دُھند، دھوئیں کے بادل اور ماحولیات کے ادارے

دُھند، دھوئیں کے بادل اور ماحولیات کے ادارے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


محکمہ موسمیات نے10دسمبر سے پہاڑوں پر برف باری اور میدانی علاقوں میں بارش کی پیشگوئی کی اور بتایا کہ یہ سلسلہ تین روز تک جاری رہے گا، بعد میں نظرثانی کر کے15 دسمبر کہا گیا۔ بہرحال یہ نظامِ قدرت ہے اِس میں انسان کا جتنا علم ہو سکتا ہے بات وہاں تک رہتی ہے۔ یہ سلسلہ شروع ضرور ہوا تاہم بارش ایک ڈیڑھ روز تک ہوئی،لاہور اور دوسرے کئی شہروں میں تو بوندا باندی ہی ہوئی،تاہم اِس سے سردی کی شدت میں ضرور اضافہ ہوا۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ بارش کا سلسلہ تو موقوف ہو چکا، تاہم دھند شروع ہو گئی ہے،جو اِس موسم کا خاصہ ہے، دن اور شام کے وقت شدید دھند کی وجہ سے موٹروے بھی بند ہو جاتی ہے اور دوپہر کے دوران بھی ’’فوگ لائٹ‘‘ چلا کر احتیاط سے سفر کرنا ہوتا ہے۔ دھند کے ساتھ ہی انسانی کوتاہی کا مظہر دھواں بھی شامل ہو جاتا ہے اور ایسا ہو رہا ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ دھند بتدریج سموگ میں تبدیل ہو رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میدانی علاقے ہوں یا شہری آبادیاں، سردی آتے ہی درختوں کی ٹہنیاں، پتے اور کوڑا جلانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جبکہ سٹیل ملوں اور اس نوعیت کے دوسرے کارخانوں کی چمنیاں بھی دھوئیں کے بادل اُگلتی رہتی ہیں۔ہمارے مُلک میں وفاقی اور صوبائی سطح پر ماحولیات کی وزارتیں اور محکمے بھی ہیں، ان کا حقیقی اور قانونی کام ماحول کو صاف ستھرا رکھنا ہے۔ اختیار میں آلودگی کا سدِ باب کرنے کے لئے کارخانے بند کر دینا بھی شامل ہے اور اِسی کے تحت گزشتہ ماہ بھٹہ خشت بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ محکمہ موسمیات کی اطلاع اور مشورے کے بعد محکمہ ماحولیات نے آگاہ کیا تھا کہ اس سال پھر سموگ کا خطرہ مکمل طور پر موجود ہے، اس کے ساتھ ہی کوڑا کرکٹ جلانے کی ممانعت کا اعادہ کیا گیا۔ بھٹہ خشت بند کرنے کی تاریخیں دی گئیں۔ دھواں دینے والے کارخانوں کو بھی خبردار کر دیا گیا۔یہ سب ہوا،لیکن کاغذی تھا اور بیانات کی شکل میں ہوا،ماسوا چند علاقوں میں بھٹے بند کرنے کے کچھ اور نہ کیا گیا، اور کچھ ہی دِنوں بعد یہ کہہ کر یہ بھی کھول دیئے گئے کہ سموگ کا خطرہ ٹل گیا ہے، چنانچہ بھٹے پھر سے کام کرنے لگے،اصل مسئلہ یہ ہے کہ دیہات میں فصلیں جلتی، بھٹہ خشت میں ٹائر جلائے جاتے ہیں اور یہی صورت کارخانوں کی ہے۔یوں ان کی وجہ سے دھوئیں کے بادل اُٹھ اُٹھ کر ماحول کو خراب کرتے ہیں اور شہروں کو چھوڑیں،لاہور میں جگہ جگہ کوڑا جلایا جاتا ہے، اور باغبان(مالی) خود خزاں سے گرنے والے درختوں کے پتے جلا دیتے ہیں۔یہ سلسلہ دھڑلے سے جاری ہے اور محکمہ ماحولیات کچھ بھی نہیں کرتا، ان دِنوں بھی یہ عمل جاری ہے اور فضا مسلسل آلودہ ہو رہی ہے۔ یہ سموک(دھواں) اب دھند میں شامل ہو کر سموگ کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور خطرہ بڑھ گیا ہے کہ سموگ کے نتیجے میں گلے اور چھاتی کے امراض بھی شدت اختیار کر جائیں گے۔حکومتِ وقت اور وزیراعظم سو روزہ کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں، تو کیا ان کی طرف سے اس کا بھی کوئی نوٹس لیا گیا اور یہ دیکھا گیا کہ صرف بیان کے ذریعے ممانعت سے کام تو نہیں ہوا اور یہ کوتاہی کس کی ہے اور اس کا سدِ باب کیا ہو گا،اسی طرح دھواں دینے والی گاڑیوں کو بھی چیک نہیں کیا جا رہا۔ضرورت اِس امر ہے کہ صرف بیانات ہی نہ ہوں عملی کام بھی ہو، کہ علاج سے پرہیز بہتر ہے، کیا اِس سلسلے میں بھی چیف جسٹس محترم کو از خود نوٹس لینا ہو گا۔ بہتر عمل ہے کہ فوری تدارک کیا جائے اور دھواں پھیلانے والوں کو عملی طور پر روکا جائے۔

مزید :

رائے -اداریہ -