فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام
فاٹا کا انتظام ونصرام 1845ء سے برطانوی سامراج کی میراث رہا ہے۔ فاٹا میں بہتر گورننس کی عدم موجودگی کا خمیازہ قبائلی عوام کو انسانی حقوق کی تذلیل، بدترین امن و امان کی صورت حال اور بنیادی انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
برطانوی راج نے 1848ء میں ایف سی آر یعنی فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کا قانون نافذ کیا۔ یہ قانون شمالی علاقہ جات میں پختون اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے رائج کیا۔
اس قانون کی رو سے اگر کوئی فرد جرم کرتا تو اس کی سزا اس کے سارے خاندان کو ملتی ہے۔ اس کی جائیداد ضبط ہونے کے ساتھ ساتھ فصلوں کی کاشت اور کٹائی پر بھی پابندی عائد ہو جاتی ہے اور فاٹا کے شہری وکیل او ر اپیل جیسے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہتے ہیں۔ اس کالے قانون کو پاکستان بننے کے بعد بھی من و عن تسلیم کر لیا گیا اور اس کو ختم کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
موجودہ حکومت نے وفاقی حکومت کی ہدایت پر فاٹا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے شروع کیے گئے آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی کے بعد اس ضرورت کو محسوس کیا کہ فاٹا سے کالے قانون ایف سی آر کا خاتمہ کر کے اسے قومی دھارے میں شامل کر دیا جائے۔
موجودہ حکومت نے اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے عمائدین اور دیگر طبقہ ہائے فکر سے مشاورت کے بعد فاٹا کو خیبر پختونخوامیں ضم کرنے کا اعلان کیا۔ یاد رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے نومبر 2015ء میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا سربراہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو بنایا گیا تھا۔
اس کمیٹی نے کافی تگ و دو کے بعد فاٹا اصلاحات کی تجاویز مرتب کیں اور 7قبائلی ایجنسیوں کے دورے کیے۔ اس دوران کمیٹی ممبران نے تین ہزار کے قریب فاٹا پارلیمنٹیرین قبائلی لوگوں ، سیاسی جماعتوں، وکلاء اور تاجر برادری سے ملاقاتوں کے بعد سفارشات مرتب کیں اور وفاقی کابینہ کو سمری بھیج دی۔ فاٹا اصلاحات کا فیصلہ نیشنل ایکشن پلان میں کیا گیا تھا۔
فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی منظوری دی جو کہ بلا شبہ ایک تاریخ ساز فیصلہ تھا۔ اس فیصلے کے تحت فاٹا کو پانچ سال تک بتدریج خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا جائے گا۔
فاٹا سے انگریزی کالے قانون ایف سی آر کا خاتمہ اور فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے فیصلے پر حکومت اور وزیراعظم شاہد خان عباسی مبارکباد کے مستحق ہے۔ اگر ہم حکومت کے غلط فیصلوں پر تنقید یا احتجاج کا سہارا لے سکتے ہیں تو ملکی مفاد کی خاطر کیے گئے فیصلوں کو بھی سراہا جانا چاہیئے۔
فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے ملک کے مستقبل پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے قومی دھارے میں شامل ہونے سے سرحد پار کے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں نہیں مل سکیں گی۔
جس سے دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ فاٹا کے عوام کو آئینی اور دستوری تحفظ ملے گا۔ اسلحہ کلچر کا خاتمہ ہو گا۔ صحت اور تعلیم کے شعبے میں بہتری آئے گی۔ میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز کا قیام، ووکیشنل ٹریننگ سکولز، صنعتی زونز کی تعمیر اور بنیادی ڈھانچے میں بہتری دیکھنے میں آئے گی۔
سٹیٹ بنک کی جانب سے فاٹا میں مختلف بنکوں کی شاخیں کھولنے کا اقدام بھی خوش آئند ہے۔ فاٹا کے عوام نے ہر دور میں ملکی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ اس لیے از حد ضروری ہے کہ فاٹا کو قومی دھارے میں لا کر یہاں بھی باقی صوبوں جیسی مراعات دی جائیں۔
وفاقی حکومت نے اصلاحات کی منظوری کے بعد 70سالہ پرانے قانون ایف سی آر کا خاتمہ کر کے اس کی جگہ قبائلی رسم و رواج اور ثقافت مد نظر رکھتے ہوئے رواج ایکٹ نافذ کیا۔ فاٹا کے عوام عام انتخابات میں اپنے نمائندے منتخب کر کے صوبائی اسمبلی میں بھیج سکیں گے۔
فاٹا کی معاشی ترقی کے 10سالہ پروگرام میں یہاں یونیورسٹیاں، کالج ، فنی تعلیم کے دیگر ادارے اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بنچ بھی قائم کیے جائیں گے۔ عوام کے لئے بیت المال ، سٹیٹ بنک اور دیگر اہم ادارے قائم کیے جائیں گے۔
فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو منظم کر کے علاقے میں تعمیر و ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو گا۔ نوجوانوں کو روزگار میسر آئے گا۔ ہزاروں نوجوان لیویز فورس میں شامل ہوں گے اور قبائلی ایجنسیوں کو سی پیک راہداری تک بھی رسائی حاصل ہو جائیگی۔
فاٹا میں امن کی بحالی کے بعد حکومت کی اولین ترجیح بے گھر افراد کی بحالی اور قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی رہی ہے، تاکہ یہاں زندگی کی رونقیں بحال ہو سکیں۔ اس ضمن میں پاک فوج کی کارکردگی بھی قابلِ تحسین ہے۔ قبائلی علاقوں کی بحالی کا کام 2018ء تک جاری رہے گا۔
اس اہم کام کے لئے مالی وسائل کے علاوہ قبائلی ایجنسیوں خصوصاً سیفران فاٹا سیکرٹریٹ اور این ایل سی کی جانب سے بھی معاونت درکار ہو گی۔ فاٹا سیکرٹریٹ کی جانب سے جامع آباد کاری اور تعمیراتی پلان کو ممکنہ وقت میں پوری کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
یہ بات کافی خوش آئند ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایف سی آر جیسے کالے قانون کا خاتمہ چاہتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ فاٹا کے شہریوں کو آئینی تحفظ فراہم کیاجائے۔ تاہم حکومت کو اس کی تاخیر کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ ٹیکنیکل وجوہات اس کے انضمام میں آڑئے آ رہی ہیں۔ بہر حال یہ حکومت کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ فاٹا اور کے پی کے کے انعمام کو جلد از جلد ممکن بنائے اور فاٹا کے لوگوں کو مصیبت میں چھٹکارا دلوائے۔
فاٹا اصلاحات کے حوالے سے دو اہم حکومتی اتحادی جماعتوں جے یو آئی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی میں اختلافات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ فاٹا کے پختونخوا میں انضمام کے معاملے میں جے یو آئی موقف ہے کہ مقامی آبادی کی رائے کی روشنی میں اس کا حل نکالا جائے اور گرینڈ جرگہ کو اس کے لئے بہترین آپشن کے طور پر پیش کیا گیا۔ دوسری جانب قبائلی عوام نے دو مارچ کو یوم تشکر منایا ۔
کیونکہ دو مارچ قبائلی عوام کی آزادی کا دن ہے۔ قباعلی عوام کے مطابق خیبر پختونخوا اور فاٹا کے ضم ہونے سے قبائلیوں کو وہ تمام آئینی حقوق میسر آئیں گے جن سے وہ اب تک محروم رہے ہیں اور انہوں نے فاٹا اصلاحات کی منظوری کو حکومت کا تاریخی کارنامہ قرار دیا ۔
اس ظالمانہ قانون ایف سی آر کے خاتمے کو نواز شریف کا قبائلیوں پر احسان قرار دیا۔ فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہونے سے خیبر پختونخوا ملک کا سب سے بڑا صوبہ بن جائے گا جس سے قبائلی عوام ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوں گے۔ بلدیاتی انتخابات میں قابل اور ایماندار لوگ سامنے آئیں گے اور عوام کی خدمت صحیح معنوں میں کریں گے۔
یہاں کے نوجوانوں میں نئی جدت اور نئی امنگ ابھرے گی جس سے وہ اپنے علاقے کی خوشحالی، ترقی اور پائیدار امن میں اہم کردار ادا کریں گے۔ فاٹا کے عوام کو ایف سی آر اور پولیٹیکل انتظامیہ کے چنگل سے آزاد کرانا یقیناًاہم پیش رفت ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ ان اختلافات کو بھی مشاورت سے ختم کیا جائے۔
فاٹا کے حوالے سے جو اقدامات بھی اٹھائے جا رہے ہیں بلا شبہ دوررس نتائج کے حامل ہیں اور ان کے اثرات ملک کے علاوہ پورے خطے کی امن و امان کی صورت حال پر مرتب ہوں گے۔