قومی معیشت اور سٹیٹ بینک کی وارننگ

قومی معیشت اور سٹیٹ بینک کی وارننگ
قومی معیشت اور سٹیٹ بینک کی وارننگ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سٹیٹ بینک آف پاکستان نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ جاری کی ہے، اس میں مالی سال2017-18ء کے کھاتوں کی مکمل تفاصیل درج ہیں رپورٹ کے مندرجات کے مطابق پاکستان پر 29.9 ٹریلین روپوں کے قرضے واجب الادا ہیں، پانچ سالوں کے دوران قومی قرضوں کے حجم میں 13.5 ٹریلین روپوں کا اضافہ ہوا ہے۔ 2013ء میں قومی قرضوں کا حجم 16.4 ٹریلین روپے تھا جو اب بڑھ کر 29.9 ٹریلین تک جا پہنچا ہے یہ ایک خطرناک صورت حال ہے۔ یہ قرضے ہماری قومی پیداوار کے 72.5 کے برابر ہیں۔ جبکہ طے شدہ فارمولے کے مطابق قرضوں کا حجم قومی پیداوار کے 60 فیصد سے زائد نہیں ہونا چاہیے ۔


سٹیٹ بینک کے مطابق قومی قرضوں کے حجم میں اضافے کی وجوہات میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی بڑھی ہوئی شاہ خرچیاں اور گھٹی ہوئی ٹیکس وصولیاں شامل ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت گزرے پانچ سال کے دوران (2013-18ء ) اخراجات کو آمدنی کے مطابق نہیں کر پائی۔ اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوتا چلا گیا، اس میں ترقیاتی وغیرترقیاتی دونوں طرح کے اخراجات شامل ہیں ۔ حکومت مالیاتی ڈسپلن قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی سرکاری شعبہ جات کی کارکردگی مسلسل گراوٹ کا شکار نظر آئی حکومت نے اخراجات کو کنٹرول کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ دوسری طرف ٹیکسوں میں اضافے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی، اس لئے سرکاری آمدنی میں اضافہ نہیں ہو سکا ۔آمدن و اخراجات کے عدم توازن کے باعث مالی اور زری معاملات میں شدید خرابیاں پیدا ہوئیں۔حکومت ایف بی آر میں اپنی اعلان کردہ ریفارمز کو بھی مکمل نہیں کر سکی۔

ٹیکس کے نظام میں ریفارمز کے لئے ورلڈ بینک کی فنی اور مالی امداد بھی موجود تھی، لیکن ہم اپنے نظام میں کسی قسم کی بہتری نہیں لا سکے، خرابیاں بڑھتی گئیں اور بالآخر ہم " پوائنٹ آف نو ریٹرن" کے قریب جا پہنچے ہیں۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ میں دئیے گئے اعدادو شمار کے مطابق گزرے پانچ سالوں کے دوران پاکستان کے اندرونی قرضے 6.9 ٹریلین روپے کے اضافے کے ساتھ 16.4 ٹریلین تک جا پہنچے ہیں۔ حکومت غیر منافع بخش قومی اداروں میں بہتری نہیں لاسکی۔ پاکستان سٹیل، پی آئی اے و دیگر اداروں کو گرانٹس کے ذریعے چلانے کا عمل جاری رہا جس کے باعث ان اخراجات میں گزرے پانچ سالوں کے دوران 242 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ان اداروں کا قرضہ جو 2013ء میں 312 ارب روپے تھا 2017-18 ء تک 1100 ارب روپے تک جا پہنچا ہے یہ ایک مدہے اخراجات کی۔ یہ قرضہ قومی بجٹ میں ظاہر نہیں کیا جاتا ہے لیکن اس کی ادائیگی ٹیکس دھندگان کے سر ہوتی ہے۔ اندرونی قومی قرضوں کو تو جیسے کیسے نوٹ چھاپ کر پورا کر لیا جاتا ہے، نئے قرضے لے کر پہلے سے موجود قرضوں کا سود چکا لیا جاتا ہے، لیکن بیرونی قرضوں کے ساتھ اس طرح کا کھیل کھیلنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔


2013ء میں غیر حکومتی بیرونی قرضوں کا حجم 649 ارب روپے تھا، اس میں 1300 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس قرضے میں اضافے کی وجہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی غیر منطقی پالیسیاں ہیں۔ قومی اقتصادیات کی تنظیم کے حوالے سے ان کے غیر سنجیدہ رویوں کے باعث قومی مالی معاملات میں بگاڑ پیدا ہوتا رہا اور گزرے پانچ سالوں میں یہ بگاڑبڑھتے بڑھتے یہاں تک آن پہنچا ہے کہ جہاں ہر طرف سرخ نشان نظر آرہے ہیں۔ گزرے پانچ سالوں کے دوران آئی ایم ایف کا قرضہ 2013ء کے 435 ارب روپے سے بڑھ کر 2017/18ء میں 741 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ حکومت پاکستان قرضوں کے معاملے میں ایک اور کرتب کرتی رہی ہے، وہ براہ راست حکومتی قرضوں کو بجٹ میں ظاہر نہیں کرتی، اس طرح جس قرضے کی ادائیگی حکومت کے ذمہ ہوتی تھی، وہ کہیں نظر نہیں آتی، یہ ایک مجرمانہ حرکت ہے کہ آپ سرکاری مالی ذمہ داری کو قالین کے نیچے ڈال کر قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکیں۔ 2013ء میں ایسی ادائیگیوں کا حجم 778 ارب روپے تھا جو پانچ سالوں میں بڑھ کر 1440 ارب روپے تک جا پہنچا ہے، گویا اس مد میں قرضوں کے حجم میں 85.4 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی طرف سے عوامی ردِعمل سے بچنے کے لئے اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بارے میں حقائق بیان نہیں کئے جاتے رہے ہیں جو درست نہیں ہے ۔ قرضوں کی واپسی کا بوجھ ہمارے لئے ناقابل برداشت ہو چکا ہے، ہماری معیشت میں نمو کی شرح رواں مالی سال (2018-19 ء) میں کم ہونے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے، ڈالر کے معاملات بھی ہماری قومی معیشت ہی نہیں، بلکہ عام صارف کی زندگی پر بھی برے اثرات مرتب کررہے ہیں۔شرح مبادلہ میں تیزی سے ردوبدل کے باعث نہ صرف ہمارے قرضوں کے حجم میں بیٹھے بٹھائے سینکڑوں اربوں کا اضافہ ہو جاتا ہے جس کے باعث ہمارے تمام تخمینہ جات زیروزبر ہو جاتے ہیں۔ بلکہ ہماری ساری ترقیاتی منصوبہ بندی کی ایسی تیسی پھر جاتی ہے، منصوبہ جات کے اخراجات اصل تخمینہ سے کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ صنعتی و کاروباری شعبہ بھی پریشان ہے کہ کیا درآمد کریں۔ برآمدی منڈی میں کیا قیمت بتا کر آرڈر لیں،کیونکہ پیداواری مصارف مستحکم نہیں ہیں جس کے باعث سارے معاملات زیروزبر ہیں۔


رپورٹ کے مطابق زیادہ تر قرضے کم شرح سود پر حاصل کئے گئے ہیں، لیکن قرضوں کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ پست شرح سود کے ساتھ بھی ادائیگیوں کا حجم خاصا بڑھا ہوا نظر آرہا ہے۔ پانچ سال قبل 2013ء میں سود کی مد میں 996 ارب روپے ادا کئے جاتے تھے جو پانچ سالوں میں بڑھتے بڑھتے 1600 ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ حکومت نے اندرونی قرضوں کی مد میں 1330 ارب روپے جبکہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 172.4 ارب روپے ادا کئے ہیں۔ہماری قومی معیشت کئی سالوں سے بحرانی کیفیت کا شکار ہے۔ فیصلے نہ ہونے اور غلط فیصلے ہونے کے باعث ہماری قومی معیشت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہمیں قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کے لئے بھی قرض کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ ہم عالمی مالیاتی اور زری اداروں کے " احکامات" بصورت" شرائط" کی زد میں ہیں۔ ہماری معیشت جان بلب ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ہماری قومی معیشت میں جان نہیں ہے، لیکن اس کی تنظیم درست نہیں ہے، ہماری قومی معیشت 100 ارب ڈالر سے زائد کی قوت رکھتی ہے۔ 6 کروڑ سے زائد کی لیبر فورس ہمارا قومی اثاثہ ہے، ہماری قومی معیشت میں پھلنے پھولنے اور نتائج ظاہر کرنے کی بھرپور صلاحیت ہے، کسی بھی کامیاب معیشت کے تمام لوازمات ہماری معیشت میں پائے جاتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ معیشت کا عمیق نظری سے مطالعہ اور محاسبہ کر کے اسے ٹریک پر چڑھانے کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے تاکہ ہم مزید گراوٹ کا شکار ہونے سے بچ سکیں ۔ موثر معاشی منصوبہ بندی نئی حکومت کے لئے ایک حقیقی چیلنج ہے جس سے عہدا برا ہوئے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -