عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ۔۔۔ توقعات اور خدشات
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں، اُنہیں 176ووٹ ملے، جبکہ اُن کے مدِ مقابل مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کے حق میں 96 ووٹ پڑے،ایوان میں تحریک انصاف کی اکثریت نہیں ہے، ان کی جماعت کے ارکان کی کل تعداد 151 ہے انہیں 25 ووٹ دوسری چھوٹی جماعتوں سے ملے ہیں، جس کے لئے کئی دِنوں سے تیاریاں جاری تھیں اور امید تھی کہ اُنہیں اتنے ہی ووٹ ملیں گے۔البتہ شہباز شریف کے حق میں ووٹ کم پڑے،کیونکہ پیپلزپارٹی نے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا،اس پارٹی کا ’’اصولی موقف‘‘ تھا کہ مسلم لیگ(ن) شہباز شریف کی جگہ کوئی اور امیدوار کھڑا کرے تو وہ اُس کے حق میں ووٹ دیں گے، مگر شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیں گے، مسلم لیگ(ن) نے پیپلزپارٹی کے اس’’ اصولی موقف ‘‘سے اتفاق نہیں کیا اور یوں پیپلزپارٹی کا وزیراعظم کے انتخابی عمل سے الگ رہنے کا راستہ ہموار ہو گیا،پیپلزپارٹی کے اِس فیصلے کے نتیجے میں اُسے کیا کچھ حاصل ہوتا ہے یہ تو فوری طور پر معلوم نہیں ہو سکا۔البتہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ عقدہ کھل جائے گا کہ پیپلزپارٹی کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی،اگر اس کے باوجود پارٹی قیادت کی مشکلات کم نہیں ہوتیں جو آج نظر آ رہی ہیں، تو کہا جا سکتا ہے کہ اُس کی یہ مشق اور کوشش اکارت گئی، بہرحال یہ پارٹی کی اپنی سیاست ہے وہ جب چاہے متحدہ اپوزیشن کا حصہ بن جائے اور جب مرضی ہو تواُس سے علیحدہ ہو جائے، ووٹنگ کے عمل سے الگ ہو جائے یا اس میں شریک ہو جائے،اس کی قیادت کو جیسے چاہے فیصلے کرنے کا حق ہے۔
جماعت اسلامی نے اب کی بار ایم ایم اے کے ٹکٹ اور نشان پر الیکشن لڑا تھا، لیکن پور ے مُلک سے اس کا ایک ہی رکن منتخب ہو سکا،ایم ایم اے کے دوسرے 14 ارکان کا تعلق جمعیت علمائے اسلام(ف) سے ہے ۔ ان سب نے شہباز شریف کو ووٹ دیا لیکن جماعت اسلامی کے واحد رُکن نے بھی پیپلز پارٹی کی طرح انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا، ویسے بھی موجودہ حالات میں ایک رُکن نتیجے پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں تھا، ویسے تو جماعت اسلامی متحدہ اپوزیشن کا حصہ ہے،لیکن اس کی سیاست بھی چونکہ’’ اصولی ‘‘ہے،اِس لئے جب اصولوں کا تقاضا ہوتا ہے وہ ایم ایم اے میں شامل ہو جاتی ہے اور جب اصولی تقاضے بدل جاتے ہیں تو وہ اِس سے علیحدگی کے متعلق سوچنا شروع کر دیتی ہے اب اس نے اپنے رکن کو ووٹ ڈالنے سے منع تو کر دیا،لیکن اِس کی مثال اُس بڑھیا کی سی ہے، جو اپنا مرغ بغل میں داب کر گاؤں سے چلی گئی تھی اور جاتے جاتے کہہ گئی تھی اب مَیں دیکھتی ہوں اِس گاؤں میں صبح کیسے ہوتی ہے۔
پیپلزپارٹی کے فیصلے سے عمران خان کے ووٹ تو نہیں بڑھے،البتہ شہباز شریف کے ووٹ ضرور کم ہو گئے، لیکن شہباز شریف کون سے وزیراعظم منتخب ہو رہے تھے، پیپلزپارٹی کے ووٹ ملنے کے باوجود شہباز شریف یہ دوڑ ہار ہی رہے تھے۔البتہ اب اتنا ہوا ہے کہ عمران خان اور شہباز شریف کو ملنے والے ووٹوں کا فرق زیادہ ہو گیا،لیکن عملی طور پر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا،وزیراعظم ایک ووٹ کی اکثریت سے منتخب ہو،تب بھی وہ وزیراعظم ہی ہوتا ہے، میر ظفر اللہ خان جمالی کی مثال زیادہ پرانی نہیں ہے۔2002ء میں اُن کی جماعت مسلم لیگ (ق) کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہ تھی اور تمام آزاد ارکان کی حمایت کے باوجود مسلم لیگ(ق) کی حکومت نہیں بن رہی تھی،اس لئے پارٹی کے سرپرست صدر پرویز مشرف کی ہدایت پر ریاستی اداروں نے پیپلزپارٹی کے دو ٹکڑے کرنے کی راہ ہموار کی،ووٹنگ والے دن اس سار ے پراسیس کی خصوصی نگرانی کی گئی،ایک ایک ووٹر کو ہدایات دی گئیں تب کہیں جا کر ظفر اللہ جمالی ایک ووٹ کی حمایت سے وزیراعظم بن سکے،جب تک اُنہیں ’’باس‘‘ کی حمایت حاصل رہی وہ وزیراعظم رہے، جب ’’باس‘‘ کا دِل چاہا کہ اُن کی جگہ شوکت عزیز لیں تو انہوں نے جمالی سے استعفا مانگا اور مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین کو شوکت عزیز کو وزیراعظم بنوانے کے لئے پراسیس مکمل کرنے کی ہدایت کی،جس پر ہو بہو عمل ہوا۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ووٹ کی اکثریت سے بھی وزیراعظم بنا جا سکتا ہے اور ایک سو ووٹ سے بھی، یہ الگ بات ہے کہ اپنی طبعی عمر نہ ایک ووٹ کی اکثریت والا پورا کر پاتا ہے اور نہ ایک سو والا۔ یہاں تک کہ دو تہائی اکثریت بھی وقت کے ساتھ ساتھ یوں تحلیل ہو جاتی ہے جیسے دھوپ میں رکھی ہوئی برف پِگھل جاتی ہے،ہمارے اِس استدلال کا مقصد قطعاً یہ نہیں ہے کہ عمران خان کا حشر بھی اپنے پیشروؤں جیسا ہو گا،لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ آج سے پہلے کسی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی،اللہ کرے اب عمران خان کو اُس راستے سے نہ گزرنا پڑے، جن جماعتوں نے اُنہیں وزیراعظم بننے کے لئے تعاون فراہم کیا ہے وہ اُن کے ساتھ مستقبل میں بھی اسی طرح کھڑی رہیں، اگر وہ کسی وقت ایک ایک کر کے یا بیک وقت وزیراعظم کی حمایت سے دستبردار ہوگئیں تو پھر اُن کی حکومت اپنے بل بوتے پر قائم نہیں رہ سکے گی۔
اگر کسی خفی یا جلی وجہ سے اُن جماعتوں نے تعاون جاری نہ رکھا، جو اب مائل بہ کرم ہیں یا انہوں نے سیاسی و غیر سیاسی ضروریات کے تحت آنکھیں پھیر لیں تو پھر قانون سازی کی راہ میں مشکلات حائل ہوں گی،خاص طور پر ایسے فیصلے مشکل ہو جائیں گے، جن کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہو گی،فوری طور پر جنوبی پنجاب صوبے کا معاملہ درپیش ہو گا،کیونکہ عمران خان نے وعدہ کر رکھا ہے کہ حکومت سنبھالنے کے بعد ایک سو دن کے اندر اندر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنا دیا جائے گا،اب اُن کی پارٹی کو نہ تو وفاق میں اتنی اکثریت حاصل ہے کہ وہ آئینی ترمیم منظور کرا سکے اور نہ ہی پنجاب اسمبلی سے ایسی قرارداد منظور کرائی جا سکے گی،جسے دو تہائی اکثریت حاصل ہو، یہ آئینی ضرورت ہے اس کے بغیر معاملہ آگے نہیں بڑھ سکتا،اب اگلے تین ماہ کے اندر ہی واضح ہو جائے گا کہ اِس معاملے میں حکومت کہاں کھڑی ہے اور مخالف جماعتوں کا کیا موقف ہے، ہماری دُعا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنی آئینی مدت پوری کریں اور یہ اسمبلی بھی پانچ سال پورے کرے، اور راستے میں کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائے،اگر ایسا ہوتا ہے تو عمران خان ملکی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہوں گے ،جو اپنی مدت پوری کریں گے۔دیکھیں قطرے پر گُہر ہونے تک کیا گزرتی ہے۔