قومی مفاد کو نقصان نہ پہنچائیں
کیا قومی اسمبلی کے فلور پر جو مرضی چاہے کہا جا سکتا ہے، حتیٰ کہ ملک کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کی جا سکتی ہے؟ یہ خیال میرے ذہن میں اسپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی راجہ جاوید عباسی کی تقریر سن کر اُبھرا۔ میں حیران ہوں کہ شخصیت پرستی اور خوشامد میں ہمارے بعض سیاسی لوگ کس حد تک آگے چلے جاتے ہیں۔ انہیں نہ تو اپنے ملک کی حرمت کا کچھ خیال ہوتا ہے اور نہ مفاد کا، ان کی غیرت کبھی اپنے وطن کے حق میں نہیں جاگتی، البتہ اپنے لیڈر کے لئے، جس سے ان کا مفاد وابستہ ہوتا ہے، وہ ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بلا وجہ راجہ جاوید عباسی کا مائیک کیوں کھولا گیا۔ وہ نہ تو ہارنے والے امیدوار تھے اور نہ کسی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر۔ ضابطہ تو یہ کہتا تھا کہ سابق اسپیکر ایاز صادق نئے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے حلف لینے کے بعد کارروائی انہیں چلانے دیتے، مگر انہوں نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت حلف لینے سے پہلے جاوید عباسی کا مائیک کھول دیا۔
یہ سب کچھ آناً فاناً ہوا۔ ایاز صادق نے خود بیٹھ کر جاوید عباسی کی اشتعال انگیزی سننے کی بجائے کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے نئے اسپیکر سے حلف لینا شروع کر دیا، جبکہ اس وقت تک مسلم لیگ (ن) نے ہال میں شور شرابہ شروع کر دیا تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ جاوید عباسی کو فلور اس لئے دیا گیا کہ وہ ایک اشتعال انگیز فضا پیدا کریں جس کے بعد باقی ارکان میدان میں آ جائیں۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ یہاں تک تو ان کا حق تھا، انہوں نے مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کیا اور نوازشریف کو بکتر بند گاڑی میں لانے پر سیخ پا ہوئے، مگر جو بات جاوید عباسی نے اپنی تقریر میں کی، کیا اسے قابل قبول قرار دیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے جب یہ کہا کہ نوازشریف کے ساتھ تو وہ سلوک ہو رہا ہے جو بھارت کشمیریوں کے ساتھ بھی نہیں کر رہا۔
یہ ششدر کر دینے والی بات تھی۔میں سمجھتا ہوں کہ کوئی ذرا سی بھی عقل رکھنے والا شخص ان دو باتوں میں مماثلت تلاش نہیں کر سکتا۔ سوال یہ ہے کہ اپنی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر بھارت کی مثالیں دینا کیا ضروری تھا۔ شہباز شریف بھی جاوید عباسی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے بھی اس بات پر ان کی سرزنش کی نہ ہی انہیں روکا۔مجھے تو یوں لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں چن چن کے سطحی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کو آگے لایا گیا ہے، جسے اتنا بھی پتہ نہیں کہ قومی مفادات کی حدود کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور شخصی مفادات کی کہاں ختم ہو جاتی ہیں؟ ٹھیک ہے آپ جس اسمبلی کا حلف لیتے ہیں، اس میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے لئے ووٹ ڈالتے ہیں، اسے جعلی اسمبلی کہیں، دھاندلی میں خفیہ ہاتھوں کا ذکر کریں، نوازشریف کی رہائی کے اسمبلی میں نعرے لگائیں، ان کے ساتھ سلوک کو برا کہیں، مگر آپ کو یہ بات کرتے ہوئے تو شرم آنی چاہئے کہ پاکستان میں مقبوضہ کشمیر سے بھی بدتر حالات ہیں۔
اگر بدتر حالات ہوتے تو کیا جاوید عباسی کو ایسی ہرزہ سرائی کا موقع ملتا؟ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے بارے میں کہ جہاں قومی ادارے کام کر رہے ہیں، عدالتیں آزاد اور انصاف فراہم کر رہی ہیں، فوج نے مثالی امن و امان قائم کر رکھا ہے، دہشت گردی کی گردن توڑ دی گئی ہے، بر وقت انتخابات ہوئے ہیں، کروڑوں پاکستانیوں نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا ہے۔ انتقالِ اقتدار کے تمام مراحل خوش اسلوبی سے طے ہو رہے ہیں۔ میڈیا آزاد ہے اور اداروں پر نظر رکھے ہوئے ہے، چھوٹے سے چھوٹا ظلم کا واقعہ بھی سامنے آجائے تو ملزم کو قانون کی گرفت میں لائے بغیر یہی میڈیا چین سے نہیں بیٹھتا۔ ایک ایسے ملک اور ماحول میں بیٹھ کر جب آپ یہ مثال دیتے ہیں کہ نوازشریف پر مقبوضہ کشمیر کے لوگوں سے بھی برا سلوک ہو رہا ہے تو میرے نزدیک آپ پر غداری کا مقدمہ چلنا چاہئے۔
جاوید عباسی نے نوازشریف پر ظلم کی جو تصویر کھینچی ہے، اس پر انہیں شرم آنی چاہئے۔ خود نوازشریف نے کبھی نہیں کہا کہ ان کے ساتھ وہ سلوک ہو رہا ہے جو مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں پر بھی نہیں ہو رہا۔ انہوں نے اسی دن احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ ٹھیک ہیں اور انہیں کوئی پریشانی نہیں۔ یاد رہے کہ نوازشریف عدالت سے سزا یافتہ ہیں اور ان پر وہی جیل قوانین لاگو ہوتے ہیں جو پاکستان کے ہر قیدی کے لئے بنائے گئے ہیں، مگر اس کے باوجود وہ اڈیالہ جیل میں وی آئی پی قیدی کی حیثیت سے موجود ہیں، ان کا کمرہ ایئرکنڈیشنڈ ہے، انہیں ٹی وی، اخبارات کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ ان کا کھانا گھر سے بن کر آتا ہے، وہ کھانے کی فرمائش بھی کر سکتے ہیں اور ان کی پسند کا خیال بھی رکھا جاتا ہے۔ ان کا مسلسل طبی معائنہ ہوتا ہے اور ہر ہفتے ملاقاتیں بھی کرائی جاتی ہیں، اسی جیل میں ایسے ہزاروں قیدی موجود ہیں، جنہیں سخت گرمی میں سونا پڑتا ہے۔ جیل کا کھانا ملتا ہے، اپنے لواحقین سے ملاقات کے لئے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے، جنہیں نہ تو ٹی وی میسر ہے اور نہ اخبارات ملتے ہیں۔ ان کے رشتہ دار تو کبھی نہیں کہتے کہ ہمارے قیدیوں سے سلوک مقبوضہ کشمیر جیسے شہریوں جیسا کیا جا رہا ہے۔ وہ تو یہی کہتے ہیں کہ جرم نہ کرتے تو جیل نہ آنا پڑتا، اب آگئے ہیں تو سب کچھ برداشت تو کرنا پڑے گا۔
میں سمجھتا ہوں مسلم لیگ (ن)کو اب اگلے پانچ برس اپوزیشن میں گزارنے ہیں، اس کے لئے صبر و حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر جھنجھلاہٹ کا یہی عالم رہا جو اسمبلی میں دیکھنے کو ملا تو آگے چل کر خاصی رسوائی بھی ہوگی اور جگ ہنسائی بھی۔ پیپلز پارٹی نے جس بردباری اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا، وہ سب نے دیکھا۔ وہ نہ تو احتجاج میں شریک ہوئی اور نہ ہی اُن نعروں میں حصہ لیا جو جعلی اسمبلی اور جعلی مینڈیٹ کے حوالے سے لگائے گئے، یوں ایک طرح سے مسلم لیگ (ن) اسمبلی میں تنہا ہوگئی۔ آصف علی زرداری ہال میں موجود تھے، وہ ضرور اس چال کو سمجھ گئے ہوں گے، جو غیر متوقع طور پر جاوید عباسی کا مائیک کھول کر چلی گئی۔ مسلم لیگ (ن) نے ہنگامہ شروع کیا تو وہ ہال سے اُٹھ کر چلے گئے، گویا یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اس قسم کی صورت حال کی وہ کبھی حمایت نہیں کریں گے۔