ایدھی ڈوگر

ایدھی ڈوگر
ایدھی ڈوگر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ہمارے ایک دوست اکثر ہمیں کہتے ہیں ”وقت بدل گیا ہے، جاٹ پان کھانے لگے ہیں، آرائیں بدمعاش ہو گئے ہیں، شیخ غنڈہ گردی کرنے لگے ہیں، وٹو قانون بنا رہے ہیں، رانجھے اس کا نفاذ کر رہے ہیں اور ڈوگر دانشور بنتے جا رہے ہیں۔ یہ قرب قیامت کی نشانیاں ہیں۔“
آپ نے ایک سابق چیف جسٹس کے یہ جملے تو اکثر سنے ہوں گے جو انہوں نے ایک ڈوگر کے ہائی کورٹ کے جج بننے پر کہے تھے۔ ”عجیب زمانہ آ گیا ہے۔ ایسے نام تو پہلے قتل کے مقدمات کے ملزموں میں نظر آتے تھے۔“ ہمارے بزرگ دوست راؤ اشفاق احمد موڈ میں ہوں تو کہتے ہیں ”اسلم! تم کیسے ڈوگر ہو؟ گولیاں چلانے کی بجائے لکھتے پڑھتے ہو۔ بھئی ڈوگر تو وہ ہے جس کی ٹانگ نہ ہو یا لڑائی میں بازو نہ رہے۔“


واقعی زمانہ بدل گیا ہے۔ اب ڈوگر اپنی قوم کانام کچھ مختلف طریقے سے روشن کر رہے ہیں۔ ہمارے دوستوں کی اگر جاوید اقبال ڈوگر سے ملاقات ہو تو انہیں حیرت ہو گی۔ یہ ایسے ڈوگر ہیں جنہیں ایدھی بننے کا شوق ہے۔ جنہوں نے ایدھی کی سوانح عمری پڑھ کر ایدھی جیسے کام کرنے کا تہیہ کیا۔ ڈوگر بہت اچھے لوگ ہیں کیونکہ اگر انہیں اچھے نہ کہا جائے تو بہت مائنڈکرتے ہیں اور پھر آپ کی توقعات کے مطابق ایسی حرکات بھی کر گزرتے ہیں کہ بزرگوں کے ”کارناموں“ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ مگر یہ جاوید اقبال ڈوگر جو ہے نا اس کو عبدالستار ایدھی نے خاصا خراب کر دیا ہے۔ اسے لوگوں کی خدمت کا جنون ہے۔ یہ آپ کو کسی جگہ آئی کیمپ لگاتا ہوا نظر آئے گا۔ کہیں راشن تقسیم کرنے کا اہتمام کرے گا اور کہیں یہ مستحق اور لائق بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرنے کے لئے اپنی تڑپ پر قابو پانے میں ناکام دکھائے دے گا۔

لوگ زلزلے سے متاثر ہوتے ہیں، سیم تھور سے متاثر ہوتے ہیں۔ جاوید ڈوگر اگر ایدھی سے متاثر ہو گا تو ایسا تو ہو گا ہی۔ خدمت خلق کابھی ایک نشہ ہوتا ہے۔ ایسا نشہ جو انسان کو نہ تو اپنا رہنے دیتا ہے اور نہ ہی اپنی اولاد کا۔ جاوید اقبال نے اپنی دس ایکڑ اراضی پر ٹرسٹ بنا رکھا ہے۔ اس دس ایکڑ اراضی کی مالیت کروڑوں میں ہے۔ جاوید اقبال کے بچے بہت اچھے ہیں۔ وہ ان کی اس حرکت کو پسند ہی کرتے ہوں گے لیکن ہمارے ایک دوست نے جب ایسا ہی ایک کام کیا تو ان کے صاحبزادے نے ہمیں بڑے دکھ سے کہا ”والد صاحب بہت اچھے ہیں لیکن انتہائی خودغرض بھی ہیں۔ صرف اپنی عاقبت سنوارنے کی غرض سے وہ ہم چار بھائیوں کی دنیا خراب کر رہے ہیں۔“


ایک دفعہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ ڈوگروں کے ایک اجتماع میں گیا۔ واپسی پر اس نے کہا کہ میں آئندہ اسے ایسے کسی فنکشن میں لے کر نہ جاؤں۔ وجہ دریافت کرنے پر اس نے کہا کہ فنکشن میں ان کی جتنے بھی ڈوگروں سے ملاقات ہوئی، اس سے یہ تاثر ملا کہ ہر ڈوگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ بہت اہم ہے۔ مگر اس کو وہ اہمیت نہیں دی جا رہی ہے جس کا وہ مستحق ہے۔ جاوید ڈوگر صاحب کہتے ہیں کہ لاہور میں ڈوگروں کے ایک اجتماع میں ان کو خاصا ہدف تنقید بنایا گیا کیونکہ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ کچھ زیادہ ہی مقبول ہو رہے ہیں۔ ڈیڑھ سو ڈوگر کسی نہ کسی انداز میں ان پر چڑھائی کر رہے تھے بلکہ انہیں مارنے کے لئے دوڑ رہے تھے۔ جاوید ڈوگر صاحب نے بتایا کہ واپسی کے سفر میں بہت دل گرفتہ تھے۔ راستے میں وہ ایک جگہ کھانے کے لئے رکے۔ کھانا کھایا اور پھر اللہ تعالیٰ سے کہا کہ میں نے ان لوگوں کو معاف کر دیا اور اگر خود ان سے کوئی غلطی ہو رہی ہے تو خدا انہیں سیدھے راستے پر چلائے۔


میں جاوید اقبال ڈوگر کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ میرے خیال کے مطابق انہوں نے ڈٹ کر کھانا کھایا ہو گا۔ اس کے بعد سیون اپ یا کوک کی دو تین بوتلیں پی ہوں گی۔ پیٹ پر ہاتھ مار کر ڈکار مارے ہوں گے اور پھر خلوص دل سے سب کو معاف کر دیا ہو گا۔ جاوید صاحب کو خدمت خلق کے بعد ہم نے کھانے کے شوق میں مبتلا دیکھا ہے۔ ہمارے ایک دوست رانا مستنصر نذیر کہا کرتے تھے کہ جاوید اقبال کو کھانے پر مدعو کریں تو ایک بندے کا نہیں بلکہ درجن بھر بندوں کا کھاناپکائیں اور اگر پھر بھی کھانا کم ہو جائے تو پریشان نہ ہوں۔ جاوید صاحب آپ کی پریشانی دور کرنے کے لئے اگلے دن بھی آ سکتے ہیں۔ یہ تو خیر لطیفہ ہے سچی بات یہ ہے کہ وہ دوسروں کو کھلا کر بہت زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ برسوں پہلے میں اسلام آباد کام کے سلسلے میں گیا۔ میں نے جاوید صاحب کو فون کیا تو انہوں نے شام کو گھر آنے کی دعوت دی۔ میں اپنے دوست سیدسردار احمد پیرزادہ کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر پہنچا تو انہوں نے اسلام آباد کے تمام جید ڈوگر اکٹھے کر رکھے تھے۔ انہوں نے بڑی زبردست دعوت کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ڈوگروں کی فلاح و بہبود کے لئے اتنی زوردار گفتگو ہوئی کہ واپسی پر  سردار احمد پیرزادہ نے کہا ”یار جب میں آیا تھا تو میں سید تھا مگر اب واپس جاتے ہوئے اپنے آپ کو ڈوگر ڈوگر محسوس کر رہا ہوں۔

“ ہمارے دوست سابق آئی جی پنجاب امجد سلیمی صاحب اکثر کہتے ہیں کہ اگر آپ گاؤں میں تین چار ماہ مسلسل رہیں تو پٹواری کو رشوت دینے کو دل کرتا ہے اور تھانے دار سے بے عزتی کرانے کو دل چاہتا ہے۔ اگر آپ جاوید اقبال کے ساتھ کچھ وقت گزاریں تو آپ کا باقاعدہ ڈوگر بننے کو دل چاہے گا اور آپ بھی  ڈوگروں کی فلاح و بہبود کے کام کرنا چاہیں گے۔جاوید اقبال سے مل کر ڈوگروں کے لئے نئے نئے منصوبے دماغ میں آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ کمال کا شخص ہے۔ یہ ڈوگروں کو متحد کر رہا ہے۔ ان کے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کر رہا ہے۔ غرباء کے لئے راشن تقسیم کر رہا ہے۔ لوگوں کی بینائی بحال کرنے میں مدد کر رہا ہے، مگر اس میں برتری کا کوئی کمپلیکس نہیں ہے۔

30سال پہلے بھی سادگی اور خدمت اس کی شخصیت کا تعارف تھی۔ آج بھی اس کا یہ تعارف تبدیل نہیں ہوا۔ گالیاں کھا کر دعائیں دینا اور خدمت کرنا بڑے لوگوں کا کام ہے۔ جاوید اقبال ڈوگر بڑا آدمی ہے جسے اللہ نے خدمت کا جذبہ دیا ہے۔ جاوید اقبال ڈوگر گالیاں کھا کر بدمزہ نہیں ہوتا۔ خوب ڈٹ کر کھانا کھاتا ہے اور سب کو معاف کر کے خدمت خلق کے نئے مشن کے لئے سرگرم عمل ہو جاتا ہے۔ یہ ڈوگروں کاایدھی ہے۔ یہ ہمارا ایدھی ہے۔ ڈوگروں میں آج تک اس سے بہتر ایدھی سے کم از کم ہماری ملاقات نہیں ہوئی۔

مزید :

رائے -کالم -