اپنا پاکستان پھر سے’ ففٹی ففٹی ‘بن گیا
کیرم بورڈ کی گیٹیوں کی طرح اراکین اسمبلی قومی اسمبلی میں اکھٹے ہوئے ہیں لیکن جونہی نادیدہ ہاتھ حرکت میں آئے گا ،وہ پھر سے بکھر جائیں گے۔یہاں کوئی سپیکر بن گیا ہے تو کوئی ڈپٹی بن گیا ہے ، گویا کہ اپنا پاکستان پھر سے ’ففٹی ففٹی‘ بن گیا ہے۔
اب یہاں پھر سے وہی چٹکلے ہوں گے جو سیاستدانوں سے منسوب ہیں اور جن کو دیکھ دیکھ کر اور سن سن کر لوگوں کو ہنسی آنا بھی بند ہوگئی ہے۔ البتہ اب کے فرق یہ پڑا ہے کہ نوجوان قیادت کے نام پر عمران علی شاہ جیسے غنڈے مشٹنڈے کھلے عام سڑک پر شریف شہریوں کو تھپڑ جڑتے نظر آرہے ہیں لوگ اس ایک واقعے سے حالت رنج میں ہیں ۔
تقریب حلف برداریوں میں ہر بار کی طرح اس بار بھی حلف اٹھا کر گرائے جائیں گے ....یہ قولِ صادق بھلائے جائیں گے ۔اسمبلیوں میں اختیار کی جانے والی سنجیدگی کھلا جھوٹ ہے کیونکہ وہ سب جانتے ہیں کہ کیمرہ آن شُوٹ ہے، ان کے اصل چہرے دیکھنے ہیں تو کیمرے بند کرکے دیکھیں اور اگر مزید کی خواہش ہوتو ذرا بتیاں گُل کرکے دیکھیں!
یہ جیتے نہیں ہیں ...جتائے گئے ہیں ، یہ آئے نہیں ہیں... لائے گئے ہیں!
یہ چابی بھرے کھلونے ہیں جن کے اندر ٹائم واچ سیٹ ہے ، یہ وقت معین تک کے لئے سرگرم ہیں اور جب عوام گرم ہوں گے تو یہ ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔ان کے مطابق ساری ذمہ داری صرف اس ایک شخص کی ہے جو وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے گا، حالانکہ یہ جمہوریت نہیں جمہوری آمریت ہے ۔ منتظر ہیں یوں سبھی حلف کے کپتان کے ، دن بدل جائیں گے جیسے پھر تو پاکستان کے!
اب اس کے کندھوں پر پاکستان ہم نے دھر دیا جس نے بھاگم بھاگ تھا اس اوکھلی میں سر دیا، کپتان کی خوبی بس اتنی ہے کہ وہ ملوث کرپشن میں نہیں اور پورے ملک کو لاحق ہے جو اس کو وہ ٹینشن نہیں ۔ہم نے چھکڑے کے پیچھے ہی نہیں آگے بھی گھوڑا جوت دیا ہے ، انتخابات سے قبل سیاستدانوں کے پیچھے بھی کپتان تھے اور اب ان کے آگے بھی کپتان ہے تبھی تو نئے جمہوری دور کے آغاز میں ہی بے جان پاکستان ہے۔جنرل مشرف کے دور کے مشیروں کو پھر سے لینے کی خبریں آرہی ہیں ، ان مشیروں نے مشرف دور میں جو کچھ کیا تھا وہی کچھ اس مجرد دور میں بھی کردکھائیں گے ۔ تب ہم نے انہی کالموں میں لکھا تھا کہ مشرف نے کرپشن ختم کرنی تھی ، ہم خوش تھے ...عمران کرپشن ختم کرے گا ، ہم خوش ہیں!.....یہ فقرہ آج بھی اتنا ہی تازہ لگتا ہے جتنا 2013کے انتخابات سے قبل لگتا تھا۔یہ قوم تب بھی ایک کپتان کے نرغے میں تھی اور آج بھی ہے !
یقین نہیں آتا تو دیکھ لیجئے قاف لیگ کیسے پھر سے کائیں کائیں کرنے لگی ہے اور اس کے اراکین کی بڑی تعداد دریا کے پار والا گھاس چرنے لگی ہے جبکہ پی ٹی آئی کچھ یوں اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن ڈھونڈنے نکلی ہے جس طرح کوئی آوارہ ٹرین کوئی جنکشن والا اسٹیشن ڈھونڈنے نکلتی ہے ۔ایسے میں آصف زرداری جو کچھ کر رہے ہیں وہ بیچارے بھی کیا کریں کہ جس جس طوطے میں ان کی جان ہے ، ہلکان ہے اور عدلیہ کے پانی میں غوطے کھارہا ہے اس لئے آصف زرداری کی پیپلز پارٹی سے ہر طرح کی توقع رکھی جا سکتی ہے ۔ ادھر نواز شریف کے خلاف بھلے ناقص فیصلہ کیا گیا ہو، مگر نافذ ہوا ہے بالکل اسی طرح جس طرح مٹی سے کیا گیا تیمم جائز ہوتا ہے !
ایک وقت تھا جب کیا سندھ ، کیا سرحد اور کیا بلوچستان سب کو پنجاب کی حکمرانی کا گلہ ہوتا تھا ۔ ان انتخابات کے بعد باقی کے تینوں صوبوں میں پرانا پاکستان ہی برسراقتدار آیا ہے البتہ پنجاب میں نیا پاکستان بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ دوسرے معنوں میں تینوں صوبوں کا گلہ ختم ہو گیا ہے اور پنجاب کو فتح کرلیا گیا ہے ۔ ہم سب کو پنجاب میں نیا پاکستان مبارک ہو!