تر کی کے خلاف پا بندیاں
10اگست کو امریکہ نے ترکی کی اسٹیل کی برآمدات پر 50 فیصد اور المونیم کی بر آمدات کے ٹیرف میں 20 فیصد کا اضافہ کر دیا، جبکہ 14 اگست کو امریکہ کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ کہ ترکی کے خلاف مزید پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں۔ ترکی کے خلاف امریکی پابندیوں سے ترکی کی کرنسی ’’لیرا‘‘ کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں 20 فیصد کی حد تک کم ہوچکی ہے۔ امریکہ نے تر کی کے خلاف پابندیوں کے لئے بظاہر یہ جواز دےئے ہیں کہ ترکی نے امریکی پادری ’’اینڈریو برنسن‘‘ کو قید کر رکھا ہے۔ ترکی کی حکومت نے اینڈریو برنسن کو 2016ء میں حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش میں شریک ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔ اینڈریو برنسن کی گرفتاری کے خلاف امریکہ میں انتہا پسند عیسائی تنظیموں کی جانب سے احتجاج کئے گئے۔ عیسائی انتہا پسند تنظیمیں چونکہ ٹرمپ کی حامی ہیں، اس لئے ٹرمپ نے اپنے اس حلقے کو خوش کرنے کے لئے ترکی کے خلاف پابندیوں میں سے ایک جواز اینڈریو برنسن کی گرفتاری کو قرار دیا۔ ترکی کے خلاف پابندیوں کا اصل مقصد امریکی سامراجی مقاصد کا حصول ہے۔
ترکی کے خلاف پابندیوں کو اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا کہ جس کے تحت اس سے پہلے روس اور ایران کے خلاف پابندیاں عائد کی گئیں۔ اردوان کی حکومت اپنی خارجہ پالیسی کو ان خطوط پر استوار کر رہی ہے جس سے مشرق وسطیٰ کے علاقے میں امریکی مفادات کو کسی حد تک نقصان پہنچ رہا ہے۔ ترکی نے شام میں روس اور ایران کے ساتھ تعاون کرکے جنوبی سرحد پر اپنے مفادات کو یقینی بنا لیا ہے۔ ترکی کے بار بار اصرار کرنے کے باوجود امریکہ، شام میں اپنی پراکسی ’’شامی کردش YPG ملیشیا‘‘ کو استعمال کرتا رہا۔ ’’شامی کردشYPG‘‘ ترکی میں ’’کردشPKK‘‘کی اتحادی ہے، ترکی اس تنظیم کو غیر قانونی قرار دے کر اس کے خلاف فوجی کارروائی بھی کرتا رہا ہے، جبکہ ترکی کی حکومت روس سے S_400 میزا ئیل سسٹم بھی خرید رہی ہے۔ ترکی یہ اعلان بھی کر رہا ہے کہ وہ ایران کے خلاف پابندیوں کی پروا نہیں کرے گا، کیونکہ ترکی اپنی توانائی کے لئے بڑی حد تک ایران پر انحصار کرتا ہے۔ روس کے ساتھ ساتھ ترکی، چین کے ساتھ بھی کئی طرح کے اہم معاشی معاملات میں منسلک ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ہیں وہ اہم وجوہات جن کے باعث امریکہ، ترکی کے خلاف پابندیاں عا ئد کر رہا ہے، انہی وجوہات کے باعث امریکہ نے 2016ء میں ترکی میں اردوان کا تختہ اُلٹنے کی در پردہ حمایت بھی کی تھی۔
ٹرمپ ہر اس ملک کے خلاف تیزی کے ساتھ پابندیاں عائد کر رہا ہے جو ملک امریکہ کے سامراجی مقاصد، وال اسٹریٹ اور امریکی کارپوریٹ سیکٹرز کے مفادات کے تحت چلنے کو تیار نہیں۔ ایران اور روس کے خلاف حالیہ پابندیاں اس کی ایک مثال ہیں۔
اس بات میں شک کی گنجائش نہیں کہ ترکی کے خلاف پابندیوں سے خود امریکی معیشت کو اتنا نقصان نہیں ہوگا، کیونکہ امریکی اشیاء کے لئے ترکی کی منڈی کی رینکنگ 28 نمبر ہے۔ امریکی بینکوں میں ترکی کے قرضوں کا 38 ارب ڈالرز موجود ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں اسپین کے بینکوں میں ترکی کے قر ضوں کے 83 ارب ڈالرز، فرا نس میں 38 ارب ڈالرز اور اٹلی میں 17 ارب ڈالرز موجود ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ترکی کے خلاف پابندیوں کے اثرات وا ضح طور پر یورپ میں بھی نظر آئیں گے، جبکہ ترکی کی کرنسی ’’لیرا‘‘ کی قدر کم ہونے کے اثرات اس وقت بھارت سے لیکر میکسیکو اور جنوبی افر یقہ تک بھی محسوس کئے جا رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب 2008ء میں عالمی کساد بازاری کا بحران آیا تو اس وقت مغربی سرمایہ داروں کی جانب سے کئی ترقی پذیر ممالک کی منڈیوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی، جن میں ترکی بھی شامل تھا۔ اس وقت یہ خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ ترکی، جنوبی افریقہ، بھارت اور برازیل جیسے ملکوں میں سرمایہ لگانے سے زیادہ اور تیزی کے ساتھ منا فع حاصل ہوگا۔ Institute of International Financeکے مطابق دنیا کی 30ا بھرتی ہوئی منڈیوں (جن میں ترکی بھی شامل تھا) کے جی ڈی پی میں 2011ء سے 163 فیصد سے211 فیصد تک کا اضافہ ہوا۔ یعنی ان منڈیوں میں 40 کھرب ڈالرز آئے۔ اب ترکی کی خراب معیشت کے اثرات ان منڈیوں پر بھی آنا شروع ہوگئے ہیں۔ جنوبی افریقہ کی کرنسی ’’رینڈ‘‘، برازیل کی کرنسی ’’ریل‘‘ کی قدر میں 10 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ بھارتی کرنسی ’’روپے‘‘ کی قدر بھی امریکی ڈالر کے مقابلے میں تاریخی کمی کا شکار ہوگئی ہے۔
ترکی کی معیشت پر امریکہ کی ان پابندیوں کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے ہیں، اس سال کے آغاز میں ترکی میں کم ازکم اجرت 1603 ’’لیرا‘‘ ہوتی تھی، اس سال کے آغاز میں ’’لیرا‘‘ کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 3.78 تھی۔ یوں یہ اجرت 424 ڈالر کے لگ بھگ ہوتی تھی، جو اب کم ہوکر 221 امریکی ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔ اگست تک بجلی اور گیس کی قیمتوں میں 15 فیصد تک کا اضافہ ہوگیا ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں دو سے تین گنا کا اضافہ ہوچکا ہے۔ ترکی کے کئی اداروں، تعمیراتی اداروں، بینکوں،ٹیکسٹائیل، حتیٰ کہ زراعت کے شعبے میں بھی بڑے پیمانے پر ڈاؤن سائزنگ کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ ایک سال کے اندر، اندر استنبول کی اسٹاک مارکیٹ میں امریکی ڈالرز کے تناسب سے 50 فیصد کی کمی واقع ہوچکی ہے۔ ترکی میں تعمیرات کے شعبے میں گزشتہ دس سالوں کے دوران بہت زیادہ ترقی ہوئی۔ ماہرین معیشت کے مطابق ترکی کی حالیہ معا شی ترقی میں اس کے تعمیرات کے شعبے کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے، مگر یہ شعبہ کافی حد تک درآمدات پر انحصار کرتا ہے، اب پابندیوں کے باعث ترکی میں تعمیرات کا شعبہ بری طرح سے متا ثر ہونا شروع ہوگیا ہے، جس کے باعث ہزاروں مزدور بے روزگار ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ترکی کی حکومت اب اس قابل نہیں کہ صرف اپنے دم پر ان تمام نقصانات کا ازالہ کر پائے۔ ایسے میں ترکی کی حکومت نے خود یہ اعتراف کیا ہے کہ اس کو چین کی حکومت کی جانب سے فوری طور پر 3.6 ارب ڈالر کا لون پیکج دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رقم ترکی کو ہونے والے نقصان کا عشر عشیر بھی نہیں ہے، تاہم چین سے ملنے والی یہ امداد اس بات کا عندیہ ہے کہ ترکی کے خلاف امریکی پابندیوں کو چین سمیت شاید ایشیا کے کئی ممالک خاطر میں نہ لے کر آئیں۔
ترکی کے خلاف امریکی پابندیوں سے ہم پاکستانیوں کو بھی بہت اہم سبق حاصل ہونا چاہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے یعنی 1945ء سے یا سرد جنگ کا باقاعدہ آغاز ہونے کے ساتھ ہی ترکی ایک ایسا ملک رہا، جس نے اپنی خارجہ پالیسی کو امریکی ضروریات کے تحت ترتیب دیا۔ امریکی قیادت میں بنائے گئے، نیٹو اتحاد میں امریکہ کے بعد جس ملک کی سب سے زیادہ فوج ہے وہ ترکی ہی ہے۔ ترکی نے اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں اس حد تک مغرب نوازی کا مظاہرہ کیا کہ وہ 1949ء میں پہلا ایسا مسلمان اکثر یت کا حامل ملک بنا جس نے مغرب کے کہنے پر اسرئیل کو بھی تسلیم کرلیا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد بھی ترکی نے ہمیشہ مغربی ممالک خاص طور پر امریکی خوشنودی کے حصول کو مقدم رکھا، مگر جب کچھ عرصے سے ترکی کے حکمران طبقات نے یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنے قومی مفادات کو کسی اور کے مفادات سے زیادہ مقدم رکھیں گے تو امریکہ کو اپنے اس پرانے اتحادی سے آنکھیں بدلنے میں ذراسی بھی دیر نہ لگی۔ آج خود ترکی ایک ایسے ملک کے ہاتھوں نقصان اٹھا رہا ہے جس کے مفادات کے تحفظ کے لئے وہ اگلی صفوں میں موجود ہوتا تھا۔ سابق امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر کا شمار ایسے امریکی سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کا امریکی پالیسی سازی میں بھی بڑا اہم کردار رہا ہے امریکہ پر ہنری کسنجر کا یہ جملہ عین امریکی پا لیسی کا ترجما ن ہے کہ "147To be an enemy of America can be dangerous, but to be a friend is fatal148
یعنی امریکہ کا دشمن ہونا تو خطرناک ہوہی سکتا ہے، مگر اس کا دوست ہونا مہلک بھی ہوسکتا ہے۔