جنرل ضیاء الحق، ایک صابر حکمران (2)
پاکستان میں داخلی استحکام کی کامیابی کے بعد ضیاء الحق مرحوم مقصد تخلیق پاکستان کی حکمت عملی کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس بات کا عندیہ انہوں نے مارشل لاء کے نفاذ کے وقت اپنی پہلی ریڈیائی تقریر میں دے دیا تھا۔ انہوں نے فرمایا: ’’ملک میں تحریک نظام مصطفےٰ سے لوگوں کے اندر اسلامی نظام کو قائم کرنے کا جذبہ دیکھنے میں آیاجو بہت قابل قدر ہے۔ ہم اپنی بساط کے مطابق اس نظام کو قائم کرنے کے لئے کوشاں ہوں گے‘‘۔ اس سلسلے میں ضیاء الحق ؒ نے ملک کو اسلامی تشخص دینے کے لئے بہت سے مثبت اقدام کئے۔ پی آئی اے کی پروازوں میں شراب مہیا کرنے پر پابندی عائد کی۔ شہروں کے اندر کھلے ہوئے شراب خانوں کی بندش کے لئے قانون بنایا اور تمام شراب خانے بند کرا دیئے۔ شراب کی رسیا ایک خاص جماعت کے لوگوں نے اس اقدام کو بنیادی حقوق کی پامالی قرار دیا، لیکن ضیاء الحق ؒ نے کسی کی نہ سنی اور ا نما الخمرو المیسر و الانصاب الازلام رحبس من عمل الشیطن فاجتنبوہ (شراب، جوا اور جوئے کی تمام اقسام شطانی عمل ہیں، لہٰذا ان سے اجتناب برتو) حکم الہٰی پر عمل کرایا۔
عام لوگ اس قانون سے خوش ہوئے، البتہ شراب خانہ خراب کے رسیا ضرور ناراض نظر آئے۔ سرکاری تقاریب میں نمازوں کا اہتمام ہونے لگا۔ مختلف افتتاحی مواقع پر آخر میں اللہ کی بارگاہ میں اجتماعی طور پر دعا کرنے کا رواج عام ہوا جو رجوع الی اللہ کا ظاہری عنوان تھا، جبکہ اس سے قبل ایسے موقع پر دعا کرنے کا رواج نہیں تھا، بلکہ کسی بھی تقریب کے اختتام پر انگریزی رواج کے مطابق ہاتھوں سے تالیاں بجائی جاتی تھیں جو مردانہ نہیں، بلکہ زنانہ طریق تھا۔ دعا کا طریقہ فطرت کے مطابق تھا، اس لئے اس طرز عمل کو قبول عام حاصل ہوا۔ ضیاء الحق کے دور سے لے کر آج تک تمام تقاریب کے اختتام پر اسی طرز عمل کو اپنایا جاتا ہے جس سے پاکستان کا اسلامی تشخص واضح ہوتا ہے۔ اس نیک عمل کا ثواب ہمیشہ روح ضیاء الحق ؒ کو پہنچتا رہے گا۔اس کے ساتھ ساتھ مرحوم نے صلوٰۃ کمیٹیاں اور زکوٰۃ کمیٹیاں قائم کرنے کا حکم بھی دیا جو لوگوں کو نماز ادا کرنے اور زکوٰۃ کے احکام پر عمل کرنے کی ترغیب دیتی تھیں۔ اس سے نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کو معاشرے میں فروغ ملا۔یہ دونوں احکام اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہیں۔ سرکاری محکموں میں نمازوں کے اوقات میں نماز کی پابندی کا رواج بھی عام ہوا۔ رمضان المبارک کے مہینے میں ہوٹلوں کی بندش کا حکم دیا گیا اورسرعام کھانے پینے پر پابندی لگا دی گئی۔ حج اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ اس سے پہلے سرکاری ملازمین پر پابندی تھی کہ وہ حج پر جانے سے پہلے متعلقہ محکمے سے تحریری اجازت نامہ حاصل کریں۔ یہ اجازت نامہ حاصل کرنے میں مہینوں گزر جاتے اور حج کے ایام بھی گزر جاتے۔ ضیاء الحق مرحوم نے طریق کار میں تبدیلی پیدا کی اور حج پر جانے والوں کو سہولت دی کہ وہ سرکاری اجازت نامے کا انتظار نہ کریں، بلکہ حج کی فرضیت کے بعد متعلقہ محکمے کے سربراہ کو صرف درخواست دے کر حج پر روانہ ہو جائیں ،تاکہ بروقت حج کا فریضہ سر انجام دے سکیں۔
زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے بینکوں میں موجود مالیت کو ہی نصاب زکوٰۃ قرار دے دیا گیا اور اس مال پر زکوٰۃ کی کٹوتی کا نظام رائج کیا گیا۔ البتہ اہل تشیع کو سہولت دی گئی کہ وہ بینک میں موجود اپنی مالیت پر زکوٰۃ کی ادائیگی اپنی حسب منشا مدات پر خرچ کر سکیں۔ بعد میں اس سہولت کا دائرہ دیگر مکاتب فکر کے لوگوں تک بڑھا دیا گیا۔ اس طرح اقیموا الصلوۃ و اتوا الزکوۃ کے قرآنی حکم پر عمل آسان ہو گیا اور پاکستانیوں میں نماز اور زکوٰۃ کی پابندی میں خوب اضافہ ہوا۔اس میں کچھ شک نہیں کہ شہید صدر جنرل ضیاء الحق ؒ ایک عادل، انصاف پسند، محب وطن حکمران تھے۔ وہ گیارہ برس تک پاکستان کے حکمران رہے۔ ملک کا پورا خزانہ ان کے قلم کی زد میں تھا۔ چاہتے تو خوب دولت اکٹھی کر سکتے تھے۔ منی لانڈرنگ کے ذریعے ملکی دولت کے مالک بن سکتے تھے۔ اپنے لئے محلات نما کوٹھیاں ہر بڑے شہر میں بنوا سکتے تھے ،لیکن ان کے مزاج کی صالحیت نے ان کے اندر حلال و حرام کی تمیز کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی۔
وہ ملکی خزانے کو اللہ کی امانت خیال کرتے تھے۔ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے پاس رہنے کے لئے اپنا مکان تک نہیں تھا۔ ان کا جنازہ سرکاری رہائش گاہ ہی سے اٹھایا گیا، جس میں وہ اپنے منصب کے سبب رہائش پذیر تھے۔ شہادت کے بعد ان کے لواحقین نے ان کی پنشن کے پیسوں سے اپنا مکان تعمیر کرایا اور پھر اپنے تعمیر کردہ مکان میں منتقل ہوئے۔ حکمران ایمان دار اور منصف ہو تو اللہ تعالیٰ آسمانی اور زمینی بلاؤں سے رعایا کو محفوظ رکھتا ہے۔ انہوں نے گیارہ برس حکمرانی کی۔ ان گیارہ برسوں میں ملک کے اندر ایک بار بھی سیلاب نہیں آیا۔ گیارہ برس انتہائی سکون و اطمینان سے گزرے، جبکہ اگلے ہی برس ان کی شہادت کے بعد انتہائی پریشان کن سیلاب نے پورے ملک میں تباہی مچا دی۔ یہ ضیاء الحق شہید کی صالحیت اور اللہ کے ہاں قبولیت اعمال کا ثمرہ تھا۔یہ عظیم انسان 17اگست کو بہاولپور کے قریب ایک طیارے کے حادثے میں اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔ آپ جس جہاز میں سوار تھے اس میں کسی ظالم نے بم رکھ دیا اور وہ بہاولپور کے قریب گر کر پاش پاش ہو گیا۔ ان کے ہمراہ تیس چوٹی کے جرنیل بھی رتبہ شہادت پر فائز ہو گئے۔ اللہ ان کی قبر پر رحمت کی بارش فرمائے:
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
ضیا الحق مرحوم کو شہید ہوئے تیس برس ہوگئے، انصاف پسند نیک پاکستانی آج بھی ان کو یاد کرتے ہیں۔ ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے حاضر ہوتے ہیں۔ (ختم شد)