دائرے کا سفر اور گمشدہ امید

دائرے کا سفر اور گمشدہ امید
دائرے کا سفر اور گمشدہ امید

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کی 77ویں سالگرہ مناتے ہوئے سودو زیاں کا حساب بھی ضرور رکھنا چاہئے۔ ان گزرے ماہ و سال میں ہم نے کیا پایا اور کیا کچھ کھو دیا۔ کہاں سے چلے تھے اور آج کہاں کھڑے ہیں۔14اگست 1947کی پہلی ساعت جس قافلے نے پاکستان کی جانب سفر شروع کیا تھا،وہ منزل تک پہنچا بھی کہ نہیں۔وہ قافلہ ابھی تک سفر میں ہے تو کیوں؟وہ قافلہ دائرے کا سفر کیوں کر رہا ہے؟یہ ذرا دم لے کر پھر اسی سفرپر چل پڑنے کی روش کیوں ہے؟دائرے کے سفر میں ماہ و سال تمام کرنے والی قوم آخر یہ کیوں نہیں سوچتی کہ ہمیں اب رستہ بدلنے کی ضرورت ہے۔اور اگر سوچ بھی لیتی ہے تو ذرا آگے جانے کے بعد پھر واپس پلٹ کر اسی رستے پر کیوں آن کھڑی ہوتی ہے کہ جس کی کوئی منزل ہی نہیں۔ 77سال کے بعد اگر ہم اپنی بربادی کی دھول کے پرے دیکھنے کی کوشش کریں توسمجھ میں آئے گا کہ روز اول ہی سے ان رستوں کا انتخاب ہی نہیں کیا جو قوموں کو منزل پر لے کر جاتے ہیں۔ہم ان راہوں کے مسافر رہے جو ہمیشہ سے رستہ کھوٹا کرتی رہیں۔جنہوں نے تھکن کے سوا کچھ دیا ہی نہیں۔77 سال کے اس سفرکے آغاز کی جانب دیکھیں تو ابھی یہ ریاست نوزائیدہ ہی تھی کہ جنرل ایوب خان نے مارشل لا کا نفاذ کر کے یہ نوید سنا دی کہ تمام تر مسائل کا حل صرف ان کے اقتدار کی طوالت میں پوشیدہ ہے۔ان کے خلاف جو آواز اٹھتی دبا دی جاتی،اس کے باوجود لوگوں نے جمہوریت کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر محترمہ فاطمہ جناحؒمیدان ِ عمل میں آئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فاطمہ جناحؒکے اس قافلے میں جہاں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں موجود تھیں وہیں بائیں بازو کا کٹر نظریہ رکھنے والے لوگ بھی تھے جوانہی کو نجات دہندہ سمجھتے تھے۔

عوام ان کے ساتھ تھے،وہ جمہور کی آواز تھیں لیکن جب الیکشن ہوا تو عوامی رائے کو کچلتے ہوئے جنرل ایوب فاطمہ جناحؒ سے الیکشن جیت گئے۔کہتے ہیں فاطمہ جناح کی جیت کو شکست میں بدلنے کے عمل نے مشرقی پاکستان کی بنیاد رکھ دی تھی۔ پھر ہماری اشرافیہ کی سرد مہری اور تحقیر آمیز رویے نے اس پر ایسی دیوار کھڑی کر دی جس نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا۔پاکستان کے دولخت ہونے میں کس کا قصور تھا؟ ہم اپنے مجرم کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ وہ قصور وار بھی ہے۔ ہم اپنے اپنے سیاسی مزاج کے زاویے سے دیکھتے ہوئے پاکستان کو دولخت کرنے کا الزام مختلف شخصیات اور اداروں پر دھرتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ سچ کا سامنا ہی نہ کرنا پڑے۔یہی وجہ ہے کہ من حیث القوم ہم آج تک اس پر اتفاق نہیں کر پائے کہ سقوط ڈھاکہ کا اصل ذمہ دار کون تھا۔وہ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ ہو یا پھر آنکھوں دیکھی حقیقت،ہم کچھ بھی ایسا تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں جس سے ہمارے تراشے ہوئے بت ٹوٹیں۔پاکستان کے دو لخت ہوجانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار ملا،انہوں نے روٹی کپڑا اور مکان کا ایسا خواب دکھایا جس کی تعبیر ڈھونڈنے والوں میں سے بیشتر قبروں میں جاسوئے۔بھٹو مضبوط حکمران بن کر سامنے آئے تھے۔اتنے مضبوط کہ انہوں نے جو سوچا کر دیا،بھلے اس کے نتائج کچھ بھی نکلے۔ جب ان سے اقتدار چھینا گیا تو جنرل ضیاء  الحق نے یہ خبر سنائی کہ 90روز کے اندر اندر انتخابات کروا دئیے جائیں گے۔یہ نوے روز ختم نہیں ہوئے اور ایک دہائی سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔اس دور میں جمہوریت پسندوں پر بدترین مظالم ڈھائے گئے۔

میں خود ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے نظر بندی اور قید کاٹی،قصور صرف اتنا تھا ہم نوجوان وہ حق مانگتے تھے جو ہمیں آئین دیتا ہے  لیکن اس کے بدلے میں بدترین قید اور مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ہم سمجھتے تھے کہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں گی تو ریاست اس رستے کی مسافر ہو جائے گی جو اسے ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لا کھڑا کرے گا۔ لیکن ضیاء الحق کے جاں بحق ہونے کے بعد بینظیر بھٹو کی حکومت نے بھی ہم ایسے لوگوں کے خواب چکنا چور ہی کئے۔قربانیاں دینے والے دور کھڑے تماشا دیکھتے رہے اور اس نام نہادجمہوریت کے ثمرات ان کی جھولی میں گرتے رہے جو کٹھن رستوں کے مسافر تھے ہی نہیں۔ہم جیسے جمہوریت پسند وں کو ایک بار پھر مایوسی ہوئی۔اس مایوسی نے سبق دیا کہ ہماری سیاست کے سکے کے دورخ تو ہیں لیکن ان پر مفادات کی تصویر ایک جیسی ہی ہے۔نوے کی دہائی میں یہ سکہ بار بار اچھالا جاتا رہا،کبھی نواز لیگ اور کبھی پیپلز پارٹی اقتدار میں آتی۔سفر چونکہ دائرے کا ہے اس لئے وہ مقام بار بار آتے جہاں سے ہم گزرتے ہیں۔ایک بار پھر جمہوری حکومت کا تختہ الٹا دیا گیا اور پرویز مشرف روشن خیالی کا نیا چورن لے آئے۔اسی دوران نائن الیوین کا واقعہ ہوا جس کے بعد دہشت گردی کی آگ ایسی بھڑکی کہ آج تک ہمارا دامن سلگ رہا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کر کے نئی جماعتیں اور گروپ بھی بنائے گئے۔جب مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہو رہاتھا تو محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا، یہ ایسا سانحہ تھا جس نے ملکی سیاست کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ پیپلز پارٹی ہمدردی کا ووٹ لے کر مقتدر ہوئی تو بہت سے دعوے سامنے آئے، لیکن بدقسمتی سے عملی طور پر کچھ بھی نہ ہوا۔

 توانائی بحران سے لے کر صنعتوں کی بندش تک پاکستان بدترین مصیبتوں کا شکار رہا۔یہ بحران پیپلز پارٹی کو ایک صوبے سندھ تک محدود کر گیا۔اقتدار ایک بار پھر نوز شریف کو ملا، یہ نسبتاً ترقی کا دور تھا لیکن بدقسمتی سے ایک بار پھر وزیر اعظم کی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ نہ بن سکی۔عمران خان نے قوم کو تبدیلی کا خواب دکھایا،نوجوان نسل ان کے ہمراہ ہولیے۔یہ جان کر کہ وہ ریاست کوبحرانوں سے نکالیں گے بہت سے خواب دیکھے۔لیکن یہ جتنے خواب تھے ان میں سے کسی کو بھی تعبیر نصیب نہیں ہوئی۔ عمران خان کے بعد کے حالات بھی کچھ اچھے نہیں رہے۔ پی ڈی ایم سرکار نے معیشت کو سنبھالا دینے کے نام پر مہنگائی کا ایسا طوفان برپا کیا کہ اب عام آدمی کا سانس لینا بھی محال ہے۔ آج پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی مشترکہ حکومت ملک کی 77 ویں سالگرہ منا کر یہ نوید دے رہی ہے کہ آنے والے دن اچھے ہیں لیکن عام آدمی کا اطمینان اب بھی متزلزل ہے۔ اسے ہر گز یقین نہیں کہ واقعی آنے والے دن اچھے ہوں گے۔اس بے یقینی اور نا امیدی کی فضا میں اگر کوئی امید کی کرن دکھائی دیتی ہے تو وہ جنرل عاصم منیر کی جانب سے فوج کو سیاست سے دور لے جاتے ہوئے اس ادارے کو باوقار بنا رہے ہیں۔اگر ایسا دہائیوں پہلے ہو جاتا تو شاید ہم دائرے سے نکل گئے ہوتے۔ بہرحال اب ہی سہی،روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں، منزل کی جانب بڑھنے کی کوئی امید تو جاگی ہے۔میں 77 ویں جشن آزادی کے موقع پر یہی دیکھ رہا ہوں کہ ہمیں امید کے جگنو دکھائی دے رہے ہیں،اب رستہ بھی واضح ہو گا اور منزل بھی ملے گی۔

مزید :

رائے -کالم -