پاکستان،قوم اور اقلیتیں
ان دنوں ہم 74واں یوم آزادی اور آزادی کی 73ویں سالگرہ کی خوشیاں منا رہے ہیں، ہم مسلمان ہیں مگر ہمارے ساتھ پاکستان میں عیسائی،ہندو، اور سکھ بھی بستے ہیں،کیا ہم نے کبھی سوچا کہ وہ بھی ہماری طرح پاکستانی ہیں۔اسی طرح ہمارے اندر پنجابی،پختون،سندھی بلوچ کے بعد مہاجر،ہزارہ،پوٹھوہاری،براہوی کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم جاری ہے،پہلے ہم مذہبی طور پر شیعہ سنی کی بنیاد پر گروہ بندی کا شکار تھے اور شاہد آج بھی وہیں کھڑے ہیں،مسلک کے بعد تصوف کی بنیاد پر تقسیم اور اس کے بعد شیوخ کے نام پر شیرازہ بندی ہو رہی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج تک کسی حکمران،اہل علم ودانش،صاحبان فہم و شعور اور ماہرین عمرانیات نے اس تقسیم اور گروہ بندی کے اسباب جاننے کی کوشش نہ کی جس کے نتیجے میں زبان اور مذہب کے بعد اب مسلک کے نام پر قوم تقسیم ہو رہی ہے۔ پاکستانیت اس تقسیم در تقسیم کے عمل میں کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے،آزادی کی خوشیاں منانا زندہ دلی کی نشانی ہے مگر ان خوشیوں کو مناتے ایک لمحہ کیلئے ہم نے سوچا؟ مجھے اپنے قائد یاد آ رہے ہیں،
بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے یوم آزادی سے پہلے 11اگست1947کو پہلی دستور ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا”آج ہم ایک قوم ہیں،کسی کو کوئی امتیاز حاصل نہیں،اللہ کا شکر کہ آج ہم ایک ایسی ریاست کی ابتداء کر رہے ہیں جہاں ہر ذات برادری،نسل،مذہب کے لوگ برابر ہوں گے اور ان کو مساویانہ شہری حقوق حاصل ہونگے،شہری عبادت کیلئے مسجد،چرچ،مندرجانے کیلئے آزاد ہونگے،اور اپنے عقائد کے مطابق مذہبی فرائض ادا کرسکیں گے،آپ کا تعلق کسی مذہب،ذات،رنگ،نسل سے ہو ریاست کو اس کوئی غرض نہیں،ریاست کی نظر میں سب برابر کے شہری ہیں“۔
اپنے قائد کے ارشادات کی روشنی میں مجھے تو اسی لئے ایک مسلمان علی احمد ڈھلوں اچھا لگتا ہے جو اقلیتوں کے حقوق کی بات کر رہا ہیاور دوسرا ایک عیسائی خلیل طاہر سندھو اچھا لگتا ہے جو پاکستانیت اور قائد اعظم کی بات کرتا ہے۔
آج 73سال بعد برادر محترم،اچھے انسان اور سینئر صحافی علی احمد ڈھلوں نے کمر ہمت کسی اور اس حوالے سے قلم اٹھایا، علی احمد ڈھلوں کی تحریروں میں جدت اور تنوع ہمیشہ سے خاصا رہا ہے،مگر حالیہ یوم آزادی پر”پاکستان کی روشن اقلیتیں“کے نام سے علی احمد ڈھلوں کی نئی تصنیف صاحبان علم ودانش کیلئے لمحہ فکریہ ہے،علی احمد ڈھلوں نے حکام اور حکیموں کو بتایا ہے کہ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، اگر چہ بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا مگر وقت کی ڈور اب بھی ہمارے ہاتھ میں ہے،اب بھی نفرت،عصبیت اور کدورتوں کے اس کاروبار سے ناطہ توڑ کر ہم ایک قوم صرف اور صرف پاکستانی بن سکتے ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں اقلیتی رکن اور پنجاب کے سابق وزیر اقلیتی امور اور انسانی حقوق خلیل طاہر سندھو نے ہمیشہ پاکستان کی بات کی ہے،وہ ایک سچا اور کھراعیسائی پاکستانی ہے،وہ پاکستان اور قائد اعظم سے پیا ر کرتا ہے۔اس نے پنجاب اسمبلی میں یوم آزادی سے چند روز قبل یوم اقلیت کے موقع پر اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی جس میں مطالبہ کیا ہے کہ قائد اعظم کی اس تقریر کو صوبہ میں ہر سطح پر نصاب کا حصہ بنایا جائے۔اس قرار داد کو پیش کر کے خلیل سندھو نے اور متفقہ طور پر منظور کر کے پنجاب اسمبلی نے اچھا کام کیا۔
اسلامی اور تیسری دنیا کے ماضی و حال پر سرسری سی نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے اس تقسیم درتقسیم کی اصل وجہ اقلیتوں سے امتیازی سلوک اور انہیں ریاست میں برابر کے حقوق نہ دینا ہے،غیر مسلم اقلیتیں اس نفرت اور عصبیت کے باعث اسلامی ممالک اور تیسری دنیا خاص طور پر سارک ممالک میں دوسرے درجے کے شہری بن چکی ہیں،اللہ رب العزت نے اپنی تمام مخلوق کو زندہ رہنے کیلئے برابر کے حقوق دئیے،زندگی کیلئے ضروری ہواء،پانی،حرارت،روشنی کی تقسیم اپنے دست قدرت میں رکھی،رزق کی تقسیم بھی اسی رب کائنات کے ہاتھ میں ہے،مگر اس کام میں دیگر انسانوں کو بھی اللہ پاک نے شریک کر کے انسان کو شرف بخشا،ریاست کا آئین بھی ہر اقلیت کو برابر کے شہری حقوق دیتا ہے،مگر بعض ممالک میں مذہبی ٹھیکیدار اقلیتوں کو فطری اور آئینی حقوق دینے پر تیار نہیں،جس کی وجہ سے ان ممالک میں ترقی کی رفتار انتہائی کم ہے۔
ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے جن ممالک نے تیزی سے ترقی کے زینے طے کئے ہیں ان پر اچٹتی سی نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں دراصل کوئی اقلیت ہی نہیں،ان میں سر فہرست چین ہے جہاں اپنی الگ اجتماعی مذہبی شناخت ظاہر کرنے پر پابندی ہے مگر انفرادی حیثیت میں اپنے مذہبی عقائد کے مطابق عبادت کرنے میں تمام لوگ آزاد ہیں،اگر چہ چین ایک لا دین ریاست ہے مگر جین مت اور بدھ مت کے علاوہ کنفیوشس کے ماننے والوں کی اک بڑی تعداد وہاں مقیم ہے انہی میں مسلمان،عیسائی،یہودی،سکھ اور ہندو بھی آباد ہیں اور خوش وخرم ہیں۔کینیڈا بنیادی طور پر مسیحی اکثریتی ریاست ہے،مگر وہاں دیگر مذاہب کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی حاصل ہے،چین میں ہر شہری چینی ہے تو کینیڈا میں ہر شہری کینیڈین ہے،انسان اور شہری ہونے کے ناطے ہر شہری کو مساویانہ حقوق حاصل ہیں،مذہبی تفریق ہے نہ رنگ ونسل کی،کسی کو کسی کے مذہبی عقائد پر اعتراض بھی نہیں،نتیجے میں آج شخصی آزادیاں دینے والے ممالک تیزی سے ترقی کے زینے طے کر رہے ہیں،بد قسمتی سے اس حوالے سے ہم ترقی معکوس کا شکار ہے،پاکستانی عوام کی ہمدردیاں تقسیم ہیں،کوئی سعودی عرب کا قصیدہ کہتا ہے کوئی ایران کا،کسی کو افغانستان سے محبت ہے اور اب کچھ لوگ ترکی کی محبت میں گرفتار دکھائی دیتے ہیں،کوئی امریکہ نواز ہے
تو کوئی روس اور چین نواز
اب ذرا قائد اعظم کے خطاب کی روشنی میں پاکستان کی حالت زار کا اندازہ اعداد و شمار کی روشنی میں لگاتے ہیں،آزادی کے وقت متحدہ پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 77فیصد اور اقلیتیں 23فیصد تھیں،جن میں مشرقی پاکستان میں بڑی تعداد میں ہندو بھی شامل تھے،جو اب ہمارا حصہ نہیں رہا،حمودالر حمٰن کمیشن کی رپورٹ پر ایک نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا مشرقی پاکستان بھی بنگلہ دیش اسی وجہ سے بنا کہ بنگالیوں سے منصفانہ سلوک نہ کیا گیا،اب ایسی ہی صورتحال کا سامنا موجودہ پاکستان میں اقلیتوں کو ہے جس کے نتیجے میں اقلیتی افراد تیزی سے نقل مکانی کر رہے ہیں،1998ء کی مردم شماری کے وقت اقلیتوں کی آبادی کا تناسب 4.5فیصد تھا جو مزید کم ہو کر اب3.5فیصد رہ گیا ہے،22سال کے عرصہ میں 20لاکھ اقلیتی شہری پاکستان کو خیر باد کہہ گئے،قومی سبز ہلالی پرچم میں اقلیتوں کی آبادی کے تناسب سے ہی سبز کے ساتھ سفید رنگ شامل کیا گیا تھا مگر ہم اس کی لاج نہ رکھ سکے۔
علی احمد ڈھلوں کی کتاب اور خلیل طاہر سندھو کی قرار داد در اصل دعوت فکر ہے قلیتوں کے حقوق کی پامالی، ان کو دوسرے درجے کا شہری قرار دینا کہاں کا انصاف ہے،جب ہم نے افراد کو ستارہ نہیں سمجھا تو ملت کی کہکشاں کیسے وجود میں آسکتی ہے۔ابھی وقت ہے خدارا ہر قسم کی نفرت،عصبیت،عدم مساوات،غیر یقینی کو ختم کر کے مملکت خداداد میں بسنے والے ہر شہری کو بلا امتیاز رنگ،نسل،ذات،مذہب زندہ رہنے کے مساویانہ حقوق دینے ہوں گے اور یہی قائد کے پاکستان کی اساس ہے۔