این آئی سی ایل اراضی سکینڈل کیس سُپریم کورٹ کی ایف آئی اے کو 2ہفتوں میں لوٹی دولت واپس لانے کی ہدایت

این آئی سی ایل اراضی سکینڈل کیس سُپریم کورٹ کی ایف آئی اے کو 2ہفتوں میں لوٹی ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد (خبر نگار ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیشنل انشورنس کمپنی اراضی سیکنڈل کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ دو ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرکے لوٹی گئی قومی دولت واپس لائی جائے ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ بااثر ملزمان کو تحفظ دیا جارہا ہے ۔ جمعہ کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے این آئی سی ایل کرپشن کیس کی سماعت شروع کی تو وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر لیگل اعظم خان نے 42 کروڑ روپے کی ریکوری بارے تحقیقاتی رپورٹ پیش کی جس کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے رپورٹ مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ ایف آئی اے نے پرانی رپورٹ دوبارہ ٹائپ کرکے عدالت میںپیش کردی ہے ۔ چیف جسٹس کا ایف آئی اے حکام سے کہنا تھا کہ آپ کا ادارہ ہی آپ کے ساتھ تعاون نہیں کررہا ۔ تفتیشی افسر کا رویہ یہ ہے تو لوٹی گئی قومی رقم کی ریکوری کیسے ممکن ہوگی ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وڑائچ خاندان پر 26 کروڑ روپے واجب الادا ہیں اس کی ریکوری کا کون ذمہ دار ہے ۔ عدالتی حکام کے باوجود اب تک یہ ریکوری کیوں نہیں کی گئی ۔ قانون سب کے لیے برابر ہے قانون کی نظر میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہے جو قانون کی پاسداری نہیں کرتا اسے گرفتار کیا جائے ۔ ایف آئی اے لاہور کے ڈائریکٹر وقار حیدر کو رقوم کی ریکوری کے لیے مقرر کیا گیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ وہ وقار حیدر ہے جس نے این آئی سی ایل سیکنڈل کے تحقیقاتی افسر ظفر قریشی کو دفتر میں داخلے سے روک دیا تھا اور عدالتی حکم کے باوجود ظفر قریشی کو داخلے سے روکنے پر وقار حیدر کو توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے ۔ چیف جسٹس نے ایف آئی اے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خدا کے لیے اس کیس میں سنجیدہ ہو جائیں ۔ عدالت انگلی پکڑ کر افسران کو نہیں چلا سکتی ۔ اگر نیک نیتی سے کام کرنا ہو تو ٹیم تگڑی ہونی چاہیے ۔ محسن حبیب وڑائچ اور اکرم حبیب وڑائچ سے 26 کروڑ واپس لینے کے حکم پر بھی عمل نہیںہوا۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر لیگل نے عدالت کو بتایا کہ محسن حبیب وڑائچ کا پاسپورٹ منسوخ کرکے انہیں بلیک لسٹ کردیا گیا ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رابطہ کیا گیا ہے انہوں نے بتایا کہ این آئی سی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے 2 اراکین کے پاسپورٹ بھی منسوخ کیے گئے ہیں ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ایف آئی اے حکام سے استفسار کیا کہ 42 کروڑ روپے کی ریکوری کا کیا ہوا تو انہوں نے بتایا کہ ریکوری کررہے ہیں اور ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور وقارحیدر کو رقم کی برآمدگی کے لیے مقرر کیا گیا ہے جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ وقار حیدر کو رقم کی وصولی پر تعینات کرنا غیر سنجیدگی ہے ۔بظاہر لگتا ہے کہ ایف آئی اے بااثر ملزمان کو تحفظ فراہم کررہی ہے اور عدالت کے سامنے صرف کاغذی کارروائی کی جاتی ہے ۔ اس موقع پر اعظم خان نے بتایا کہ ڈی جی ایف آئی اے نے وقار حیدر کو ایک ہفتہ میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ عدالت نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو حکم دیا کہ این آئی سی ایل سیکنڈل کے مرکزی ملزمان کے خلاف 2 ہفتوں میں تحقیقات مکمل کی جائیں گی۔ اس موقع پر عدالت نے سابق چیئرمین این آئی سی ایل ایاز نیازی کی خلاف ضابطہ تقرری کے حوالے سے تحقیقات بارے استفسار کرتے ہوئے سیکرٹری تجارت کو طلب کرلیا ۔عدالتی وفقہ کے بعد سیکرٹری تجارت منیر قریشی عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے ایاز نیازی کی تقرری کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے کارروائی کے بارے میں استفسار کیا تو سیکرٹری تجارت نے عدالت کو بتایا کہ ایازی نیازی کی تقرری کی تحقیقات کروالی گئی ہے ۔ سیکرٹری نے کہا کہ ایاز نیازی کی تقرری درست ہوئی اس موقع پرچیف جسٹس نے کہا کہ ایاز نیازی تو مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتے تھے جبکہ عدالت نے کارروائی کاحکم دیا تھا اور سیکرٹری تجارت نے کارروائی کی بجائے ا نکوائری کروائی ۔ سیکرٹری تجارت منیر قریشی نے کہا کہ عدالت انہیںمہلت دے تاکہ وہ عدالت کے سابقہ احکامات کا ریکارڈ چیک کر سکیں جس پر عدالت نے مزید سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی ۔

مزید :

صفحہ اول -