عضوِ ضعیف
نزلہ ہمیشہ عضوِ ضعیف پر گرتا ہے۔ مگر عضوِضعیف کو نزلہ گرنے سے پہلے اپنے ضعف کاپتا نہیں ہوتا۔ بیچارے مشاہداللہ کوبھی نہیں تھا۔مشاہداللہ کے ’’ضعفِ نامعلوم‘‘ سے ہمدردی کے باوجود درحقیقت وہ اتنے ’’بیچارے‘‘ بھی نہیں۔اُن کے بارے میں کہنے سننے کی بہت سی باتیں ہیں مگر یہ اس کا موقع نہیں۔ ایک اُصولی بات یہ ہے کہ اشرافیہ کی سیاست کچھ متوسط اور زیریں متوسط طبقے کے لوگوں پر بھی انحصار کرتی ہے۔ مگر اُن کا یہ انحصار بہت عارضی اور چھوٹے چھوٹے مقاصد کے لئے ہوتا ہے۔ مشاہداللہ ایسے لوگ یہ بات کبھی نہیں جان پاتے اور وہ اشرافیہ کی سیاست کا حصہ بن کر یا تو کانِ نمک میں خود نمک بننے کی ناواجب ’’تگ ودو‘‘ میں جُت جاتے ہیں یا پھر اُن پر ہونے والے انحصار سے خوامخواہ کی ’’خود اعتمادی‘‘ پیدا کرلیتے ہیں۔
مشاہداللہ کا معاملہ قومی سیاست اور حاشیہ بردار صحافت کوسمجھنے کا ایک شاندار موقع فراہم کرتا ہے۔ پاکستانی سیاسیات اور ابلاغیات کے طالب علموں کو پورے دھیان سے اس پورے کھیل کو سمجھنا چاہئے جس میں موجود سیاسی وعسکری اشرافیہ کے غیر جامد کردار اور صحافت کے بدبودار تنِ مردار کی تمام تہہ داریاں پوری طرح بے نقاب ہوتی ہیں۔ مشاہداللہ نے ایسا کچھ بھی نیا نہیں کہا تھا جس پر اچانک سرکاری اور عسکری ردِعمل نے قومی مفاد کی زرق برق چادر اوڑھ کر اپنے عشووں غمزوں کی چَھب دکھلانی ضروری سمجھی۔دھرنا سازش خود دھرنے کے دوران مسلم لیگ نون کے جوابی بیانئے کا ایک مستقل حصہ تھی۔اِسی سازش کی بوباس سے بچنے کی خاطر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جمہوریت کی ناک پر ایک رومال رکھنے کے لئے برپا کیا گیا۔ اگر کسی کویاد نہ ہو، تو تب کے اخبارات کی مِسل نکال کر پارلیمنٹ میں ہونے والی تقاریر کو اپنی یادداشتوں میں اُجاگر کر لیں۔ مقتدر قوتوں کی جانب سے تب اُن تجزیہ کاروں کے ناموں کی نشاندہی کی جاتی جنہیں ٹیلی ویژن کے جگمگاتے رنگین پردے پرجگہ دینا لازمی ہوتا۔ وہ کرائے کے دانشور اور اپنے تئیں مملکت کے ’’اصلی‘‘محب وطن حکومت کے خلاف منہ بنا بنا کر اور کوسنے دے دے کر اُنہیں دفعہ ہونے کی دھمکی آمیز تلقین کرتے دکھائی دیتے۔اگر کسی تجزیہ کارکی زبان سے بھول کر یاغلطی سے آئین کی بالادستی اور جمہوری طریقۂ کار کی بات نکل جاتی تو نجی ٹیلی ویژن پر برساتی مینڈکوں کی طرح نازل ہونے والی ایم ڈی نما مخلوق کے ٹیلی فون اور دماغ کی گھنٹیاں ایک ساتھ بجنے لگتیں۔ تب ایک موقع ایسا بھی آیا کہ ایک انتہائی باوقار تجزیہ کار نے ڈی جی آئی ایس آئی کے کردار پر سوال اُٹھاتے ہوئے اُنہیں مستعفی ہونے کامشورہ دیا ۔ اگلے ہی لمحے اُس ٹیلی ویژن کے ایک مقتدر شخص کو براہِ راست بتایا گیا کہ ’’انہیں آپ سیدھا کریں گے یا ہم کریں؟‘‘ پھر بہت دنوں تک وہ تجزیہ کار ٹیلی ویژن کے پردے سے’’ مفقود الخبر‘‘ رہے۔مفقود ومعدوم و نابود کرنے کی خبریں تو اور بھی بہت سی ہیں مگر یہاں یہ نشاندہی کرنا مقصود ہے کہ جناب پرویز رشید خود ہی خود فریبی میں مبتلا ہونا چاہیں تو اُن کی مرضی مگر عمران خان کا ’’امپائر‘‘ اُن کی خود فریبی نہیں تھی۔یہ ایک جیتا جاگتا وجود اور مجّسم حقیقت تھی۔
اِس حقیقت کی حکایت مشاہد اللہ کے منہ سے نئی بیان نہیں ہوئی۔ یہ اُن سے پہلے خو د اُن کی جماعت کے افراد کی زبان سے متعدد بار ادا ہوئی۔ ابھی مسلم لیگ نون کی حمایت میں خود کو پُرکاری سے وقف کردینے والے نجم سیٹھی کا ذکر چھوڑیئے جو وقتاً فوقتاً اس کا ذکر کرتے رہے۔ مگر یہ حکایت ایک نئی جہت سے خود تحریکِ انصاف کے ایک اہم فرد کی زبان سے نکلی۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی مرکزی انتظامی کمیٹی کے رکن برگیڈئیر سیمسن سائمن شیرف نے وقت ٹی وی پر مطیع اللہ جان کو 31؍جولائی بروز جمعہ ایک سنسنی خیز انٹرویو میں دھرنا سازش کے ایک نئے پہلو کو منکشف کیا تھا۔ یہ انٹرویو جوہری طور پر اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ دھرنے کا اصل مقصد بجائے خود نوازشریف کی حکومت کا براہِ راست خاتمہ نہیں تھا بلکہ نوازشریف کے گرد ایسے حالات بُننا تھا جس کے زیراثر وہ ماضی کی طرح بروئے کار آتے ہوئے جنرل راحیل شریف کے خلاف کوئی فیصلہ لیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تب ’شریفین ‘‘کے مابین غلط فہمیاں جنم بھی لے چکی تھیں۔ برگیڈئیر سائمن کے انٹرویو کی خاص بات یہ تھی کہ اُنہوں نے اس پورے کھیل سے سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے اس کی اصل ذمہ داری کا رخ اُس وقت کے حاضر خدمت ڈی جی آئی ایس آئی یعنی جنرل (ر) ظہیر الاسلام کی طرف موڑ دیا تھا۔ یہ جاوید ہاشمی کے انکشافات سے زیادہ خطرناک پہلو رکھتا تھا۔ کیونکہ جاوید ہاشمی نے اپنے سنسنی خیز انکشافات میں زیادہ تر مرکز توجہ جنرل پاشا کو بنایا تھا۔
بریگیڈیئرسائمن کے 31؍ جولائی کے انٹرویو کے بعد مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کے تائیدی بیانات کی برسات بھی جاری رہی۔ خواجہ آصف اپنے طور پر دونوں سابق سربراہان کے خلاف اپنے پاس موجود ثبوتوں کا ذکر کرتے رہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے تو ایک موقع پر یہ مطالبہ داغ دیا کہ دھرنے کے پیچھے اصل محرکات کی تحقیق کے لئے پارلیمانی تحقیقات ہونی چاہئے۔وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے اس پر فوراً ہی یہ وضاحت بھی کردی کہ مسلم لیگ نون کے رہنما اپنے طور پر اپنا اپنا نقطۂ نظر بیان کر رہے ہیں یہ کوئی جماعتی پالیسی نہیں۔ اس دوران نجم سیٹھی اپنی چڑیائیں اڑاتے رہے۔ بالآخرایک موقع پر اُنہوں نے اشاروں کنایوں اور استعاروں کا تکلف چھوڑ کر دوٹوک الفاظ میں اپنی بات کہی۔نجم سیٹھی نے یکم اگست کو اپنے پروگرام میں کہا کہ ’’آئی بی نے ایک ٹیپ ریکارڈ کی جس سے پتا چلتا تھا کہ جنرل ظہیر اور اس کے کچھ ساتھی سازش کر رہے ہیں۔‘‘نجم سیٹھی نے مزید کہا کہ ’’نواز شریف نے (یہ بات) جنرل راحیل شریف کو بتائی۔ اُنہوں (جنرل راحیل) نے کہا کہ مجھے نہیں پتا۔ اچھا میں بلاتا ہوں(مراد جنرل ظہیر کو بلانے سے ہیں) اور اُنہوں (جنرل ظہیر) نے کہا کہ ہاں یہ میرے ہی لوگ ہیں۔‘‘مشاہداللہ نے 14؍ اگست کو بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں جو الفاظ کہے وہی الفاظ ہوبہو نجم سیٹھی نے تیرہ روز قبل یکم اگست کو اپنے پروگرام میں ادا کئے۔نجم سیٹھی نے یہ بھی کہا کہ ’’اس سے (مبینہ ٹیپ ) لگتا تھا کہ جنرل ظہیرآرمی چیف اور پرائم منسٹر کے درمیان اختلافات کے لئے ایک آزاد پالیسی استعمال کررہے ہیں ۔۔۔اس دھرنے کے دوران ایک اسٹیج ایسی آگئی تھی کہ لگتا تھا کہ آرمی چیف دیگر سخت گیر کور کمانڈرز بشمول جنرل ظہیر کے مقابلے میں تنہا ہو گئے ہیں۔‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشاہداللہ نے ایسا کیا نیا کہا ہے جو اس سے پہلے نہیں کہا گیا؟ ظاہر ہے کہ کچھ بھی نہیں۔
وزیرِ دفاع ایک سے زائد مرتبہ اس میں ملوث جنرل پاشا اور جنرل ظہیر کا نام لے چکے ہیں۔ اور اس حوالے سے اپنے پاس موجود ثبوتوں کا دعویٰ بھی کرچکے ہیں۔ تمام باخبر لوگ جانتے ہیں کہ خود میاں نوازشریف دھرنے کے دوران اور بعد میں اپنے حلقۂ خاص میں اس سازش کے متعلق لوگوں کو آگاہ کرتے رہے ہیں۔ خود وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف دھرنے کی تحقیقات کے لئے اپنا بیان دے چکے ہیں ۔ چوہدری نثار اس پر ایک کتاب کے برابر مواد کی موجودگی کا انکشاف کرچکے ہیں۔جو ظاہر ہے کہ اخباری بیانات پر مشتمل تو ہرگز نہ ہوگا۔اور پھر نجم سیٹھی مشاہداللہ سے پہلے اِسی سازش کا ذکر اِن ہی الفاظ میں کرچکے ہیں ۔ پھر مشاہداللہ کے تقریباً ’’کاپی پیسٹ‘‘ قسم کے بیان پر ایسی کیا قیامت آگئی کہ اچانک فوجی اور سرکاری ردِعمل نے انگڑائی لی۔ پھر صحافت کے آسمانی مینارے تنقید کے تارے ٹانکنے لگے۔ اچانک سب پر ملک کے بدلے ہوئے حالات کا انکشاف ہوا۔ اور ایسے بیانات کے لئے ماحول اورموسم کے ناسازوسازگار ہونے کے چرچے ہونے لگے۔ کیا پندرہ ہی دنوں میں مملکت پاکستان بالکل بدل گئی ہے؟ سرکاری اور عسکری ادارے کا ٹوئٹر ردِعمل نجم سیٹھی کے انکشافات پر نہیں ، تو شہباز شریف اور خواجہ آصف کے بیانات پر تو برقی زندگی کا ثبوت دے سکتا تھا۔ اِسے ایک سیاسی کارکن کی طرف سے دوسروں کے اُگلے ہوئے نوالے چبانے کے وقت ہی بیدار ہونے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اشرافیہ کی اس سیاست اور حب الوطنی کی اس ذات پاتی مناسبت کی کیمسٹری ناقابلِ فہم ہے مگر ہاں ایک چیز ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ جب دیوی دیوتاؤں کے چرنوں میں زندہ انسانوں کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے تو ’’برہمن‘‘ یہاں بھی ڈنڈی مار جاتے ہیں اور سیدھے نچلی ذات کے بچوں کو اس ’’عظیم مذہبی مقصد‘‘کے لئے اُٹھا لاتے ہیں اور اُنہیں زبردستی ثواب کمانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ مشاہداللہ وزارت کھوکر آج کل یہی ثواب کمارہے ہیں۔ مگر وہ فکرمند نہ ہوں ابھی میاں نوازشریف کو ایسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے جو تحریک انصاف اور عمران خان کی’’ وارداتوں‘‘کا ذکرِ عزیز، لذیذ طریقے سے کر سکیں۔ چنانچہ وہ بھی رانا ثنااللہ کی طرح ایک غوطہ لگا کر پھر نمودار ہو جائیں گے۔