مشترکہ اعتقادات کی عدم موجودگی

مشترکہ اعتقادات کی عدم موجودگی
 مشترکہ اعتقادات کی عدم موجودگی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے اپنی تاریخ کا ایک اور سب سے بڑا فیصلہ دے دیا، پاکستان کے سب سے بڑے منصف نے اس شہر میں کھڑے ہو کر اس فیصلے کی صفائی دی، جس کے ووٹروں کی غالب اکثریت ان کے معزز اور محترم ادارے کے فیصلوں سے ناخوش ہے، اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔ پاکستان کے ایک مرتبہ پھر سابق کر دئیے جانے والے وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپنے مخالف رہنما عمران خان کی رکنیت بحال رکھنے کے فیصلے کو انصاف کا دوہرا معیار قرار دیا ہے۔ اس فیصلے کو بہت سارے حوالوں سے دیکھا جار ہا ہے، کیونکہ آئین، قانون، جمہوریت اور انصاف کے حوالے سے ہمارے پاس مشترکہ اور متفقہ اعتقادات کا سنگین بحران ہے۔


نواز شریف کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کو جمہوریت پسند ،پسند نہیں کر رہے، وہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ نے ایک آئینی، سیاسی اور جمہوری نظام میں مداخلت کی ہے، مگر دوسری طرف عدلیہ سے وابستہ کچھ لوگوں سے تبادلہ خیال میں انکشاف ہوا کہ وہ اسے عدلیہ کی فعالیت، مضبوطی اوربالادستی قرار دے رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مضبوط عدلیہ کسی بھی ریاستی نظام میں بنیا دی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور کہتے ہیں کہ اگر عدلیہ ملک کے انتظامی سربراہ کو بھی اس کے عہدے سے ہٹا سکتی ہے تو پھروہ کوئی بھی فیصلہ کر نے کی ہمت ، جرات اور صلاحیت رکھتی ہے، مگر وہ اس سوال کے جواب میں آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں جب ان سے ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف سے متعلقہ فیصلوں بارے پوچھا جاتا ہے۔ وہ جواب نہیں دیتے کہ بہت سارے قابل ذکر فیصلے ان کے خلاف کیوں ہوتے ہیں، جو وقت کی حقیقی حکمران قوت کے مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ کیا بھٹو کی پھانسی سے نواز شریف کی نااہلی تک کے مقدمات کو نظیر بنا یا جا سکتا ہے اور اگر نہیں بنایا جا سکتا تو پھر ان فیصلوں کا اصل مقام اور حیثیت کیا ہے اور اگر ہم اس دلیل کو تسلیم کر لیں کہ پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے منتخب سربراہ کو ہٹا دینا ہی عدلیہ کی طاقت ہے تو کیا پارلیمینٹ کو بھی اپنی طاقت اسی طرح ثابت کرنا پڑے گی۔ کیا ہم ایک مرتبہ پھر کسی آئینی انتظام کی بجائے طاقت کے نظام کی طرف نہیں لوٹ جائیں گے۔ہم کہتے ہیں کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کو اپنے اپنے دائرے میں رہنا چاہئے اور ان دائروں کو ایک دوسرے پر چڑھادینا درست نہیں ہوگا۔


سیاست، صحافت اور معاشرت کے ایک طالب علم کے طو رپر میرے سامنے مشترکہ اعتقادات کی عدم موجودگی کا مسئلہ ہے، جس مقدمے میں عمران خان کو بریت ملی ہے اس سے کہیں کم سنگین معاملے میں وزیراعظم کو سزا مل گئی ہے۔مَیں مانتا ہوں کہ ہر معاملے کی الگ تفصیلات اور جزئیات ہوتی ہیں ،مگر جمہوریت میں یہ نہیں ہوتا کہ عوامی اعتماد کی حامل اکثریت ہربار غلط ہو اور سازش کرنے والی اقلیت درست۔ عمران خان کے نامعلوم ذرائع آمدن اور پرتعیش رہن سہن کے سامنے، جس طرح سوال موجود ہیں اِسی طرح نااہلی کی سزا پانے والے ان کے معتمد خاص جہانگیر ترین نے بہت کم عرصے میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں بطور لیکچرار اوراس کے بعد بنک کی ملازمت بھی کی مگر اپنے والد کی مرضی اور منشاء کے برعکس کاشتکاری کو ترجیح دی، یہ کاشتکاری ان رقبوں پر تھی جو ان کے ڈی آئی جی والد کوتربیلا ڈیم میں آنے والی زمینوں کے بدلے لودھراں میں ملے تھے۔ جہانگیر ترین کچھ عرصہ شہباز شریف کے بھی قریب رہے ، وہ چودھری پرویز الٰہی کے علاوہ پرویز مشرف کے بھی خاص رہے اور یوں زراعت اور صنعت و تجارت کی صوبائی اور قومی ذمہ داریوں نے ان کے پچاس ہزار ایکڑ کے قریب زیر قبضہ رقبے کم از کم تین اضلاع میں پھیلا دئیے۔پاکستان کے بڑے سیاست دان عمران خان صاحب ان کے مشورے بہت غور سے سنتے ہیں اور اس کی وجہ ایک صحافی یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ خان صاحب زیادہ تر وقت جہانگیر ترین کے ساتھ ہی گزارتے ہیں ، چاہے وہ بلٹ پروف گاڑیوں میں ہو یا ان کے نجی جہاز میں، آپ سفر کے دوران زیادہ سہولت کے ساتھ تبادلہ خیال کر سکتے ہیں۔


جہانگیر ترین ترقی کی واحد مثال نہیں ہیں، بلکہ ملک ریاض بھی ہیں اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ دونوں شخصیات کامیابی کی غیر معمولی داستانیں ہیں۔ بحریہ ٹاون والے ملک ریاض ہمارے سابق صدرِ مملکت اور پاکستان پیپلزپارٹی کے کرتا دھرتا آصف علی زرداری کے بہت قریب بیان کئے جاتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ جب ایک عام شہری جہانگیر ترین کی کامیابیوں کو سراہتا ہے ،تو پھر کیوں نہ ان کامیابیوں کو پاکستان کی مختلف جامعات میں طلبا و طالبات کو کامیابی کے راستے دکھانے والے خصوصی موٹیویشنل کورسز کا حصہ بنا دیا جائے۔ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکے بتائیے گا کہ کیا اس فقید المثال کامیابی کی اس داستان کو کسی مشترکہ عقیدے اور نظرئیے کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔ یہ داستان بیرون مُلک پڑھائی جانے والی داستانوں سے اس لئے مختلف ہے کہ یورپ اور امریکہ سمیت جدید دنیا کی ریاستی اقدار ہم سے بہت زیادہ مختلف ہیں، جبکہ جہانگیر ترین نے انہی حالات کا مقابلہ کیا ہے، جن کا ہم سب پاکستانیوں کو سامنا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ جہانگیر ترین کو اس نااہلی سے کچھ رکاوٹ اور کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، مگر کیا یہ ایک اور کامیابی نہیں کہ پرانے پاکستان کو نئے پاکستان میں بدلنے کا نعرہ لگانے والے انہیں اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ آپ صرف جہاز، محلات اور جاگیریں ہی نہیں رکھتے،بلکہ اپنے نظرئیے کے لاکھوں حامی بھی رکھتے ہیں۔ کیا آپ چاہیں گے کہ آپ خود، آپ کے بچے یا آپ کے پیاروں کے بچے جہانگیر ترین کی طرح ہی ترقی کریں۔یہاں صرف وہی اختلاف کریں گے،جو ایمانداری اور دیانتداری کو حرز جاں بناتے ہیں اورجھگڑا مشترکہ اعتقادات کا ہی ہو گا، ہم میں سے بہت سارے جہانگیر ترین کی کامیابی کے ماڈل کو نہیں سراہتے، بلکہ اسے غلط یا کم از کم مشکوک ضرورسمجھتے ہیں اور موخر الذکر رائے پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی تصدیق کی مہر ثبت کر دی ہے۔


معاملات کو چلانے اور بہتر بنانے کے لئے کسی بھی دنیاوی عقیدے پر اکٹھا ہونا ابھی تک مشکل ہے۔ مہذب اقوام اور ترقی یافتہ ممالک میں عوام اور میرٹ کی حاکمیت سے انکار نہیں کیا جاتا اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عوامی جمہوریہ چین میں امریکہ یا برطانیہ جیسا عوامی اور جمہوری نظام نہیں ہے تو بھی ہم وہاں چینی عوام کی نمائندہ حکومت سے انکار اور نظام میں میرٹ کے اصولوں پر عملدرآمد کی نفی نہیں ڈھونڈ سکتے،جبکہ ہمارے ہاں عوام میں خود اپنی حاکمیت کے سوال پر اختلاف ہے، یہاں قانون کی تذلیل اورمیرٹ کی نفی کو بھی جواز دیا جاتا ہے، طاقتوروں اور دولت مندوں کے اختیارات اور دولت کے ذریعے راستے نکالنے کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ کیا ستم ہے کہ عوام مخصوص طبقات اور سرکاری ملازمین کی بالادستی اور حکومت کو دل و جان سے قبول کر لیتے ہیں۔ کچھ براہِ راست پر بھی قائل ہوتے ہیں تو ان سے کچھ زیادہ باالواسطہ کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ ایسے فکری مغالطوں میں پھر مشترکات پرپہنچنا مشکل ہی نہیں،بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے، ان مشترکات پر بھی جن پر مہذب اقوام صدیوں پہلے اتفاق کر چکی ہیں۔ ہر دم بڑھتی خواہشات اور لامحدود اختیارات کے گرد دائرے لگا چکی ہیں، مگر ہم ستر برس کے ہونے کے باوجود راستہ تلاش کیجئے جیسا کھیل، کھیل رہے ہیں، گنجلک گزرگاہوں میں بار بار راستہ بھٹک رہے ہیں، نجانے ہم کسی سیدھے راستے پر اتفاق کیوں نہیں کر لیتے، عوامی خدمت اورملکی ترقی کی دوڑ لگانے پر اتفاق کیوں نہیں کرلیتے؟

مزید :

کالم -