الوداع۔۔۔۔بلقیس ایدھی ۔۔۔۔الوداع
15اپریل 2022ء کو ملنے والی یہ خبر کس قدر افسوسناک تھی کہ اہل پاکستان ”مادر پاکستان“ سے محروم ہو گئے۔ عالمگیر شہرت کی حامل پاکستان کی سب سے بڑی سماجی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کی سربراہ اور تنظیم کے بانی عبدالستار ایدھی مرحوم کی بیوہ بلقیس ایدھی پاکستان کے لاکھوں یتیموں، مسکینوں، بیواؤں، لاوارثوں اور بے سہاروں کو خدا حافظ کہہ گئیں۔ ایسی ماں جس کے سینے میں ہر بے سہارا کا دل دھڑکتا تھا، ایسی گود جو یتیموں کی پرورش کو اپنا فرض اولین گردانتی تھی، جو نادارو ں کی امید اور لاوارثوں کے لئے حوصلے کی وعید تھی، جو بے یارو مددگار لوگوں کے لئے روشنی کی کرن تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ذاتی مفاد، تشہیر کا شوق یا تصنع و ظاہری رکھ رکھاؤ اس کے پاس سے نہیں گزرے تھے، سماجیات کا وہ کوہ گراں ہم سے بچھڑ گئی۔ جس پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر دردمند کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، خدمت خلق کے شعبہ میں دنیا کی جانی پہچانی شخصیت، عبدالستار ایدھی کی بیوہ کی وفات حسرت آیات پر نا صرف پاکستان بلکہ بھارت، لبنان اور شام سمیت دنیا بھر میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی۔ دکھی اور لاچار انسانیت کی محسن کو جن الفاظ میں بھی خراج عقیدت پیش کیا جائے کم ہے کہ اس نے بے سہاروں کو حقیقی سہارا فراہم کرنے کے لئے کوئی کسر چھوڑی نہ کوئی دقیقہ فروگزاشت کیا۔
بلقیس بانو ایدھی کی حیات زیست پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بچپن میں ایک شرارتی لڑکی کے طور پر آنکھ کھولنے والی بلقیس کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ لاکھوں یتیموں، لاوارثوں اور بے سہاروں کو سایہء مادر فراہم کرنے کا باعث بنے گی۔ سماجی خدمات کی ادائیگی میں جو مرتبہ اور رتبہ بلقیس ایدھی کو نصیب ہوا وہ شاید کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ خاتون ہونے کے باوجود سماجیات کی صف اول میں جو کارہائے نمایاں بلقیس ایدھی نے انجام دیئے وہ قابل تحسین بھی ہیں اور قابل تقلید بھی۔ ان کی والدہ رابعہ تقسیم ہند کے بعد 19 سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی تھیں۔ بلقیس ایدھی کے علاوہ ان کے دو بیٹے تھے۔ رابعہ اپنی والدہ، بہن اور بھائی کے ہمراہ پاکستان آئیں۔ یہاں بلقیس کے ماموں نے کاوبار شروع کیا لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ بلقیس کی والدہ نے دوسری شادی نہیں کی اور ایک خاتون ٹیچر کے پاس 20 روپے کی ماہانہ نوکری کرلی۔ یہ خاندان کراچی کے علاقے کھارادر میں دو کمروں میں رہائش پذیر تھا۔عبدالستار ایدھی کی سوانح حیات‘اے مِرر ٹو دی بلائنڈ’میں تہمینہ درانی لکھتی ہیں کہ بچپن میں بلقیس کو فلمیں دیکھنے کا شوق تھا اور وہ اپنی سہیلیوں کے ہمراہ دوپہر کا شو دیکھتی تھیں۔ اس کے علاوہ کھارادر اور میٹھادر کی گلیوں سے چھابڑی والوں سے کچھ نہ کچھ خرید کر کھاتی تھیں۔
سکول میں اگر کوئی نوٹس نہیں دیتا تو اس کی کاپیاں اٹھا کر پھینک دیتی تھیں، کبھی لڑکیاں تکرار کرتیں تو وہ ان کے قلم، چشمے اور پنسل بکس اٹھا کرپٹخ دیتیں اور استانیاں روز ان کے کان کھینچتیں اور کلاس سے باہر نکال دیتی تھیں۔ بلقیس کی عمر 16 سال تھی جب ان کی خالہ اُنھیں ایدھی کی ڈسپینسری میں کام کے لیے لے گئی تھیں۔ اپنی سوانح حیات میں ایدھی نے بتایا کہ اُنھوں نے بلقیس کی خالہ سے سوال کیا تھا کہ اس لڑکی کی عمر تو چھوٹی ہے کیا یہ سکول نہیں جاتی؟ تو خالہ نے کہا تھا کہ پورے 16 سال کی ہے لیکن اس کو پڑھنے سے رغبت نہیں، یہ بس کام کرنا چاہتی ہے۔
بلقیس ایدھی نے بتایا تھا کہ ڈاکٹروں نے ایدھی صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ نرسنگ سکول شروع کریں، اس کی اشد ضرورت ہے، جس کے بعد اُن سمیت کئی لڑکیوں نے وہاں داخلہ لیا۔
وہ بتاتی تھیں‘میں سلائی سیکھنے جاتی تھی۔ ایک روز ٹیچر نے مجھے مارا جس کے بعد میں نے کہا کہ اب وہاں نہیں جاؤں گی اور پھر میں یہاں نرسنگ میں آ گئی۔’
عبدالستار ایدھی شوخ، چنچل اور حسین بلقیس کے سحر میں گرفتار ہو گئے۔ اپنی سوانح حیات میں اُنھوں نے بتایا تھا کہ کئی نرسوں نے ان کا رشتہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، اس لیے ہمت نہیں ہوتی تھی، بالاخر اُنھوں نے بلقیس سے بات کی اور انھوں نے رضامندی ظاہر کی جس کے بعد بلقیس کی والدہ تک پیغام پہنچایا جنھوں نے مالی حالات پر فکرمندی کا اظہار کیا کہ‘میری بیٹی کھائے گی کیا۔’
ایدھی نے جواب بھیجا کہ‘میں نہ تو کسی کے بھروسے پر زندہ ہوں اور نہ ڈسپینسری سے کچھ لے رہا ہوں، ذاتی آمدن سے پورے خاندان کو سنبھال سکتا ہوں۔’
بلقیس ایدھی نے بتایا تھا کہ‘ایدھی صاحب اور میری عمر میں کافی فرق تھا۔ کئی لڑکیوں نے منع کر دیا تھا کہ اُن کی داڑھی ہے۔ میری والدہ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا کہ اُن سے شادی کروا دیں۔’
والدہ نے بلقیس کو نئے کپڑوں کے لیے 500 روپے اور 15 تولہ سونا جہیز دیا جبکہ باورچی خانے کا ضروری سامان پہلے سے جمع تھا لیکن ایدھی نے یہ سب لینے سے انکار کر دیا اور یوں 9 اپریل 1966 کو دونوں کی شادی ہو گئی۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عبدالستار ایدھی کو لوگوں نے کہا تھا کہ اگر وہ اس لڑکی‘بلقیس’سے شادی کریں گے تو ان کا مشن ختم ہو جائے گا لیکن بعد میں اسی شرارتی و چنچل لڑکی نے ان کے ساتھ ان کے مشن کو بھی اپنایا اور اپنا مقام بنایا۔
بلقیس ایدھی نے بتایا تھا کہ جب اُنھوں نے کراچی میں دواخانہ قائم کیا تو لوگوں سے اپیل کی کہ‘بچوں کو کچرے میں نہ پھینکیں بلکہ ایسے بچوں کو ہمارے حوالے کردیں ’۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے دواخانے میں ایک جھولا لگایا تھا۔ پھر پاکستان کے تمام سینٹروں میں ایسے جھولے لگائے گئے جہاں لوگ بچوں کو چھوڑ جاتے ہیں اور ان سے کوئی سوال نہیں کرتا۔
بلقیس ایدھی کے یوں تو پانچ بچے ہیں مگر ان کی حیثیت ان ہزاروں بچوں کی ماں کی سی تھی جنھیں ان کے اپنے کسی گندگی کے ڈھیر یا ایدھی سینٹر کے پالنے میں چھوڑ گئے تھے۔
ایدھی ہومز میں ہم نے معذور بچے بھیموجود ہیں، جنھیں ان کے رشتے دار چھوڑ جاتے تھے جن کی پرورش بلقیس ایدھی کرتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ‘مجھے ایسا کبھی محسوس نہیں ہوا کہ یہ میرے بچے نہیں ہیں، جب یہ بچے مجھے ماں پکارتے ہیں تو دل بڑا ہوجاتا ہے۔’
تمام بچے اور ایدھی سٹاف اُنھیں‘ممی’کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ اتنی ممتا میں ان کے حقیقی بچے بھی شامل تھے۔ بلقیس کا کہنا تھا کہ ان کے پانچوں بچوں نے کبھی شکایت نہیں کی کہ میں اُنھیں وقت نہیں دیتی، وہ تو خود میرا ہاتھ بٹاتے ہیں۔’
بلقیس ایدھی بچوں کے ساتھ ان بے سہارا اور یتیم لڑکیوں کی بھی ماں تھیں جو ایدھی ہومز میں رہتی تھیں۔ ان کی شادی اور تعلیم کو بھی وہ اپنا فرض سمجھتی تھیں۔ ان کے جب بھی رشتے آتے تو ان لڑکوں اور خاندانوں کو ان کی کڑی پوچھ گچھ سے گزرنا پڑتا تھا۔ وہ لڑکیوں کی بھی ان سے ملاقات کرواتی تھیں تاکہ وہ بھی اُنھیں دیکھ کر جواب دیں۔
بلقیس ایدھی کہتی تھیں کہ‘ہم چاہتے ہیں کہ لڑکا شریف ہو اور کام کاج کرتا ہو۔ ہم لڑکی کو لڑکا اور اس کا گھر دکھاتے ہیں اگر وہ ہاں کرتی ہے تو بات آگے بڑھائی جاتی ہے۔’
ان لڑکیوں کی جب بھی شادی ہوتی تو مہندی مایوں سے لے کر تمام رسمیں ادا کی جاتی تھیں، لڑکیاں ڈھول بجاتی تھیں اور اپنی سکھی کی خوشی میں شریک ہوتیں اور اس میں بزرگ بلقیس بھی شامل ہوتیں تھیں۔
یہ امر کس قدر عالی ظرف اور خوش کن ہے کہ بلقیس ایدھی اسی ڈسپینسری کے کمرے میں رہتی تھیں جہاں وہ کام سیکھنے آئیں تھیں۔ تین منزلہ عمارت میں پہلی منزل پر انتظامی دفتر اور مردوں کا دواخانہ ہے، دوسری منزل پر میٹرنٹی ہوم اور بلقیس ایدھی کا کمرہ جبکہ تیسری منزل پر پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کے کمرے، کلاس روم اور کچن ہے۔
بلقیس ایدھی کو ایک ارمان تھا اپنے گھر کا، وہ کہتی تھیں کہ اُنھوں نے بار بار ایدھی کو کہا کہ اپنا گھر دلا دو جو تین کمروں کا ہو، جہاں گیلری ہو تاکہ وہ اُس میں کپڑے دھو کر سکھا سکیں لیکن انھوں نے کبھی بات نہیں مانی۔
‘شادی کے بعد میں اکثر لڑتی جھگڑتی تھی کیونکہ ایدھی صاحب نے کبھی نارمل گھریلو زندگی نہیں اپنائی، اپنا گھر لے کر نہیں دیا۔ میں اُن کے پاس رہتی تو ہمارے بچے میری والدہ کے گھر رہتے تھے۔’بلقیس بتاتی تھیں کہ ابتدا میں وہ ڈسپینسری کی چھت پر رہتے تھے۔ ان کے تین بچے ہوئے تو ایدھی صاحب نے وہاں ہی ٹی بی وارڈ کھول لیا۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ آپ کے بچے چھوٹے ہیں، اب یہاں ٹی بی وارڈ کھل گیا ہے، آپ یہاں سے چلے جاؤ تو انھوں نے مجھے میری ماں کے پاس بھیج دیا۔’لاغر و بیمار لوگ، لاوارث بچے اور لاوارث لاشیں جن کو کوئی نہیں اپناتا یا سنبھالتا تھا، ان کو یہ خاندان سنبھالتا آیا۔ بلقیس ایدھی بتاتی تھیں کہ ایدھی صاحب جب بھی کراچی سے باہر ایمبولینس میں میت چھوڑنے جاتے تھے تو انھیں ساتھ لے جاتے تھے۔‘یہی ہمارا گھومنا پھرنا ہوتا تھا، اس کے علاوہ زیادہ کہیں نہیں آتے جاتے تھے، اُن دنوں مجھے میں اتنی سمجھ بوجھ نہیں تھی کہ میت کے ساتھ بچوں کو نہیں بٹھاتے لیکن ہم بے پرواہ ہوتے تھے۔’بلقیس ایدھی نے مشکلات کے باوجود عبدالستار ایدھی کا ساتھ نہیں چھوڑا، جب اُنھوں نے دوسری شادی کی اور بعد میں ختم کر دی تب بھی ان میں تلخی نہیں آئی تھی۔
وہ پاکستانی ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتیں اور تبصرے بھی کرتی تھیں، اس روز ان سے ملنے ایک خاتون آئی تھی جس کی اُنھوں نے پرورش کی اور شادی کی تھی اور وہ اپنے بیٹے کے لیے رشتہ چاہتی تھی۔بلقیس ایدھی نے اُنھیں صاف کہا کہ چاہے تمہارا بیٹا ہو، لیکن کردار ٹھیک ہو گا، کام کاج کرتا ہو گا، تو ہی میں‘اپنی’لڑکی کی شادی کرواؤں گی۔
اُن کی شرائط میں ایک شرط یہ بھی ہوتی تھی کہ لڑکی کو مہینے میں ایک بار سمندر پر لے جائے گا اور آئس کریم کھلائے گا یا کولڈ ڈرنک پلائے گا۔ایسا محسوس ہوا کہ وہ چاہتی ہیں کہ جو محرومیاں انھوں نے دیکھیں، وہ دوسروں کو نہ ملیں۔
بلقیس ایدھی کا کہنا تھا کہ انہوں نے محض 16 سال کی عمر میں ایدھی صاحب کے قائم کردہ نرسنگ ٹریننگ اسکول میں داخلہ لیا اور نرسنگ کی باقاعدہ پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی۔ ان کی محنت، لگن اور جوش وجذبے کو دیکھتے ہوئے ایدھی صاحب نے نرسنگ کے اس ادارے کی ذمہ داریاں انہیں سونپ دیں۔ بلقیس ایدھی کے مطابق، اس دور میں نرسنگ کے شعبے کی طرف خواتین کا رجحان بہت کم تھا۔ ”انہوں نے اس ادارے میں دو برس تک جانفشانی اور انتہائی لگن کے ساتھ کام کیا اور یہی محنت اور جذبہ ہی عبد الستار ایدھی کے دل میں بھی گھر کر گیا۔ یوں 1966ء میں بلقیس بانو، عبد الستار ایدھی کی رفیق حیات بن گئیں۔ شادی کے بعد ان دونوں سماجی شخصیات نے بہت سے نئے فلاحی کاموں کا آغاز کیا۔ بے گھر ہونے والی خواتین کو ادارے میں جگہ دینا ہو یا ایدھی میٹرنٹی ہوم میں زچہ وبچہ کی دیکھ بھال کرنا ہو، اس طرح کے خواتین سے متعلق تمام فلاحی کاموں کی نگرانی بلقیس ایدھی کرنے لگیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں سے متعلق فلاحی کاموں کے لیے بلقیس ایدھی نے بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیادبھی رکھی۔ یہ فاؤنڈیشن لاوارث بچوں کی دیکھ بھال سے لے کر لاوارث اور بے گھر لڑکیوں کی شادیاں کروانے کی ذمہ داری انجام دیتی ہے۔ اس فاؤنڈیشن کا کام بلقیس ایدھی اپنی دو بیٹیوں اور الگ عملے کے ساتھ دیکھتی رہیں۔ناجائز بچوں ’کو قتل سے بچانے کے لیے جھولا پراجیکٹ بلقیس ایدھی کے نمایاں ترین فلاحی کاموں میں سے ایک تھاجوناجائز’بچوں کی زندگی بچانے کے لیے شروع کیا جانے والا جھولا پراجیکٹ قرار دیا جا سکتاہے۔ اس تناظر میں پاکستان بھر میں قائم ایدھی فاؤنڈیشن کے ہر مرکز کے باہر ایک جھولا رکھا ہے جس پر لکھا ہے ’بچوں کو قتل نہ کریں، جھولے میں ڈال دیں ’۔ ان جھولوں میں لوگ ایسے بچوں کو خاموشی سے ڈال جاتے ہیں جو کسی بھی وجہ سے خاندان کے لیے قابل قبول نہیں ہوتے۔ ان بچوں کو ایدھی سینٹر میں پالا پوسا جاتا ہے۔ پھرانہیں بے اولاد والدین کو دینے کے کام کی نگرانی بھی بلقیس ایدھی کی ذمہ داری رہی۔ بلقیس ایدھی کا کہنا تھا کہ اب تک تقریبا 16000لاوارث بچوں کو بے اولاد والدین کے حوالے کیا جا چکا ہے۔ ”صرف یہی نہیں بلکہ کئی ہزار خواتین کو پناہ دینے، انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور کسی وجہ سے اپنے گھر سے ناراض ہو کر آنے والی خواتین کی ان کے خاندان کے ساتھ صلح کرا کے انہیں ان کو بحفاظت گھروں تک پہنچانے جیسے کام بھی بلقیس ایدھی انجام دیتی رہیں۔
2015ء بلقیس ایدھی نے پڑوسی ملک بھارت سے تعلق رکھنے والی سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم لڑکی گیتا کی 15 برس تک دیکھ بھال کی۔ گیتا 10برس کی عمر میں غلطی سے پاکستان پہنچ گئی تھی، جسے ایدھی سینٹر کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ بلقیس ایدھی کی طرف سے گیتا کا مذہبی تشخص برقرار رکھنے اور اسے اُس کے ملک واپس بھیجنے کے لیے انتھک کوششوں کا اعتراف بھارت کی طرف سے بھی کیا گیا ہے۔ اسی اعتراف کے طور پر بھارت نے بلقیس ایدھی کو مدر ٹریسا ایوارڈ 2015ء سے نوازا۔
مادر پاکستان کی خدمات کا ہر سطح پر اعتراف کیا جاتا رہا، اندرون ملک کے ساتھ ساتھ عالمگیر سطح پر بھی انہیں خوب پذیرائی ملی۔ایدھی فاؤنڈیشن میں بلقیس ایدھی کے ساتھ 14 سال سے کام کرنے والی اسما کا کہنا ہے کہ انہیں پہننے اوڑھنے کا بہت شوق تھا اور وہ ایدھی سینٹر میں لڑکیوں کی شادی اور بچوں کی سالگرہ کے لیے بہت اہتمام کیا کرتی تھیں۔
2015 میں ایک فرانسیسی رپورٹر نے ایک دستاویزی فلم کے سلسلے میں جب بلقیس ایدھی سے ملاقات کی تو انہوں نے الٹا اس سے سوال کر ڈالا کہ‘کیا آپ کو غصہ بہت آتا ہے؟’
اور جب اس صحافی نے اعتراف کیا تو بلقیس ایدھی نے چھوٹتے ہی پوچھا:‘پھر تو اپنی بیوی کو بھی مارتے ہوگے؟’یہ سن کر اس صحافی کے حقیقتاً پسینے چھوٹ پڑے۔ بلقیس ایدھی چہرہ دیکھ کر دل کا حال بتا دیتی تھیں۔جمعتہ المبارک کو 74 برس کی عمر میں انتقال کرجانے والی بلقیس ایدھی اپنے شوہر عبدالستار ایدھی کی وفات کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن کی سربراہ کے طور پرسامنے آئیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں ہلالِ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔
بلقیس بانو ایدھی کی پیدائش 1947 میں کراچی میں ہوئی تھی۔ اپنی خدمات کے باعث انہیں‘مادر پاکستان’(The Mother of Pakistan) کے نام سے بھی جانا تھا۔پیشے کے اعتبار سے وہ ایک نرس تھیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کے مطابق جب وہ آٹھویں جماعت میں تھیں تو انہوں نے نرسنگ کی تربیت کے لیے ایدھی نرسز ٹریننگ سینٹر میں داخلہ لیا تھا۔اسی دوران عبدالستار ایدھی نے انہیں شادی کی پیشکش کی اور اپریل1966 میں جب ان کی شادی ہوئی تو بلقیس ایدھی کی عمر 19 سال تھی۔ ان کے اور عبدالستار ایدھی کے چار بچے فیصل، کبریٰ، زینت اور الماس سوگواران میں شامل ہیں۔ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق شادی کے وقت عبدالستار ایدھی کے مالی حالات خستہ تھے۔ ان کے پاس صرف ایک پرانی گاڑی اور چھوٹی سی ڈسپینسری تھی، جس کی پہلی منزل پر ایک میٹرنٹی ہوم تھا، جہاں چھ سے سات بستر تھے۔گراؤنڈ فلور پر چھ بائے چھ کے ایک کمرے سے بلقیس ایدھی نے اپنی نئی شادہ شدہ زندگی کی شروعات کی اور جب لوگ اس ڈسپینسری میں اپنے بچے چھوڑ کر جاتے تھے تو ایک نئی نویلی دلہن ہونے کے باوجود بھی بلقیس ایدھی ان بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔
عبدالستار ایدھی نے 1951 میں ایدھی سینٹر کی بنیاد رکھی، جو ایک غیر منافع بخش سماجی تنظیم ہے۔ آٹھ جولائی 2016 تک عبدالستار ایدھی نے اس کی باگ ڈور سنبھالی۔ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے فیصل ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ بنے جبکہ بلقیس ایدھی انتظامی معاملات کے ساتھ میٹرنٹی ہوم اور اڈاپشن سروسز کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق بلقیس ایدھی کو اس وقت کی ڈسپینسری میں اپنا پہلا بڑا تجربہ اچھی طرح یاد ہے۔ 1971 کی جنگ دوران بم دھماکوں کے نتیجے میں کئی مسخ شدہ لاشیں دفنانے کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن لائی جاتی تھیں جہاں ان لاشوں کو غسل دیا جاتا تھا۔ بلقیس ایدھی یاد کرتی تھی کہ ان لاشوں کا صرف ایک بازو، ٹانگ یا سر برآمد ہوتا تھا۔ وہ ایدھی فاؤنڈیشن کے دیگر رضاکاروں کے ساتھ مل کر ان لاشوں کو اکٹھا کرتیں اور پھر انہیں غسل دیا کرتی تھیں۔
٭٭٭