مشترکہ مستقبل کا تصوراور پائیدار ترقی
ترقی کی راہ میں حائل مشکلات دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مشترکہ جدوجہد ناگزیر ہو چکی ہے۔وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے ایس ڈی پی آئی کی19 ویں سالانہ کانفرنس میں کہا ہے کہ خطے میں ترقیاتی مسائل اور رکاوٹیں یکساں ہیں جس کے لیے عالمی برادری کو مشترکہ جدوجہد کی راہ اپنانا ہو گی۔اس میں آزادانہ تحقیق کرنے والے ادارے اہم معاونت کر سکتے ہیں۔ سارک سربراہ کانفرنس خطے کے ترقیاتی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک اہم موقع تھا جسے بھارت کے منفی رویے کی وجہ سے ملتوی کر کے ضائع کر دیا گیا۔ اس وقت دنیا کو درپیش مشترکہ مسائل کے حل کے لیے ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پذیر ممالک کی ترقی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد دینا ہو گی۔ پاکستان کی پائیدار ترقی امداد کے بجائے تجارت کے فروغ میں پنہاں ہے اور اس کے لیے تعاون بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
خطے کے عوام کے بہتر مستقبل اور آئندہ نسلوں کی بہتری کے لیے پاکستان پُرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر کاربند ہے۔ حکومت عالمی ترقیاتی مقاصد (ایس ڈی جیز) کو قومی ترقیاتی اہداف کے طور پر آگے بڑھائے گی۔ وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلیاں زاہد حامد نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غربت ہو یا ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات و خطرات، جنوبی ایشیا کے ممالک کو درپیش چیلنجز کی نوعیت یکساں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کا ویژن 2025، عالمی ترقیاتی مقاصد سے مطابقت رکھتا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ عالمی ترقیاتی مقاصد کے حصول کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر نفاذ اور مانیٹرنگ کے جامع نظام وضع کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے شدید خطرات سے دوچار ممالک میں پاکستان کا نمبر 7واں ہے۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل اور پاکستان کلائمیٹ چینج اتھارٹی جیسے اداروں کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں پالیسی ساز ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کی مشاورت انتہائی اہمیت کی حامل رہی ہے۔انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری ادارے ایسے اداروں کی تحقیق کو پالیسی سازی میں بروئے کار لائیں۔ وفاقی وزیر برائے پورٹ اینڈ شپنگ میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ سی پیک کی آفیشل ویب سائٹ کا افتتاح ہو جانے کے بعد اس حوالے سے تنازعات میں کمی آئے گی کیونکہ ویب سائٹ پر تمام اہم اعدادوشمار دستیاب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اقتصادی گزرگاہ کے حوالے سے اچھی توقعات رکھنی چاہئیں اور تنازعات کھڑے کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ پاک چین اقتصادی راہداری بطور توانائی اور شفاف بنیادی ڈھانچے کے لیے علاقائی تعاون کی بنیاد کے موضوع پر منعقد ہونے والی نشست سے اظہار خیال کرتے ہوئے چین سے تعلق رکھنے والے مندوب وینگ نان نے کہا کہ ہمیں دیر پا بنیادوں پر سی پیک کو محفوظ بنانے کے لیے افغانستان کو مستحکم بنانا ہو گا۔
ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابدسلہری نے کہا کہ کوئی بھی ملک آج کے درپیش عالمی چیلنجز کا تنہا مقابلہ نہیں کر سکتا، مل کر تعاون کی فضا کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور غربت، بھوک اور بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر کام کیا جائے۔شفقت کاکا خیل کا کہنا تھا کہ عالمی ترقیاتی مقاصد کے مؤثر طور پر حصول کے لیے قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر تعاون کا فروغ ناگزیر ہے۔
اقتصادی راہداری میں شامل 45.6 ارب ڈالر مالیتی 51 منصوبوں نے دنیا بھرمیں پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کیا ہے۔ گزرگارہ پراجیکٹ میں 33.8 ارب ڈالر کے توانائی اور11.8 ارب ڈالر کے انفراسٹرکچر منصوبے شامل ہیں۔ ان منصوبوں میں وزارت بجلی و پانی کے15منصوبے جن میں 1320 میگاواٹ کا پورٹ قاسم کول پاور پلانٹ، 660 میگاواٹ کا حبکو کول پاور پلانٹ، 1320 میگاواٹ کا ساہیوال کول پاور پلانٹ، 300 میگاواٹ کا سالٹ رینج کول پاور پلانٹ، 870 میگاواٹ کا سوکی کناری ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، 720 میگاواٹ کا کاروٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، 100میگاواٹ کا UEP ونڈ پروجیکٹ، 50میگاواٹ کا سچل ونڈ پروجیکٹ، 50میگاواٹ کا ہائیڈرو چائنا ونڈ پروجیکٹ، 1320میگاواٹ کا SEC تھرکول پاور پلانٹ، 660 میگا واٹ کا اینگروتھرکول پاور پلانٹ اور 1000میگاواٹ کا قائداعظم سولر پارک شامل ہیں۔ وزارت خزانہ کے 5، وزارت منصوبہ بندی کے 4، وزارت ریلوے کے 3، وزارت پورٹس اینڈ شپنگ کے 2 منصوبے شامل ہیں۔ توانائی کے منصوبوں میں کوئلے، ہوا، شمسی اور ہائیڈرو کے 15.5 ارب ڈالر کے مختصر المیعاد کے Early Harvest منصوبے شامل ہیں جو 2017ء تک 10400 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کرسکیں گے جبکہ 18.3 ارب ڈالر کے طویل المیعاد منصوبے 2021ء تک 6120 میگاواٹ بجلی پیدا کرسکیں گے۔ اس طرح ان تمام منصوبوں سے آئندہ 7 برسوں میں مجموعی 16520 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کی جاسکے گی۔
وطن عزیز تیس سال سے دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے۔اس کی صنعت و حرفت اور کاروبار تباہ ہو چکے ۔ ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھیں۔چھوٹے صوبے اپنا جائز حق مانگ رہے ہیں۔یہ منصوبہ پاکستان کی تعمیرو ترقی میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ہمیں تمام علاقائی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی سطح پر سوچنا ہو گا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سابق سینیٹرافراسیاب خٹک کا کہنا بجاہے کہ پاکستان ایک سیکورٹی سٹیٹ ہے مگر خطے میں امن کے فروغ کے لیے پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا ناگزیر ہو چکا ہے۔ غیر حقیقی پالیسی کی بدولت ملک انتہا پسندی کا شکار ہے۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت کا تصور ادھورا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود ریاستی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ وطن عزیز کو درپیش مسائل کا احاطہ کیا جائے تو ان میں بھارت کے مذموم عزائم اور دہشت گردی کا ناسور سرفہرست ہیں۔ بدقسمتی سے یہ دونوں مسائل اپنی نوعیت و وجوہات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے وابستہ بلکہ پیوستہ ہیں۔
پاکستان میں موجود دہشت گردی، شرپسندی، عدم برداشت اور تعصب وعصبیت کی تاریخ میں جھانکا جائے تو اس کی پشت پر بھارت کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔بھارت نے ہر اس سرگرمی کو پروان چڑھایا جس سے خطے میں بدامنی پھیلتی اور پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتاہے۔پاکستان قدرتی طور پر اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ پوری دنیا کی تیل، گیس، زراعت، صنعتی و معدنی پیداوار اور منڈیوں کے درمیان پل بن سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام تر مقتدر ادارے ملکی ترقی اور عوامی بہبود کے ایجنڈے پر ایک صفحہ پر ہوں۔ مشترکہ اور جامعہ اقدامات ہی پائیدار ترقی کے ضامن ہو سکتے ہیں۔ حکمران طبقہ خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے ہو، اس معاملہ میں واضح اور شفاف پالیسیاں وضع کرے جبکہ اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی سمیت تمام حلقے ان پر من و عن عمل کریں۔ اسی میں ملک و قوم کی بقا اور بہتر سماجی و معاشی زندگی پوشیدہ ہے۔