ماسٹرجی ہم شرمندہ ہیں!
ایک وہ زمانہ تھاجب گاؤں کے امام مسجداورسکول کے ماسٹرصاحب کی عزت سب سے زیادہ کی جاتی تھی،جہاں سے بھی امام صاحب یاماسٹرصاحب گزرتے ہرطرف سے" سلام میاں جی،سلام ماسٹرجی" کی آوازیں آتی تھیں اورتعظیماہاتھ ماتھے پررکھ لیتے تھےحالانکہ یہ وہ دور تھا جب سبق یاد نہ کرنے والوں کواستادمرغا بھی بناتے اورمختلف سزائیں دیاکرتے تھے مگراس کے باوجوددونوں کی عزت میں ذرا بھی فرق نہ پڑتا کیوں کہ لوگ جانتے تھے کہ استادہمارے بچوں کے بھلے کے لیے ہی ایساکرتے ہیں ورنہ استادشاگرد کی کون سی دشمنی ہے ۔پھررفتہ رفتہ زمانہ بدلتاگیااور"مارنہیں،پیار"کے بورڈ بھی لگ گئے۔آج استادکی عزت کے جنازے نکل جاتے ہیں مگرمعززین علاقہ بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے،پھریہ کہہ کر سارا ملبہ استادپرہی ڈال دیاجاتاہے کہ اب وہ پہلے والے استادکہاں؟
گزشتہ دنوں حافظ آباد کے علاقے کالیکی منڈی کے نواح میں واقع ایک سکول ماسٹرکوایک بگڑے ہوئے زمیندارنے اس طرح ماراپیٹااورڈنڈوں سے لہولہان کردیاکہ جیسے اس بے چارے سکول ماسٹرنے اس کی زمین پرقبضہ کرلیاہویاپھراس نے کوئی قتل کردیاہے جس کابدلہ لیاجارہاہو،لہولہان استادکی تصویرسوشل میڈیاپردیکھی توشرم سے سر جھک گیاکہ ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ایک استادکی عزت تودرکناراس کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کیاجاتا۔پھردوستوں نے مجھے فون کالزکرناشروع کردیں کہ آپ کے آبائی علاقے میں یہ واقعہ ہواہے،درحقیقت کہانی کیاہے،معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے میں نے کالیکی منڈی میں ہی کچھ دوستوں سے رابطہ کرکے حقائق جاننے کی کوشش کی توپتہ چلاکہ گورنمنٹ پرائمری سکول ٹھٹھہ پیراکے ٹیچرریاض احمدکاقصورصرف اتناتھا کہ انہوں نے ذوالفقارعلی کے بیٹے ظفراقبال کھرل کومنع کیاتھا کہ وہ سکول کے احاطے میں اپنے جانورنہ باندھیں،بگڑے ہوئے زمیندارنے سکول کوبھی اپنی جاگیرسمجھتے ہوئے ماسٹرصاحب کوسبق سکھادیاکہ یہاں علم کی شمع روشن کرنے سے زیادہ اہم ان کے جانوروں کاآرام ہے،یہاں تک تومعاملہ صرف ایک جاہل زمیندارکی اپنی سوچ کاہوسکتاہے مگرحیرت کی انتہاتب نہ رہی جب ماسٹرصاحب نے اندراج مقدمہ کے لیے تھانہ کالیکی منڈی رابطہ کیااورپولیس نے میڈٰیکل رپورٹ کامطالبہ کیا ۔اس میڈیکل رپورٹ کے حصول اوراندراج مقدمہ میں کچھ سیاسی شخصیات نے اپنااثرورسوخ استعمال کیاتاکہ مجرم کوبچایاجاسکے،یعنی جس معاشرے کومظلوم کاساتھ دیناچاہیے اورجس گاؤں کو ماسٹرجی کیساتھ کھڑے ہوناچاہیے وہ لوگ مجرم کوبچانے پرتُل گئے،معلوم ہواکہ مجرم کی فیملی مہدی حسن بھٹی کی سپورٹرہے اوریہی وجہ ہے کہ مجرم کوبے قصور ثابت کرنے اوراندراج مقدمہ میں رکاوٹ ڈالنے کی ہرممکن کوشش کی گئی،وہ توبھلاہومیڈیا کا جس نے خبریں چلائیں اورپھرمعاملہ سوشل میڈیاپر آگیا،یوں علاقہ بھرکے ٹیچرزبھی مظلوم استاد ریاض احمدکیساتھ کھڑے ہوگئے اورکچھ اعلیٰ افسران نے بھی کم ازکم مقدمہ درج کرلینے کاحکم دیدیا،آگے کیاہوگایہی خدشہ ہے جویہاں دیہات کی روایت ہے کہ کچھ دنوں بعدزخم ٹھیک ہوجائیں گے اورماسٹرجی پر معاملہ رفع دفع کرنے کے لیے دباؤڈالاجائے گا،ظاہرہے کہ وہ سرکاری ملازم ہیں،یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کی نوکری خطرے میں پڑجائے،نہ وہ کہیں دورتبادلہ کراناچاہیں گے اورنہ ہی ناکردہ گناہوں کی سزابھگتنے کی ہمت ہوگی اوربالآخرسب مل کر مظلوم کیساتھ کھڑے ہونے کی بجائے ظالم کیساتھ کھڑے ہوں گے۔نتیجہ یہ نکلے گا کہ ظالم ہیرواوربے گناہ بن کرآزاد پھرے گا اورمظلوم اس نظام کی مہربانیوں کے نتیجے میں نظریں جھکائے دل ہی دل میں یہ سوچ کرساری زندگی گزاردے گا کہ اس کاقصور صرف اتنا ہی تھا کہ اس نے ایک شخص کوسکول کے احاطے میں خلاف ضابطہ جانورباندھنے سے روکاتھا،یوں ماسٹرجی اپنی ہی عزت کاجنازہ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے ظالموں کی دنیامیں جیتے رہیں گے اورظالم سرعام دندناتاپھرے گا۔
خدشہ ہے کہ اگرظالم کواب نکیل نہ ڈالی گئی توکل کوکوئی اوربگڑا ہواکھرل اٹھ کھڑاہوگا اورکسی شریف ماسٹرجی کولہولہان کردے گا،حکام بالااگرمزیدایسے واقعات کی روک تھام چاہتے ہیں تو پھراس کیس کودوسرے ظالموں کے لیےنشان عبرت بنادیں،اسی میں سکولوں کی عزت ہے اوراسی میں مظلوم استادکی داد رسی بھی ہے۔اگرایسانہیں کرسکتے تومفت میں جانور باندھنے کی بجائے سکولوں کی عمارتیں کرائے کے باڑے بنادیں جس سے ریونیوبھی جمع ہوگااورایسے جھگڑے بھی نہیں ہوں گے پھر آئندہ کوئی ماسٹرریاض سرکاری املاک کی حفاظت کی خاطراپناسرتونہیں پھڑواتاپھرے گا۔کالیکی منڈی،ٹھٹھہ پیرا کے عوام جوبھی سمجھیں،ظالم کومظلوم سمجھیں یامظلوم کوبے قصور،غلطی ماسٹرجی کی سمجھیں یاماسٹرجی کاساتھ نہ دے کر زمینداروں سے اپنے تعلق خراب ہونے سے بچالیں ۔۔۔مگرماسٹرجی!۔۔۔ کوئی جوبھی سمجھے یہ شرم کامقام ہے، یہ لڑائی صرف دو افراد کی نہیں،یہ لڑائی علم اور جہالت کے درمیان ہے،اندھیرے اوراجالے کامقابلہ ہے،اہل دانش یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی بے عزتی کرنے والے مجرم کے نشان عبرت بننے تک ہم شرمندہ ہیں۔
(بلاگرمناظرعلی سینئر صحافی اور مختلف اخبارات،ٹی وی چینلزکے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں،آج کل لاہورکے ایک نجی ٹی وی چینل پرکام کررہے ہیں، عوامی مسائل اجاگر کرنے کیلئے مختلف ویب سائٹس پربلاگ لکھتے ہیں،اس فیس بک لنک پران سے رابطہ کیا جا سکتا ہے، www.facebook.com/munazer.ali )
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔