکن اس کے علاوہ اور جو کچھ کہا گیا وہ سازش سے بھی کہیں بدتر اور پاکستان مخالف لفظ Balatant Intervention یعنی ”ننگی جارحیت“ ہے۔ یعنی اگر سازش کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا تو ننگی جارحیت کا استعمال سازش سے بھی مکروہ تر لفظ ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ میں یہ استدلال کہ لفظ ”سازش“ تو اس خط یا سیکیورٹی کمیٹی کے منٹس میں کہیں بھی نہیں، فوج کی طرف سے ایک ایسا جواب تھا جس پر کسی بھی صحافی نے یہ سوال نہ اٹھایا کہ اگر ’سازش‘ نہیں تو ”ننگی جارحیت“ تو کی گئی۔ بہتر ہوتا اگر جنرل بابر افتخار یہ استدلال کرتے کہ پاکستان کو امریکہ کی ضرورت ہے اور ہم امریکہ کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تو میرا خیال ہے یہ ایک حقیقت پسندانہ اعتراف ہوتا۔
عمران خان کے حمائتی اور ان سے قلبی ارادت رکھنے والے حضرات و خواتین سے اگر یہ سوال پوچھا جاتا کہ پاکستان کی بقاء اور خوشحالی کے لئے کیا ہمیں چین کی طرف دیکھنا چاہیے یا کیا روس سے کسی بڑے فنانشل پیکیج کی امید ہے، تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اگر سوال یہ ہے کہ اگر کسی ملک کی خود داری اور بقاء میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو ہم پاکستانی کس کا انتخاب کریں گے؟ میرے خیال میں فوج کے سامنے یہی سوال ہوگا جس نے سابق وزیراعظم اور فوج کی ٹاپ عسکری قیادت کے درمیان اختلافی دڑاڑ ڈال دی ہوگی۔
اور جہاں تک امریکہ کو پاکستان کی سرزمین میں فوجی اڈے دینے کا سوال تھا تو اس کے جواب میں خان صاحب کو Asolutely Not کہنے کی بجائے ڈپلومیٹک زبان کا سہارا لینا چاہیے تھا۔ بعض اوقات فنِ سفارت کاری میں ہاں کو نہیں اور نہیں کو ہاں میں تبدیل کرنے سے پہلے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے اس کا اثر ملک کی بقاء پر کیا پڑے گا…… اگر رجیم چینج سے ملک کی سلامتی بچ سکتی ہو تو اسے بچانے میں کیا حرج تھا؟ غیرت اور حمیت دونوں بڑے دلکش اور دلنواز الفاظ ہیں۔ لیکن غیرت کا دفاع کرنے کے لئے جب تک آپ کے پاس مطلوبہ وسائل نہ ہوں تب تک سفارت کارانہ آدابِ جہاں بانی سے کام لینا ضروری ہوتا ہے…… عمران خان نے Absolutily Not کہہ کر جس قومی غیرت کو Portrayکیا وہ بے شک قابلِ ستائش فعل ہے۔ لیکن تاریخِ عالم ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب غیرت اور مصلحت میں سے موخر الذکر کا انتخاب وقت کی اہم تر ضرورت بن جاتا ہے…… کیا خانہ ء کعبہ سے مقدس اور کوئی مقام دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے زیادہ باعثِ تکریم تھا اور ہے؟…… لیکن کیا تاریخ میں یہ نہیں لکھا کہ قرامطہ نے مکہ مکرمہ پر حملہ کرکے حجرِ اسود کو وہاں سے ہٹا دیا تھا اور اپنے ساتھ لے گئے تھے؟
یہ عالم اسلام کی تاریخ کی ایک دلگداز داستان ہے کہ جب 696ء میں حضرت عبداللہ بن زبیر خانہ کعبہ میں پناہ گزین ہوئے تو حجاج بن یوسف کی فوج نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھر برسائے اور پھر آگ لگا دی جس سے حجرِ اسود کے تین ٹکڑے ہو گئے…… پھر عباسی خلیفہ معتصم باللہ کے عہد میں ایک قرامطی سردار  ابو طاہر حجر اسود اکھاڑ کر بحرین لے گیا اور 23سال بعد فاطمیوں کی مداخلت کی بدولت بھاری تاوان وصول کرکے واپس کیا۔ (المعتصم باللہ خلافتِ عباسیہ کا 8واں خلیفہ تھا جو 833ء سے لے کر 842ء تک بغداد میں سریر آرائے حکومت رہا۔ وہ خلیفہ ہارون الرشید کا بیٹا تھا!)
قرآن حکیم کا مطالعہ کیجئے۔ آپ کو ایسی ایسی عجیب و غریب روایات پڑھنے کو ملیں گی جن کی سچائی سے (نعوذ باللہ) انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اللہ کا حکم یہی ہے کہ وہ اگر ایک قوم کو کسی دوسری قوم پر مسلط کر دیتا ہے تو یہ اس کی رضا ہے اور رضائے الٰہی سے نعوذ باللہ روگردانی نہیں کی جا سکتی…… پاکستان کو اگر اپنی سرزمین پر امریکی فوجی اڈے دینے سے انکار ہی کرنا تھا تو اس انکار کے پیرایہ ہائے اظہار Absolutily Not سے الگ اور بہتر اور بھی ہو سکتے تھے۔ کیا ضرور تھا کہ یہ سچ بول کر اپنی اس آزادی کا اظہار کیا جاتا جس کی حفاظت ہمارے لئے ممکن نہ تھی…… یہ اگرچہ ایک متنازعہ بحث ہے اور اس پر تنقید و تبصرہ کی وسیع گنجائش موجود ہے لیکن خود ہمارے دور میں اس سکّے کا دوسرا رخ بھی دکھایا جاتا رہا ہے۔ سعدی کا وہ قول کہ ”دروغِ مصلحت آمیز بہ از راستیء فتنہ انگیز“ اسی صورتِ حال کے لئے بولا  جاتا ہے اور جہاں تک جنرل بابر افتخار کا یہ استدلال کہ امریکہ نے پاکستان سے کوئی اڈے (Bases) مانگے ہی نہیں تو وہ محلِ نظر ہے۔ عمران خان نے جس صحافی کے سوال کے جواب میں Absolutily Not کہا تھا، اس کلپ کو نکال کر میڈیا پر چلایا جا سکتا ہے۔ اگر وہ سوال نہیں تھا تو پھر خان صاحب کو کیا ضرورت پیش آئی کہ انہوں نے ڈنکے کی چوٹ اور دوٹوک ”ہرگز نہیں“ والا جواب استعمال کیا۔ اور پھر فوج کے ترجمان نے جب یہ کہا کہ اگر کوئی امریکی پاک فوج سے یہی سوال کرتا تو فوج کا جواب بھی ”ہرگز نہیں“ ہوتا تو ان کا یہ جملہ بھی عین مین وہی ہے جو عمران خان نے کہا اور جس کی پاداش میں ان کو وہ دن دیکھنا پڑا جس کے جواب میں اب خان صاحب پورے پاکستان کی رائے عامہ کو موبلائز کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔
اور جہاں تک سپریم کورٹ کے فیصلے کا تعلق ہے تو اس سیاسی تنازعے سے بقول جنرل بابر، فوج کا کوئی لینا دینا نہیں۔ سپریم کورٹ کے کسی فاضل جسٹس صاحب پر تنقید نہیں کی جا سکتی لیکن ان کے کسی فیصلے پر تو تنقید کرنا ناروا نہیں اور ان کے اسی فیصلے پر تنقید ہو بھی رہی ہے۔ پشاور والے جلسے میں عمران خان نے جب یہ کہا کہ گزشتہ 45سالہ تاریخ میں انہوں نے عدلیہ کی کوئی حکم عدولی نہیں کی اور پھر یہ سوال بھی کیا کہ: ”اگر میرا ٹریک ریکارڈ یہ تھا تو رات کے 12جے سپریم کورٹ کے دروازے کھولنا، چہ معنی دارد؟“…… خان صاحب کی اس دلیل میں جو وزن ہے اس کا ابطال بادی النظر میں مشکل نظر آتا ہے اور جنرل ہارون اسلم (ریٹائرڈ) نے جو یہ کہا کہ اگر کسی فاضل جج کا کسی مقدمے میں ”مفاداتی ٹکراؤ“ (Conflict of Interest) ہو تو جج کو اس مقدمے سے الگ ہو جانا چاہیے،قابلِ توجہ ہے پاکستان کی عدالتی تاریخ بلکہ دنیا بھر کی عدالتی تاریخ میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب کسی جج / جسٹس کا ذاتی مفاد، وجہِ تنازعہ کے امکانات سے مملو ہو تو فاضل جسٹس کو وہ کیس نہیں سننا چاہیے۔ میں قانون کا طالب علم نہیں ہوں لیکن انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ اگر اتنا بڑا اور اتنا اہم کیس زیرِ بحث تھا تو اس میں Conflict of Interest کے اصول کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔ اگر فاضل عدلیہ نے اس کا خیال نہیں رکھا تو اس کی وجوہات بھی ہوں گی۔ ہماری عدالت ہائے عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ماضی میں اس میں کئی مقامات ایسے بھی آئے جن سے صرفِ نظر کیا جا سکتا تھا…… اب موجودہ کیس میں اگر کہا جا رہا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے ”نظریہء ضرورت“ کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا ہے تو یہ ایک دل خوش کن ”خبر“ ہے جس کی توثیق جنرل بابر نے یہ کہہ کر کر دی کہ اب مارشل لاء لگنے کا کوئی امکان نہیں۔ 
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال بہت سنگین اور سیال (Fluid) ہے۔ میری نظر میں اس کا واحد حل عام انتخابات ہیں۔ وہ آج ہوتے ہیں یا اگست 2023ء کے بعد، ان کے نتائج کے پیش نظر ہی پاکستان کے سیاسی مستقبل کی کوئی واضح صورت سامنے آئے گی۔
فی الحال کہا جا رہا ہے کہ اس سیال صورتِ حال کو کوئی ٹھوس شکل اختیار کرنے سے پہلے کچھ دیر انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ انتظار  17ماہ (اپریل 2022ء تا اگست 2023ء) بھی ہو سکتا ہے اور 7ماہ یا اس سے کم بھی۔ اس کا  دار و مدار عوامی قرار اور بے قراری پر منحصر ہے۔ اگر عمران خان رائے عامہ کو اس قدر اکسا اور موبلائز کر سکتے ہیں کہ موجودہ حکومت اور ملک کے دو دوسرے مقتدر اور اہم ادارے (فوج اور سپریم کورٹ) یہ محسوس کریں کہ ملک کی بقاء، اس کی سلامتی اور اس کے استحکام کا دار و مدار نئے الیکشنوں پر ہے تو یہ ایک نیک فال ہوگی اور ہمارے خیال میں آنے والے ادوار میں ہمیشہ کے لئے اس سوال کا ایک کافی و شافی حل نکل آئے گا کہ ہر دوچار سال کے بعد پاکستان کا مریض اتنا زیادہ جاں بلب کیوں ہو جاتا ہے کہ اس کو  ونٹی لیٹر پر رکھنے کی ضرورت آن پڑتی ہے!

مزید :

رائے -کالم -