میانوالی کی گونج
ہم میانوالی والے یقیناًخوش ہیں کہ ہماری دھرتی کا ایک شخص وزیراعظم بن گیا ہے اور اب میانوالی کو بھی لاڑکانہ اور لاہور جیسے شہر کی حیثیت حاصل ہو رہی ہے،یعنی وزیراعظم کے شہر کی۔۔۔قومی سطح پر میانوالی کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور حکومتی خدمات کا زمانہ معترف ہے۔ ملکی سیاست میں میانوالی کا نام ہمیشہ بلند رہا ہے۔اس حوالے سے مولانا عبدالستار خان نیازی مرحوم کا نام سب سے اوپر ہے۔ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے میانوالی کا نام بلند کیا۔۔۔مولانا کی سیاسی،مذہبی خدمات کی تفصیل ایک اور کتاب کی متقاضی ہے۔ مرحوم نے عشقِ رسولؐ اور نظام مصطفی ؐکے لئے طویل جدوجہد کی۔۔۔ اور اس جدوجہد کی خاطر ’’جیل‘‘ اور ’’دار‘‘ کو قبول کیا، مگر سر نہیں جھکایا۔۔۔ایک عام سیاسی کارکن سے اپنے وقت کی مقبول ترین جماعت کے سیکرٹری جنرل بنے، جنرل ایوب اور جنرل ضیاء الحق کے خلاف طویل سیاسی لڑائی لڑی۔پوری زندگی میں طرح طرح کے الزامات اپنے سر لئے، مگر کرپشن کا کوئی ایک ’’دھبہ‘‘ بھی اپنے نام پر نہیں آنے دیا۔ نواب آف کالا باغ نے بھی اپنی سیاست اور کردار سے پورے مُلک میں میانوالی کے نام کو بلند کیا۔۔۔مغربی پاکستان کے گورنر کے طور پر انہوں نے بہت نام کمایا۔۔۔
میانوالی کے یہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ’’آدھے پاکستان‘‘ پر حکومت کی۔۔۔وہ مغربی پاکستان کے گورنر تھے، یعنی آج کے پورے پاکستان کے حاکم ۔۔۔ سخت گیر ایسے کہ کسی عام آدمی کی تو بات ہی کیا صدر ایوب کو بھی بعض معاملات میں ’’کٹہرے‘‘ میں کھڑا کر دیتے تھے، گوہر ایوب خان اور ایوب خان کے دیگر رشتہ داروں کی تو ’’مجال‘‘ ہی کیا تھی۔۔۔ تیسرے شخص ڈاکٹر شیر افگن بھی ایک بڑے سیاسی رہنما کے طور پر قومی سطح پر چھائے رہے۔مرحوم نے اپنی آئینی و قانونی مہارت کا ایسا ’’جادو‘‘ دکھایا کہ پورا پاکستان اُن کے کہے کو ’’سند‘‘ کا درجہ دیتا تھا۔ایک عام آدمی سے قومی سطح پر جس طرح انہوں نے اپنا اور میانوالی کا نام بلند کیا،اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے۔مولانا کوثر نیازی کا تعلق بھی میانوالی سے تھا انہوں نے بھی بہت نام کمایا،مگر میانوالی سے زیادہ ’’لاڑکانہ‘‘ کے لئے کام کیا۔
اب ایک عرصے بعد عمران خان نے میانوالی کو ایک شان سے متعارف کرایا ہے، یعنی اب میانوالی کا ایک جنونی شخص مُلک کی تقدیر سنوارنے کے لئے وزیراعظم کے منصب تک رسائی حاصل کرچکاہے۔میرا دِل عمران خان کے ساتھ ہے،کیونکہ ہم دونوں کے درمیان میانوالی کی ’’سانجھ‘‘ ہے،مگر میرے کچھ خدشات بھی ہیں۔۔۔ اللہ کرے میرے یہ خدشات وہم ثابت ہوں،مگر تاریخ بتاتی ہے کہ جب لاڑکانہ کے بھٹو نے ’’پاپولر‘‘ سیاست میں قدم رکھا یہی ’’پاپولیرٹی‘‘ ان کے گلے کا ’’پھندا‘‘ بن گئی، وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتے گئے،مگر یہی آگے بڑھنا انہیں راس نہ آیا اور پھر پھانسی گھاٹ تک جا پہنچے۔انہوں نے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔۔۔ اور پورے مُلک میں چھا گئے اور پھر وہ لاڑکانہ جو پورے مُلک میں وزیراعظم کے شہر کے طور پر پہچانا جاتا تھا، وزیراعظم کے مزار کے شہر کے طور پر پہچانا جانے لگا۔۔۔ تھوڑے وقفے کے بعد اُن کی بیٹی وزیراعظم بنی تو لاڑکانہ ایک بار پھر قومی سطح پر اُبھر کے سامنے آیا۔۔۔ مگر اِس بدنصیب ضلع کو ایک بار پھر بے نظیر کے لئے ’’قبر‘‘ کی جگہ دینا پڑی۔ سو اب لاڑکانہ کی پہچان ’’دو قبروں‘‘ کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ لاہور کو نواز شریف کے وزیراعظم بننے کی وجہ سے شہرت ملی۔۔۔
مگر وقفے کے بعد لاہور کے وزیراعظم کو جلا وطن کر دیا گیا۔جلا وطنی کے بعد ایک بار پھر لاہور کی قسمت جاگی اور اسے وزیراعظم کا شہر کہا جانے لگا۔۔۔مگر اب اس لاہور کا وزیراعظم اسلام آباد کی سڑکوں پر سنگینوں کے سائے میں عدالتی پیشیاں بھگت رہا ہے۔قومی اسمبلی کے حلف والے دن لاہور کا وزیراعظم ایک بکتر بند گاڑی میں بیٹھا عین اس وقت اسلام آباد کی سڑکوں پر بطور قیدی گھومتا نظر آیا جب مستقبل کا وزیراعظم اپنے ساتھیوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں حلف اُٹھا رہا تھا۔۔۔یہ منظر بعض لوگوں کے لئے بہت دلچسپی اور خوشی کا تھا۔۔۔ سو انہوں نے اس پر دِل ہی دِل میں ’’تالیاں‘‘ بجائیں اور اپنی ’’طاقت‘‘ کا اظہار کیا،مگر یہ منظر بعض لوگوں کی آنکھوں کو نم کر گیا۔۔۔ اِس لئے نہیں کہ وہ نواز شریف کو پسند کرتے تھے، بلکہ اِس لئے بھی کہ خدا کیسے کیسے رنگ دکھاتا ہے؟کل تک جو شخص گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ گزرتا تھا۔ آج وہی شخص اپنی مرضی سے اپنی نشست سے اُٹھنے کی کوشش کرے تو یہ بھی جرم تصور کیا جائے گا۔کہنا یہ چاہتا ہوں کہ وزیراعظم کے ’’شہر‘‘ کی قسمت میں عروج بھی ہے اور زوال بھی‘‘ اِس وقت میرے میانوالی کا عروج ہے۔
اچانک میانوالی کا نام قومی اور بین الاقوامی سطح پر قابلِ احترام ہو گیا ہے،مگر یہ بات بھی ہے کہ عمران خان بھی ایک ’’پاپولر‘‘ سیاست دان ہیں اور اپنے ہمعصروں سے کچھ زیادہ بے باک بھی ہیں۔وہ اپنی دھن کے پکے آدمی ہیں، سنتے سب کی ہیں،مگر مرضی اپنی کرتے ہیں۔ بے نیازی کا یہ عالم ہے، قومی اسمبلی میں آتے ہوئے اپنا ’’شناختی کارڈ‘‘ تک لانا بھول جاتے ہیں،ضدی ایسے کہ پورے بائیس برسوں میں لڑائی لڑتے ہوئے سانس لینا بھی گوارا نہ کیا مزید پریشانی کی بات یہ ہے کہ وہ جن ’’عزائم‘‘ کے ساتھ اقتدار سنبھالنے کی خواہش رکھتے ہیں اُن عزائم کے ساتھ آگے بڑھنے میں نہ صرف یہ کہ ’’غیروں‘‘ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، بلکہ ’’اپنوں‘‘ کی مخالفت بھی ان کا ’’مقدر‘‘ بن سکتی ہے۔وہ جس طرح کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ اس طرح کا پاکستان اِس مُلک کے غریب لوگوں کی خواہش تو ہو سکتی ہے،مگر جس طبقہ اشرافیہ کے ساتھ وہ نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں، وہ ایسے کسی پاکستان کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے۔ سو ان حقائق کی وجہ سے ہی پریشان بھی ہوں کہ وہ بھی ’’سابقہ وزیراعظم‘‘ کی طرح کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں۔وہ بھی مُلک کو قانون اور آئین کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ مُلک میں ترقی کی نئی دُنیا آباد کرنا چاہتے ہیں۔
خاص طور پر ’’کرپٹ مافیا‘‘ کے خلاف ڈٹ جانا چاہتے ہیں۔ مُلک کے بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے آدمی کو آئین اور قانون کے دائرے میں لانا چاہتے ہیں،سو انہیں احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے اور اپنی ’’پاپولیرٹی‘‘ کی جڑوں کو مضبوط رکھنا چاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مُلک کی تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کے ساتھ اپنے رابطے گہرے کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ کسی بھی ’’پاپولر‘‘ لیڈر کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جاتا،اس کے ہاتھ پاؤں باندھنے کی کوشش کی جاتی ہے،اُسے سر اٹھانے کی اجازت نہیں دی جاتی اور کوشش کی جاتی ہے کہ اُسے تنہا کر دیا جائے۔ کسی بھی ’’پاپولر ‘‘ لیڈر کو تنہا کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسے ’’قابو‘‘ میں رکھا جائے اور عمران خان کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ یہ کسی کے ’’قابو‘‘ آنے والے نہیں ہیں اور اس بات سے مجھے ڈر لگتا ہے اور ہر حساس آدمی کو ڈرنا بھی چاہئے، کیونکہ اب ہم کسی وزیراعظم کا ’’مزار‘‘ یا اُسے ’’قیدی‘‘ بنتا نہیں دیکھ سکتے۔