کورونا، خدشات اور لاپرواہی!
عیدالاضحی کے بعد لاک ڈاؤن ختم ہوا، شہری کسی قسم کی احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرتے دکھائی دیئے، تفریح گاہوں پر بھیڑ تھی تو اتوار کو بھی شہر کھلے ہوئے تھے۔ گلگت، بلتستان سے خبر ہے کہ جو سیاح وہاں آئے، ان میں سے صرف پانچ فیصد ایسے تھے جن کے پاس کورونا کلیئرنس سرٹیفکیٹ تھے، جبکہ چار سیاح ایسے بھی تھے جن کو قرنطینہ میں رکھنا لازم ہو گیا، ادھر ویٹرنری یونیورسٹی کالج لاہور کے ماہرین نے سیوریج کے نمونے حاصل کرنے کے بعد خبردار کیا کہ ان میں 70فیصد کورونا جراثیم ملے ہیں۔ یہ جوہر ٹاؤن، کالج روڈ اور ہمدرد سنٹر کے علاقوں کے حاصل کردہ نمونے ہیں، یونیورسٹی ماہرین کے مطابق اس تحقیق کا فائدہ یہ ہے کہ سمارٹ لاک ڈاؤن میں سہولت ملے گی۔لاک ڈاؤن ختم ہونے اور عیدالاضحی کے بعد پہلے اتوار ہی کو کراچی سے خیبر تک جو حالات تھے،ان کی وجہ سے بھی ماہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ شہریوں نے حفاظتی اقدامات کے حوالے سے کوئی احتیاط نہیں کی، نہ تو ماسک پہنے اور نہ ہی سماجی فاصلوں کا خیال رکھا۔ کاروباری مراکز ہی نہیں، ریسٹورنٹ اور شادی ہال بھی کھل گئے۔ شہریوں کے مطابق کرونا کہیں نہیں۔ وفاقی حکومت اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ وبا پھر سے لوٹ سکتی ہے اور جو کمی ہوئی، اسے احتیاط ہی سے مزید اور کم کیا جا سکتا ہے۔ سنجیدہ فکر شہری بھی تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معیشت کی بحالی لازم سہی، لیکن احتیاط کا دامن چھوڑ دینا مناسب نہیں کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں کورونا وبا لوٹ کے آئی۔ پاکستان میں یہ ابھی ختم نہیں ہوئی، کمی ضرور ہوئی، اسی لئے احتیاط لازم ہے جو کرنی اور کرانا چاہیے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو توجہ دینا ہوگی۔شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار کا ایک اچھا وقت متعین ہو گیا تھا جو پوری دنیا کے مطابق ہے۔ بہتر عمل یہ بھی ہے کہ کاروباری اوقات صبح نو بجے سے سورج غروب ہونے تک کے وقت سے منسلک کر دیئے جائیں۔