عدلیہ حکومت محاذ آرائی! مصالحت کی کوشش کا میاب ہو گی؟
وفاقی وزیر قانون فاروق اے نائیک نے عدالت عظمیٰ کے بڑے بنچ کے روبرو بیان دیتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ عدالت وسیع القلبی کا مظاہرہ کرے، حکومت خط لکھنے کے حوالے سے عدالتی تجویز سمیت کئی دوسرے آپشنز پر بھی غور کر رہی ہے۔ فاضل بنچ کے سربراہ آصف سعید کھوسہ نے جواباً کہا کہ وزیراعظم کا معاملہ مو¿خر کرنے یا نہ کرے پر غور27اگست ہی کو ہو گا جس روز وزیراعظم کو عدالتی ہدایت کا جواب دینا ہے، عدالت عظمیٰ میں این آر او کیس میں نظرثانی اپیل کی سماعت کے دوران ایک بار پھر یہ ذکر آیا کہ عدلیہ نے صدر کا نام لے کر خط لکھنے کو نہیں کہا۔ عدالت تو چاہتی ہے کہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم نے سوئس حکام کو جو خط لکھا کہ سوئس عدالتوں میں منی لانڈرنگ کے زیر سماعت کیس سے حکومت لاتعلق ہوئی ہے، وہ بند کر دیئے جائیں۔ اس خط کی تنسیخ کے لئے کارروائی کی جائے اور خط لکھ کر اسے واپس لے لیا جائے۔
ہم یہ نہیں سمجھتے کہ سابق وزیراعظم گیلانی کے ساتھ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کے باعث جو سلوک ہوا موجودہ وزیراعظم کی طرف سے اسی طرح کے رویے کے باوجود کوئی مختلف سلوک کیا جا سکتا ہے۔ حکومتی وکلاءاور پیپلزپارٹی کے اس مو¿قف کے باوجود کہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیجنے کا فیصلہ درست نہیں ہے اسے تحفظات کے ساتھ عدلیہ کے احترام میں قبول کیا گیا۔
سوئس حکام کو خط لکھنے اور این آر او کیس کی وجہ سے عدلیہ اور حکومت کے درمیان جو تناﺅ پیدا ہوا وہ مسلسل جاری ہے اور کچھ عرصہ سے کوشش ہو رہی ہے کہ کسی طرح اس کو ختم کیا جا سکے۔ یہاں ایک مشکل مسئلہ یہ ہے کہ عدلیہ اب خود مختار اور آزاد ہے اور عدلیہ کے بارے میں کوئی بات کرنے سے قبل ہزار بار سوچنا پڑتا ہے۔ خصوصاً ہم جیسے بوڑھے لوگ جو کورٹس رپورٹنگ کا تجربہ بھی رکھتے ہیں یہ جانتے ہیں کہ جج جہاں بھی ہو وہ جج ہی ہوتاہے، بلکہ کہا تو یہاں تک جاتا ہے کہ اگر فاضل جج واش روم میں بھی ہوں، تو وہ جج ہی ہوتے ہیں، ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ عدلیہ کے معزز اراکین نے عدالتی اوقات کے بعد گھر پر بھی کئی ضمانتیں منظور کیں۔ اس لئے ہم تو نہیں لکھتے، لیکن پیپلزپارپی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر کا ایک بیان نظر سے گزرا، جس میں انہوں نے اپنے چیف جسٹس صاحب کی تقریر کے ایک حصے کا بُرا منایا اور کہا ہے کہ وہ سیاسی بیانات سے گریز کریں کہ سیاست عدلیہ کا کام نہیں۔ اب تک اس بیان کی تردید نہیں آئی اس لئے ہم حوصلہ کر کے اس حوالے سے بات ذرا واضح کر دیتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار احمد چودھری اکثر تقریبات سے خطاب کرتے ہیں خصوصاً وہ کسی بھی بار ایسوسی ایشن کی دعوت کو نہیں ٹھکراتے، عموماً اُن کی تقریر بزبان انگریزی لکھی ہوتی ہے، لیکن ان پر پابندی تو کوئی نہیں، اس لئے وہ اُردو میں بھی بات کر لیتے ہیں۔ بہرحال گزشتہ چند روز سے پیپلزپارٹی کی طرف سے احتجاجی رویہ اختیار کیا گیا تو مسٹر جسٹس افتخار چودھری نے بھی برملا اعلان کیا کہ عدلیہ آئین اور قانون کی عمل داری کے لئے اپنا فرض ادا کرتی رہے گی، چاہے کوئی آسمان ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑے، اسی حوالے سے ایک بار انہوں نے فرمایا:جہاں ریاست ناکام ہو جائے وہاں عدلیہ سامنے آتی ہے، اس کے بعد حال ہی میں انہوں نے مزید فرمایا ”عوام حکام سے مایوس ہو چکے ہیں“۔ جہانگیر بدر کو اسی حصے پر اعتراض ہے انہوں نے استغفار کیا ہے کہ حکام سے مراد کیا ہے، پھر اسی حوالے سے مشوہ دیا کہ سیاست نہ کی جائے۔
جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے تو چیف جسٹس کی طرف سے بار بار آئین اور قانون کے تحفظ کی بات کی گئی اور اسے قابل اعتراض نہیں سمجھا گیا اور نہ ہی سمجھا جانا چاہئے، لیکن ایک سوال ذہن میں ضرور کھٹکتا ہے اور ہم بھی ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے فاضل جج حضرات اول تو تقریبات سے اجتناب کرتے تھے اور اگر عدلیہ ہی سے متعلق کسی تقریب میں شرکت کرتے، تو تقریر کم ہی کرتے تھے۔ اسی طرح مقدمات کی سماعت کے دوران فاضل جج کم سے کم ریمارکس دیتے اور اگر بولتے تو استفسار یہ بات ہوتی، یعنی سوال کر کے وضاحت چاہتے، لیکن جب سے عدلیہ بحالی تحریک چلی اور اس کے بعد عدلیہ بحال ہوئی اس روایت میں خاصی تبدیلی آئی ہے، اب فاضل جج حضرات بہت زیادہ ریمارکس دیتے ہیں اور اکثر ریمارکس واضح ہوتے ہیں، جس کے بعد فیصلے بھی انہی ریمارکس کے مطابق آتے ہیں۔
اب ہمارے ذہن میں بار بار سوال آ رہا ہے کہ فاضل چیف جسٹس کسی بار ایسوسی ایشن کی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہیں اور ان کی موجودگی میں اُن کے اختتامی خطاب سے پہلے بار ایسوسی ایشن کے جوشیلے وکلاءاپنی تقریروں میں کھلم کھلا حکومت اور حکمرانوں کے نام لے کر سنگین الزام لگاتے اور پھر عدلیہ کے تحفظ کا اعلان کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ سیاست دان آئین اور قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور اس کے بعد چیف جسٹس محترم اپنے خطاب میں آئین اور قانون کے تحفظ کا اعلان کرتے ہیں اور تحریر بالا جیسے فقرے بھی کہتے ہیں تو کیا اُن کی ایسی تقریروں پر تبصرہ ہو سکتا ہے؟
ہم نے اس سلسلے میں اپنے جن سینئر دوست وکلاءسے بات کی ان سب کا خیال یہ ہے کہ تبصرے یا تجزیے میں احتیاط ہی کرنا چاہئے کہ عدلیہ کا احترام ہی نہیں، اس کا بھرم بھی ضروری ہے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد متزلزل نہیںہونا چاہئے۔ ان حضرات کا خیال ہے کہ اسی طرح فاضل جج حضرات کو بھی اپنے رتبے کا خیال رکھنا چاہئے۔ عدلیہ اور فاضل جج حضرات کا رویہ اور کردار عوام میں زیر بحث نہیں آنا چاہئے۔ یہ مو¿قف اور نصیحت اپنی جگہ درست، لیکن معروضی حالات مختلف نظر آ رہے ہیں۔ حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی اب مخفی نہیں اور اسی کے نتیجے میں درمیانی راہ کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ ہماری اطلاع یہ ہے کہ درمیانی راہ نکالنے کی بھرپور سعی کی جا رہی ہے۔ ہم اس کوشش کی کامیابی کے دُعا گو ہیں ورنہ محترم چودھری اعتزاز احسن نے تو کہہ دیا ہے کہ عدلیہ وزیراعظم گھر بھیجتی رہے، ہم دوسرا وزیراعظم لاتے رہیں گے۔ اس سے قبل بھی اعتزاز احسن کہہ چکے ہیں کہ تین وزراءاعظم کے جانے کے بعد انتخابات ہوں گے۔ اب سوال موجودہ وزیراعظم کا ہے، ان سے بھی وہی سوال کیا گیا جو سید یوسف رضا گیلانی سے کیا گیا تھا۔ اب27اگست کو ان کو بھی بلایا گیا ہے۔ اس روز اُن کو پیش ہو کر سوال کا جواب دینا ہے، جو تحریری اور بیان کی شکل میں ہو گا۔ اس حوالے سے عام ذہنوں میں جو یہ خیال ہے کہ27اگست کو راجہ پرویز اشرف کی قسمت کا فیصلہ یا انجام سابق وزیراعظم جیسا ہو گا تو یہ درست نہیں۔ اس روز وزیراعظم نے جواب دینا ہے اور انکار کی صورت میں اُن کے خلاف فرد جرم عائد ہو گی اور پھر اس کے جواب میں کارروائی کے نتیجے میں انجام بالخیر ہو گا۔ اس عرصہ میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں۔ سنجیدہ فکر حضرات اس حوالے سے کوشاں ہیں اور کوئی بہتر نتیجہ بھی نکل سکتا ہے۔ ادھر سوئس خط کی وجہ سے بہت سے امور نظروں سے اوجھل رہتے ہیں، فاضل عدلیہ نے این آر او کو مکمل طور پر کالعدم قرار دیا اور اس قانون کے تحت بند کئے جانے والے تمام مقدمات دوبارہ کھولنے یا شروع کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اب بات صرف خط تک آ کر رک سی گئی ہے، حالانکہ این آر او سے قریباً8ہزار افراد مستفید ہوئے تھے اس طرف کسی کی کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ یہ سراغ لگانے یا پتہ کرنے کی ضرورت ہے کہ باقی مقدمات کا کیا بنا اور اب کیا صورت حال ہے۔ میڈیا والے دوستوں کو یہ بھی یاد آنا چاہئے۔ ٭