اب کس بات کا انتظار ہے
گزشتہ کئی دہائیوں سے وطن عزیز بدترین دہشت گردی کا شکار ہے، بم دھماکے معمول بن گئے ہیں لوگ لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں۔ کھیلوں کے میدان اجڑ گئے ہیں کوئی ملک اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کو تیار نہیں۔ کاروبار مندی کا شکار ہیں اور کوئی یہاں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں۔ حال یہ ہے کہ جو تھوڑی بہت سرمایہ کاری یہاں موجود ہے وہ بھی اپنی میٹنگیں دبئی میں کرتے ہیں۔ پاکستانی سرمایہ کار بنگلہ دیش، ملائیشیا اور افریقی ممالک میں سرمایہ لے جارہے ہیں ظاہر ہے ایک ایسا ملک جہاں سیاسی ناہمواری ہو اور مارشل لاء کا خطرہ منڈلاتا رہے جہاں حکومتیں تک کمیشن لینے والوں میں شامل ہوں، جہاں بجلی ناپید ہو، جہاں کی سیاسی جماعتیں ذاتی انا کے باعث ہر وقت دست و گریباں ہوں وہاں کون آئے گا؟ میرے کئی جاننے والے یہ کہتے ہوئے کہ یہ ملک رہنے کے قابل نہیں دیار غیر میں بس چکے ہیں۔ میں ان کو ہمیشہ یہی کہتا رہا کہ باہر جاکر ساری عمر تھرڈ گریڈ شہری رہو گے، تمہاری اگلی نسل برباد ہوجائے گی اور یورپ کے رنگ میں رنگی جائے گی۔ تمہیں جس ملک نے اتنا کچھ دیا کیا اس کا کوئی حق نہیں بنتا؟ کیا ہم جسم کے متاثر حصے کو ٹھیک کرنے کی بجائے چھوڑ دیتے ہیں یہ تو پھر ہمارا ملک ہے جسے خون کے دریا عبور کرکے حاصل کیا گیا ۔۔۔ باہر ساری عمر ضربیں دیتے گزار دو گے اور اپنی شناخت کھو دو گے۔ اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی اس پر مجھے جواب ملتا تمہاری شناخت باہر اُسامہ کا ملک ہے سبز پاسپورٹ والے کو مشکوک سمجھا جاتا ہے، لیکن اگلی نسل کے مستقبل کے حوالے سے میرے دوست مجھے جواب نہ دے پاتے کہ واقعی یورپ میں امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں کے بچے بگڑ جاتے ہیں۔ ہمیشہ لاجواب ہونے والے اب وہ مجھے لاجواب کردیں گے میں جو ہوٹل پرحملے، بازاروں پر حملے، چرچ، مساجد اور واہگہ پر دھماکے پر یہ کہہ کر بچ جاتا کہ غیر ملکی طاقتیں افغانستان کے راستے یہ سب کچھ کروارہی ہیں وہ مجھے یہ کہیں گے کہ جس نئی پود کو مغربی اثرات سے بچانے کے لئے تم تقریریں کرتے تھے وہ نسل تمہارے اپنے ملک میں محفوظ نہیں وہ زندہ رہے گی تو تب ہی انہیں الگ شناخت ملے گی نا! ہمارے بچے بھلے بڑے ہوکر یورپ اور امریکہ میں بگڑ جائیں لیکن زندہ تو رہیں گے۔ تمہارے پاکستان میں تو اب سکول تک محفوظ نہیں ظاہر ہے اس دلیل کا جواب میرے پاس نہیں، والدین کو جنہوں نے اپنے بڑھاپے کے سہارے، اپنی امیدوں کے مرکز اپنے خواب، اپنے جینے کی وجہ کھودی کچھ کہہ ہی نہیں سکتا سوائے اس کے کہ رب کا حکم لیکن میں ارباب اختیار کو ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ملک کی معیشت، امیج، انفراسٹرکچر سب کچھ داؤ پر ہے اور آپ یہ بھی نہیں بتاتے کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو پاکستان کو ہر شعبے میں بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں، وہ کون سے ہاتھ ہیں جو ترک، ازبک اور قبائلی باشندوں کے ہاتھ میں جدید اسلحہ دے کر، تربیت دے کر وطن عزیز کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں؟ اگر اسرائیل کا ایک شہری مارا جائے یا ہندوستان میں کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوجائے تو فوراً جوابی کارروائی کی جاتی ہے اور صرف مفروضوں پر طوفان بدتمیزی برپا کردیا جاتا ہے۔ بھارت تو مار کر بھی سچا اور آپ سب کچھ لٹا دینے کے بعد بھی دہشت گردوں کے ایکسپورٹر کہلاتے ہیں۔ کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم بھی دونوں ہاتھ کھڑے کردیں کہ بس! اب ہمارے پاس مزید لٹانے کے لئے کچھ نہیں بچا۔ اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو بھارت میں کشمیر کی سرحد پر لگائی گئی باڑ افغانستان کی سرحد پر لگادیں۔ یہ ناممکن ہے تو اسرائیل کی طرح کی دیوار ہی بنادیں۔ یہ بھی ناممکن ہے تو افغانستان سے پاکستان کو آنے والے غیر قانونی راستوں پر بارودی سرنگیں بچھادیں۔ اس طرح شاید سمگلنگ کروانے والے بعض افراد کا نقصان ہوگا لیکن باقی سب کا بھلا، خدارا کچھ کیجئے! یہ لوگ ضرب عضب کے بعد دوبارہ افغانستان کے راستے آکر کارروائیاں شروع کردیں گے کچھ کیجئے! کہ وقت ریت کے ذروں کی طرح ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے اور اب کھونے کو بہت کم رہ گیا ہے۔