پنجاب کی پگ کس کے سر فیصلہ آج؟
پاکستان تحریک انصاف مسلسل کامیابیوں کی طرف گامزن ہے، اب تو مسلم لیگ (ن) کے مرکز پنجاب میں صورت حال واضح ہوگئی کہ منتخب سپیکر چودھری پرویز الہٰی کو 201 ووٹ ملے، یہ تحریک انصاف، مسلم لیگ (ق) اتحاد سے بھی بارہ زیادہ تھے، پیپلز پارٹی نے حصہ نہیں لیا، سابقہ صوبائی وزیر اقبال گجر کے حصے میں 147 ووٹ آئے، دلچسپ امر یہ ہے کہ بارہ ووٹ شیر کی طرف سے منتقل ہوئے اور مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی، حمزہ شہباز شریف نے فوراً ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگا دیا لیکن یہ بارہ حضرات ڈپٹی سپیکر کے انتخاب میں واپس آگئے، حمزہ شہباز نے نعرہ مستانہ بلند کیا وہ ان ارکان کو واپس لے آئے ہیں درحقیقت کافی عرصہ سے مسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک کی بات کی جارہی ہے اور پنجاب اسمبلی سپیکر کے انتخاب میں جب بارہ اراکین نے بغاوت کی تو یہی تاثر ملا، فارورڈ بلاک کا آغاز ہوگیا لیکن اسی سہ پہر جب ڈپٹی سپیکر کے ووٹوں کی گنتی ہوئی تو مسلم لیگ (ن) کا کھاتہ پھر سے پورا ہوگیا، اس سے ثابت ہوا کہ کسی فارورڈ بلاک یا ہارس ٹریڈنگ کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، یہ چودھری پرویز الہٰی اور چودھری شجاعت حسین کے ذاتی تعلقات اور سلوک کا معاملہ ہے کہ بارہ اراکین محبت میں چلے آئے ورنہ انہوں نے وفاداری تبدیل نہیں کی، تعلق اور دوستی نبھائی ہے، تاہم اس سے یہ خدشہ موجود ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں جن حضرات کو قائد مسلم لیگ (ن) کے بیانیہ اور کسی بڑے ٹکراؤ سے اختلاف ہے وہ ایسی بغاوت کسی بھی وقت کرسکتے ہیں، چاہے وفاق ہو یا صوبہ، بہرحال نتیجہ آیا، اچھا ہوا، اس طرح فارورڈ بلاک اور وفاداریاں تبدیل کرنے کا یہ سلسلہ بند ہی ہونا چاہئے، اس وقت جو ہوگیا اور نتائج کے مطابق سب نے حصہ لے لیا تو احتجاج والوں کو بھی جمہوریت کو چلنے دینا چاہئے اور اپنا عمل اور اپنی حکمت عملی جاری رکھنا چاہئے۔ حزب اقتدار بلکہ خود عمران خان کو اس امر کا خیال رکھنا ہوگا کہ صرف الفاظ سے کام نہیں عملی طور پر سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اسی طرح ممکن ہے اگرچہ بالادستی کا مطلب جمہوری آمریت نہیں اس لئے نومنتخب اراکین اور قائدین ایوان کو اس امر کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ آئین کی سپرٹ (روح) برقراررہے اور قانون بھی بالادست ہو، اب ایسی قانون سازی نہیں ہونا چاہئے، جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا جائے، قانون سازی آئین و قانون اور ثقہ روایات کے مطابق کی جائے۔
آج وفاق میں بھی فیصلہ ہوگیا اور قومی اسمبلی کے نتائج ہی کے مطابق تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوگئے اور ان کا 22سالہ خواب پورا ہوگیا۔ اس خواب ہی کے لئے انہوں نے جدوجہد کی۔ اچھائی، برائی سمیٹی اب وہ وزیر اعظم ہیں تو ان کو بقول خود سب کا وزیر اعظم ثابت بھی کرنا ہوگا، عمران خان کی منزل مشکل ضرور ہے لیکن لاینحل نہیں، وہ ریاست مدینہ کی بار بار بات کرتے ہیں تو ریاست مدینہ غور کے لئے سب کے سامنے ہے، وہاں حضرت عمرؓ کو منبر پر ہوتے ہوئے جواب دینا پڑا تھا، یہاں بھی عوام حقیقی احتساب چاہتے ہیں جو کسی تعصب اور امتیاز کے بغیر ہو اور بلالحاظ بھی ہو، وزیر اعظم عمران خان کی انتخابی مہم ہی کرپشن مخالف تھی اور اب ان کو احتساب کے ادارہ کو خود مختار، غیر جانبدار اور دیانت دار بنانا ہوگا کہ ان کے بقول لوٹا مال واپس آئے اور قانونی موشگافیوں کے باعث مجرم آزاد نہ پھریں اور نہ ہی سودے بازی ہو، احتساب بیورو میں اہل اوردیانت دار اہل کاروں کی تعیناتی اور موجودگی بھی ضروری ہے۔
اب ذرا یہ بھی دیکھ لیں کہ تادم تحریر پنجاب کے لئے تحریک انصاف کی طرف سے قائد ایوان کی نامزدگی نہیں ہوئی بہت سے افراد امید سے ہیں اور ہمارے میڈیا نے بھی پورا زور لگایا، ہر ایک نے اپنے پسندیدہ رکن کو چاہا اور اس کی حمائت کی لیکن کپتان دبائے بیٹھے رہے ہیں، شاید پنجاب میں حمائت کا اندازہ بھی مقصود ہو، بہرحال اگرچہ تادم تحریر بھی اعلان نہیں ہوا لیکن آج تو بہر صورت کسی کے سرپر پگ رکھنے کی خوشخبری دینا ہی ہوگی کہ کل (19۔اگست) صوبائی(پنجاب) قائد ایوان کا انتخاب ہونا اور حمزہ شہباز سے مقابلہ کرنا ہے، سپیکر، ڈپٹی سپیکر والے انتخاب کے نتائج ان کے لئے حوصلہ افزا ہیں اس لئے جسے نامزد کیا جائے گا اسے اعتماد بھی ہوگا۔
جہاں تک ہمارے شعبہ کے دوستوں کا تعلق ہے تو اکثریت نے ڈاکٹر یاسمین راشد کی بہت لابنگ کی ہے، وہ ہیں بھی اچھی اور ہم بھی ان کو چاہتے ہیں کہ ملک غلام نبی (مرحوم) کی بہو ہیں، جو ہمارے شہر دار اور اچھے تعلق والے تھے، ان کی بے تکلفی بھی بہت مشہور ہے، تاہم ان کی راہ میں جو رکاوٹ ہے وہ بھی مشکل ہے کہ ان کا انتخاب چیلنج ہوسکتاہے اگرچہ اس مسئلہ پر آئین خاموش ہے، آئین کے مطابق یہ کہا گیا کہ منتخب اراکین اپنے میں سے ایک رکن کو قائد ایوان منتخب کریں گے، اس سلسلے میں براہ راست منتخب ہونے والے اور نامزد رکن کے درمیان کوئی امتیاز تو نہیں کیا گیا، لیکن روائت اتنی پختہ اور مفہوم واضح ہے کہ براہ راست منتخب ہی کو قائد ایوان چنا جاسکتا ہے، اس لئے شاید ڈاکٹر صاحبہ نہ ہوسکیں، اب رہ گئے عبدالعلیم خان جن کا زور زیادہ محسوس ہوا، تاہم ان کو نیب نے بلا بلا کر مشکوک کردیا ہے اور جب کراچی والے واوڈا نے بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کا اشارہ دیا تو یاسر راجہ سامنے آگئے جو شعبہ تعلیم سے بھی منسلک ہیں لیکن یار لوگوں نے ان کے کھاتے میں ایک مقدمہ نکال لیا اور کہ وہ ضمانت پر ہیں، اب اور کئی نام آئے لیکن ان میں سے دو نام ہی رہ جاتے ہیں، ایک مراد راس اور دوسرے میاں اسلم اقبال ہیں، ہر دو محنتی اور عمران کے لئے کام کرنے والے ثابت ہوئے، اب اسلم اقبال تو لاہوری اور برادری والے بھی ہیں، مراد راس نے دوسرے شہر سے آکر لاہور کو اپنایا۔ سابق لیڈر آف اپوزیشن میاں محمود الرشید بھی چاروں سواروں میں ہیں۔
ہم نے کسی کی حمائت اور کسی کی مخالفت نہیں کی ممکنہ طور پر سامنے آنے والوں کے بارے میں معلومات عام کردی ہیں، فیصلہ تو بہرحال کپتان عمران خان نے کرنا ہے، یقیناً وہ کرچکے تاہم اعلان باقی ہے، قیاس، امکان بلکہ یقین ہے کہ آج رات تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے لئے نام سامنے آجائے گا، جسے اللہ دے۔