ایم این اے سے وفاقی وزیر تک کا سفر
حکومت، اس کے اختیارات، اموال خدا اور عوام الناس کی امانت ہیں، جنہیں خدا ترس ایماندار اور عادل لوگوں کے سپرد کیا جانا چاہئے اور جن لوگوں کے سپرد یہ امانت ہو وہ اس کے لئے جواب دہ ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔۔۔اللہ تعالی تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔ اللہ تعالی تمہیں اچھی نصیحت کرتا ہے یقیناًاللہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔۔۔نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے۔۔۔ خبر دار رہو تم میں سے ہر ایک راعی ہے، ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ ایک امانت عوام اور قیادت کی طرف سے سائرہ افضل تارڑ کو سونپی گئی ۔آئیے سائرہ افضل تارڑ کے سیاسی کیرئیر اور کارکردگی کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں۔ سائرہ افضل تارڑ نے 2008ء کے عام انتخابا ت میں جب حلقہ این اے 102ضلع حافظ آباد سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو سیاسی مخالفین اورتجزیہ کار حیران رہ گئے۔یہ خاتون سیاست کر پائے گی یا نہیں ؟ سیاسی مخالفین نے اس فیصلے پربہت سخت تنقید کی، سائرہ افضل تارڑ نے ہر قسم کے نامساعد حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے نہ صرف ضلعی سطح پر اپنی سیاسی بصیرت کا لوہا منوایا، بلکہ پاکستان اور بیرون مُلک بھی یہ ثابت کیا کہ میاں افضل حسین تارڑ کا اپنی بیٹی کو اپنی سیٹ پر الیکشن لڑانے کا فیصلہ سو فیصد درست تھا ، جنہوں نے 2008ء کے جنرل الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور عوامی مسائل کے حل کے لئے سخت جدوجہد اور محنت سے کام کیا۔ اسی دوران انہیں پنجاب میں سپیشل ایجوکیشن کا ٹاسک ملا تو قیادت کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے سپیشل ایجوکیشن کے لئے خاطر خواہ اقدامات کئے ۔2013ء کے جنرل الیکشن میں حافظ آباد کے عوام نے انہیں ایک بار پھر بھاری اکثریت سے کامیاب کروا کر قومی اسمبلی میں بھیجا ۔ تو مسلم لیگ (ن)کی قیادت نے سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر وزیر مملکت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز کا قلمدان سونپ دیا۔ آپ نے وزارت کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور صحت کے حوالے سے بہترین اقدامات کر کے عوام،پارٹی اور قیادت کے اعتماد پر پورا اتریں۔انہوں نے اور اپنے حلقہ انتخاب میں متعدد ایسے ترقیاتی منصوبے مکمل کروائے جن کی 70 برسوں میں مثال نہیں ملتی ۔غیر جانبدار مبصرین یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ سائرہ افضل تارڑ کو وزیر مملکت سے اپ گریڈ کر کے وفاقی وزارت ہیلتھ کا دوبارہ قلمدان میرٹ اور صرف میرٹ پر دیا گیا ہے۔
قارئین کو یاد ہو گا جب سائرہ افضل تارڑ نے جون 2013ء میں وزارت صحت کا قلمدان سنبھالا تو پولیو کا مرض مُلک میں ایک وبائی صورت اختیار کر چکا تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں بچے اس بیماری سے معذور ہو رہے تھے اور یہ امر دنیا بھر میں ہماری رسوائی کا باعث بن چکا تھا۔اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں ایک قومی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی اور اس چیلنج سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ چاہے وہ بچوں اور علاقوں تک رسائی کا مسئلہ ہو، سیکیورٹی کے چیلنج ہوں، مانیٹرنگ کا معاملہ ہو یا پروگرام کے لئے فنڈز کی بلا تعطل فراہمی کا معاملہ ہو ۔ ان تمام مسائل پر مضبوط فیصلہ سازی اور حکمت عملی کے ذریعے قابو پایا گیا۔
2014ء میں پاکستان میں پولیو کے 306کیس رپورٹ ہوئے۔2015ء میں55 کیس رپورٹ ہوئے،جبکہ گزشتہ سال پولیو مہم کی تاریخ کے سب سے کم صرف 20 کیس رپورٹ ہوئے۔ رواں سال نصف سے زائد گزر چکا اور اب تک مُلک بھر سے صرف 3 کیس سامنے آئے ہیں۔اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے سائرہ افضل تارڑ نے احسن طریقے سے قومی ذمہ داری نبھائی۔ نتائج قوم کے سامنے ہیں۔ ماں اور بچے کی صحت کے لئے حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام زبوں حالی کا شکار تھا۔ ویکسین مینجمنٹ کے معیاری نظام کی عدم موجودگی میں ویکسین ضائع ہونے اور کولڈ چین کا خستہ حال نظام ایک بڑا چیلنج تھا۔ ای پی آئی پروگرام صرف 54فیصد بچوں تک رسائی حاصل کر رہا تھا جو نہ صرف ایک تشویشناک صورتِ حال تھی، بلکہ جو وسائل کے ضیاع کا موجب تھی۔اس چیلنج کو قبول کرتے ہوے ایک جامع حکمت عملی کے تحت عالمی معیار کے مطابق VLMIS ویکسین مینجمنٹ کا نظام متعارف کرایا۔ تمام بچوں تک حفاظتی ٹیکہ جات کی رسائی کو بہتربناتے ہوئے اس میں 15 سے 20 فیصد تک اضافہ کیا گیا، جس کا اعتراف پلڈاٹ کی کارکردگی رپورٹ میں کیا گیا۔ ویکسین کے حصول میں خصوصی حکمت عملی کے ذریعے صرف ایک ویکسین، یعنی Pentavalent جو پانچ بیماریوں کے لئے کارگر ہے، کی خریداری میں قومی خزانے کی1.8 بلین کی بچت کی گئی جو ایک مثال ہے۔ صوبوں کو ای پی آئی پروگرام کو مضبوط بنانے کے لئے فنڈز کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا گیا، اس سلسلے میں ورلڈ بینک ، صوبائی حکومتوں اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں 180 ملین امریکی ڈالر حاصل کئے گئے، جس سے یہ پروگرام مستحکم ہوا۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار Pnemococcal Vaccine, ROTA, IPV, بچوں کے لئے ای پی آئی پروگرام کے تحت مفت فراہمی کا آغاز کیا گیا۔ پاکستان کی حفاظتی ٹیکہ جات کی اصلاحات کو عالمی ادارہ GAVI نے بے حد سراہا اور 78 ممالک،جو GAVI امداد حاصل کرتے ہیں،ان میں پاکستان واحد مُلک ہے جس کی عالمی فورم پر ستائش کی گئی۔ پاکستان نرسنگ کونسل کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور عالمی معیار کے مطابق چلانے کے لئے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی گئیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک فیملی پی ایچ ڈی نرس میرٹ پر منتخب کر کے پاکستان نرسنگ کونسل کا صدر بنایا گیا ۔ اسی طرح نرسنگ رجسٹریشن کے فرسودہ اور پیچیدہ نظام کو ختم کر کے اسے جدید ترین بنیادوں پر استوار کیا گیا اور آن لائن رجسٹریشن کا نظام قائم کیا گیا۔ اس کے علاوہ رجسٹریشن کارڈز کا ایک دن میں اجراء کا نظام متعارف کرایا گیا۔ چارج سنبھالا تو پی ایم ڈی سی تباہ حالی کاشکار تھی۔ جو ادارہ مسیحائی کی تعلیم کی بہتری کا ذمہ دار تھا، وہ سیاست اور مفاد پرستی میں گھرِا ہوا تھا۔ آئے روز ذرائع ابلاغ میں اس ادارے کے حوالے سے نت نئے سکینڈل سامنے آر ہے تھے۔اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے متعلقہ قوانین میں ترمیم کے ذریعے شفاف الیکشن کرائے گئے اور نئی کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ تاریخ میں پہلی بار Conflict of interest جو کہ کونسل کی تباہ حالی میں ایک بنیادی معاملہ تھا،سے نمٹنے کے لئے خصوصی اقدامات کئے گئے۔ بین الاقوامی طور پر رائج طریقہ کار کے مطابق کونسل میں آزاد ماہرین کو شامل کیا گیا۔ حال ہی میں پاکستان کو عالمی ادارۂ صحت کے اعلیٰ ترین پالیسی ساز ادارے۔۔۔ WHO Executive Board۔۔۔ کا چےئرمین منتخب کیا گیا ہے۔یہ پاکستان کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے اور صحت کے حوالے سے عالمی سطح پر پاکستان کے اہم کردار کا اعتراف ہے۔اسی طرح 2015ء میں پاکستان کو Board GAVIکا ممبر منتخب کیا گیا۔ پاکستان کو عالمی ادارہ صحت کی علاقائی کانفرنس، جس میں 22 ملکوں کے وزرائے صحت شرکت کریں گے، کے لئے میزبان مُلک کے طور پر منتخب کیا گیا۔ اس کانفرنس کا انعقاد اسلام آبادمیں رواں سال اکتوبر میں ہوگا۔ یہ یقیناًپاکستان کے لئے ایک اور اعزاز کی بات ہے۔ وزارت قومی صحت کے لئے مالی سال میں 54.4 بلین کے ترقیاتی فنڈ مختص کئے گئے ہیں،جبکہ گزشتہ سال یہ فنڈ 30.6 بلین تھے۔ اس سال ترقیاتی بجٹ میں 77 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے جو ترقیاتی پراجیکٹس میں وزارت قومی صحت کی بہتر کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیاہے۔
ڈریپ کا شعبہ بھی زبوں ہالی کا شکار تھا،ہزاروں کیس زیر التوا تھے ۔ میرٹ کا قتل عام کیا جا رہا تھا، اقربا پروری اور سفارشی کلچر کا دور دورہ تھا ۔ ادویات کی قیمتیں عوام کے مفادات کے برعکس بڑھا دی جاتی تھیں۔ اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی تاریخ میں پہلی بار قوم کو ڈرگ پرائسنگ پالیسی دی، جس کے تحت قیمتوں کے تعین کا خود کار نظام متعارف کروایا اور اس حوالے سے کرپشن کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دیئے ۔ میرٹ اور شفافیت کے نظام کو فروغ دیا اورایک مربوط حکمت عملی کے تحت 14000 زیر التوا کیسوں کو نمٹایا ۔ پاکستان میں اس وقت دس لاکھ افراد ہیپاٹائٹس کے مرض کا شکار ہیں جن کو سستی اور عالمی معیار کی دوا مہیا کرنے کے لئے وزیر صحت نے بے مثل کردار ادا کیا ۔ امریکہ میں سوالڈی کی ایک گولی کی قیمت ایک لاکھ روپے ہے،جبکہ اس دوا کی پاکستان میں 28گولیوں کی قیمت صرف 32ہزار روپے میں مریضوں کو مہیا کی جا رہی ہے ۔ وزیر صحت نے مزید قدم بڑھاتے ہوئے پاکستان میں سوالڈی کا جنیرک متعارف کروایا جس کے تحت اب مقامی ادویہ سازی کمپنیاں 28گولیاں صرف 5800روپے میں مریضوں کو مہیا کر رہی ہیں ۔حکومتی جماعت کے عوام خصوصاً نادار اور غریب طبقے کو علاج معالجے کی مفت سہولت مہیا کرنے کے وعدہ کو وزیر صحت نے بڑی محنت کرتے ہوئے پورا کرایا ہے ۔وزیر اعظم قومی صحت پروگرام کے تحت اس وقت مُلک کے 26اضلاع میں مستحق اور نادار افراد بشمول زچہ بچہ کو اعلیٰ معیار کے نجی ہسپتالوں میں مفت علاج معالجہ مہیا کیا جا رہا ہے، جبکہ پروگرام کو مرحلہ وار وسعت دیتے ہوئے 2018ء کے وسط تک مُلک کے طول و عرض میں پہنچا دیا جائے گا ۔ یہ اپنی نوعیت کا مفت علاج مہیا کرنے کا دنیا میں منفرد پروگرام ہے جس سے اس وقت لاکھوں مستحق اور غریب افراد مستفید ہو رہے ہیں اور اس کی تکمیل پر کروڑوں مستحقین فیض یاب ہوں گے ۔ قارئین سیاسی مخالفین بھی حلقہ این اے 102کے عوام کی سیاسی بصیرت کی تعریف کئے بنا نہیں رہ سکتے ۔ جنہوں نے ووٹ کی امانت کو ایک ایسی ہستی کے حوالے کیا،جو واقعی اس کی اہل تھی ۔ جس نے اس امانت میں کبھی خیانت نہ کی اور ہمیشہ خوف خدا کے تحت اپنے فرائض منصبی ادا کئے اور اپنی قیادت کے وژن کواپنے فہم و فراست سے نامساعد حالات کے باوجود پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ بلاشبہ این اے 102کے عوام کا اپنے کروڑوں غریب ہم وطنوں پر یہ احسان ہے کہ انہوں نے سائرہ افضل تارڑ کا چناؤ کیا جس نے مذکورہ بالا انقلابی فلاحی اقدامات کے ذریعے عام آدمی کو صحت کی سہولتوں تک مفت رسائی دی۔بلاشبہ بہتری کے لئے ابھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے جنہیں سائرہ افضل تارڑ جون 2018ء تک پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم رکھتی ہیں۔