تارکین وطن سے ایئرپورٹ پر ناروا سلوک

تارکین وطن سے ایئرپورٹ پر ناروا سلوک
تارکین وطن سے ایئرپورٹ پر ناروا سلوک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تارکین وطن ایک ایسے پرندے کا نام ہے جو چوغ چگنے دیار غیر میں جاتا ہے اور انڈے اپنے وطن میں آکر دیتا ہے۔ اور وہ بھی سونے چاندی کے لیکن اہل وطن ان کے انڈوں سے فیضیاب ہوتے ہوئے بھی جب موقع ملتا ہے اسی پرندے کو ذبح کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس نایاب پرندے کی نسل ختم ہونے کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں اور ان کی اگلی نسل دوسرے خطوں کی طرف اپنی اڑانیں بھرنے لگی ہے۔

اس وقت محترم عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئے تین ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے عمران خان اور ان کی جماعت کو چاہنے والوں کا ہراول دستہ یہی تارکین وطن پاکستانیوں کا ہے۔ عمران خان کی اپیل شوکت خانم کے لیے ہو یا پھر پی ٹی آئی کی مالی مدد کے لیے (جماعتی رکنیت سازی کے ذریعے یا براہِ راست ) تارکین وطن پاکستانی سب سے آگے رہے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ تارکین وطن پاکستانیوں کو اپنے ملک سے پیار ہے اور وہ اسے اسی طرح پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں جس طرح وہ ان ممالک کی ترقی کے مشاہدات کر رہے ہیں جن ممالک میں وہ روزی کمانے کی غرض سے گئے ہیں۔ تارکین وطن پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسی ایماندار اور باصلاحیت قیادت میسر آ گئی ہے جو پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دے گی۔

(اللہ تعالی ان کی اس خواہش کو پورا کرے آمین) حال ہی میں دنیا میں ترسیلات زر کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ جس کے مطابق پاکستانی تارکین وطن نے 2017 میں 19ارب ڈالر پاکستان بھجوائے ہیں اور 2018 میں اس میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ دنیا میں سمندر پار سے اپنے ملک میں زر مبادلہ بھیجنے والوں میں بھارتیوں کا پہلا اور چین کا دوسرا نمبر ہے۔ اس کے علاوہ مصر ہے۔ اور پاکستان بھی پہلے دس ممالک کی فہرست میں موجود ہے۔

موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد بیشتر تارکین وطن پاکستانیوں نے اپنی رقومات ہنڈی کے ذریعے بھیجنے کی بجائے بنکوں کے ذریعے سے بھیجنا شروع کر دی ہیں۔ لیکن پاکستان کے بنکوں سے جب پیسے نکلوانے جاتے ہیں تو نکالی جانے والی رقم پر ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ حالانکہ ہم تارکین وطن کو جو تنخواہیں ملتی ہیں ان پر وہ پہلے ہی متعلقہ ملک میں بھاری ٹیکس ادا کر چکے ہوتے ہیں۔

تارکین وطن پاکستانیوں کی اگر میں خدمات گنوانے بیٹھ جاوں تو کئی کالم بن سکتے ہیں۔ پاکستان کے سیاستدان اور بیوروکریٹ تو محض اپنے یورپ کے دوروں کے مواقع پر تارکین وطن پاکستانیوں کی طرف سے دی گئی محبت کی قیمت ادا کر دیں تو تارکین وطن کے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

لیکن اس کے بدلے میں آج تک ان محب وطن پاکستانیوں کو کبھی کوئی سہولت ملی نہ انہیں اپنا تسلیم کیا گیا ہے۔ پاکستان کے اندر دوہری شہریت کے حامل کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ ان کی جائیدادیں ہضم کرلی جاتی ہیں۔ یہ محب وطن اپنے وطن کی سر زمین پر قدم رکھتے ہیں تو کبھی ختم نہ ہونے والی مشکلات کا سامنا ہو جاتا ہے۔ ائیرپورٹ سے شروع ہو کر واپس جہاز میں سوار ہونے تک جن جن مشکلات سے ہم گزر رہے ہوتے ہیں۔

اس کا اندازہ صرف ہمیں ہی ہو سکتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں سوشل میڈیا اور قومی میڈیا پر ایک خبر چلتی رہی ہے۔ کہ ایک مسافر کے جو ایک 26 ہزار روپے کا موبائل فون ساتھ لایا اس سے 10 ہزار روپے کسٹم لیا گیا بلاشبہ ہمیں کسٹم دینا چاہیے۔ لیکن اس کی کوئی حدود و قیود بھی پتا ہونا چاہیے۔ اگر کوئی اپنے لیے یا اپنے بچوں کے لیے ایک موبائل ساتھ لیکر آتا ہے تو یہ کسٹم سے مبرا ہونا چاہیے۔ راقم خود کئی بار اس تجربے سے گزر چکا ہے۔ کہ اول ائیرپورٹ پر مسافروں کو بغیر کسی وجہ کے بھی پریشان کیا جاتا ہے اور اگر کوئی ایسی چیز جس پر کسٹم ڈیوٹی لازمی ہو اس کا بھی کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا جاتا دوئم جن لوگوں کے پاس ایسی کوئی چیز نہ ہو اور وہ سبز چینل سے گزر رہے ہوں تو ان کو بھی روک کر سامان کھلوا دیا جاتا ہے۔

میں نے کئی ممالک کا سفر کیا ہے آج تک یہ نہیں دیکھا کہ گرین چینل سے گزرنے والوں کو روک کر پوچھا جائے کہ آپ کے پاس کوئی کسٹم والا سامان تو نہیں ہے؟ کیا یہ سارا شک پاکستان ہی میں ہوتا ہے؟
اس خاکسار کا حکومت کو یہ صائب مشورہ ہے کہ اگر تارکین وطن پاکستانیوں کے مسائل پر توجہ دی جائے اور ان کو جائز سہولیات دی جائیں تو پاکستان کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ حکومت اگر تارکین وطن پاکستانیوں کے لیے مختلف اسکیمیں جاری کر کے انہیں اپنے وطن کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرے اور ان کو عزت دی جائے تو مجھے یقین ہے کہ تارکین وطن بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کریں گے اور اپنے آبائی وطن کی ہر طرح سے مدد کریں گے۔

سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے سے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اگر حکومت تارکین وطن پاکستانیوں کے مختلف زون بنا کر ان کے درمیان رابطہ کمیٹیاں تشکیل دے یعنی عرب ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کو ایک زون میں رکھا جائے، دوسرے میں یورپ، تیسرے میں صرف انگلینڈ، چوتھے میں امریکہ، کینیڈا اور اس ریجن کے باقی ممالک اور پانچویں زون میں مشرق بعید کے ممالک کو شامل کر لیا جائے اور ان سے رابطے کے لیے باقاعدہ کمیٹیاں تشکیل دے کر پاکستانی سفارت خانوں کی مدد سے تمام لوگوں سے رابطہ کیا جائے اور ان کے ساتھ تفصیلی گفت و شنید کی جائے۔ اس گفت و شنید کو بھی تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

1۔ تارکین وطن کے مسائل کیا ہیں اور ان کے حل کے بارے دو طرفہ بات چیت کی جائے۔ 2۔ تارکین وطن پاکستانیوں کی پاکستان میں چھوٹی اور بڑی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے مذاکرے کیے جائیں۔ 3۔ تارکین وطن کے تجربات سے پاکستان فائدہ اٹھانے کے لیے ان سے بات چیت کرے اور ان سے قابل لوگوں کو مختلف شعبوں میں ذمہ داریاں سونپی جائیں۔ اس کے لیے مختلف شعبوں کے ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی جا سکتی ہے۔

اس طرح حکومت پاکستان اپنے ملک کو مستفید کر سکتی ہے۔ کیونکہ تارکین وطن پاکستانی پہلے سے تربیت یافتہ اور دیانت دار لوگ ہیں۔ پاکستان ہم سب کا ملک ہے۔ اس کی حفاظت اور ترقی بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

مزید :

رائے -کالم -