تعلیم کے سلسلے میں سنجیدگی کی ضرورت ہے

تعلیم کے سلسلے میں سنجیدگی کی ضرورت ہے
تعلیم کے سلسلے میں سنجیدگی کی ضرورت ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سپریم کورٹ نے نجی سکولوں کی فیس کم کرنے کے سلسلے میں تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ سکولوں کی 20 فیصد فیس کم کرنے کا تحریری حکم دیا گیا ہے۔ اس فیصلہ میں 22 نجی سکولوں کو فیس کم کرنے کا کہا گیا ہے۔ نجی سکولوں نے اس طرح اندھیر نگری قائم کی ہوئی ہے جیسی نجی اسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ اس ملک میں بریانی اور گوشت فروخت کرنے والوں کی طرح ’’ تعلیم فروخت ‘‘ کرنے والے اور علاج معالجہ کرنے والے نام نہاد مسیحا ؤں نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ بعض بڑے سکولوں میں جنہوں نے نام کمالیا ہے ، تعلیم دینے کے نام پر جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ کسی طور پر بھی عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔ فیسوں کے علاوہ بچوں کے کورس فروخت کرنے اورغیر نصابی سرگرمیوں کے نام پر والدین کو زبردستی لوٹا جاتا ہے۔

لاچار والدین انکار کرتے ہیں تو انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ نجی سکول آئندہ تعلیمی سال کے لئے فیس میں 5 فیصد اضافہ کرسکتے ہیں، جبکہ سکولوں کو رواں سال گرمیوں کی چھٹیوں کی لی گئی فیس کو ایڈجسٹ یا دو ماہ میں واپس کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اور فیس میں 6 سے 8فیصد اضافہ ریگولیٹری باڈی کی اجازت سے مشروط ہے۔
سپریم کورٹ نے سکولوں کی اس نام نہاد دھمکی کا نوٹس بھی لیا ہے اور تنبیہ کی ہے کہ کوئی بھی نجی سکول بند نہیں ہوگا نہ کسی طالب علم کونکالا جائیگا اور اگر سکول بند ہوا یا کسی طالبعلم کو نکالا گیا تو سخت ایکشن لیا جائیگا۔

عدالتی حکم کے بعد ایف آئی اے کو اختیار مل گیا کہ 22 تعلیمی اداروں کے ٹیکس کی جانچ پڑتال کرنے اور ایف آئی اے کو سکولوں کا ریکارڈ تحویل میں لینے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ جس کے بعد ایف آئی اے نے سکولوں کا ریکارڈ ضبط کر لیا۔ عدالت کے اس حکم کے نتیجے میں سکولوں کے نفع اور نقصان کا معاملہ بھی کھل کر سامنے آجائے گا کہ تعلیم کے نام پر خدمت انجام دینے والے کتنا منافع کما رہے ہیں۔

فیسوں میں صرف بیس فیصد کٹوتی کا فیصلہ نرم فیصلہ ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پرائمری کے طالب علموں کی فیس پندرہ ہزار روپے ماہانہ وصول کی جائے۔ کیا یہ تعلیمی ادارے یہ بتانا پسند کریں گے کہ اساتذہ کو کتنی تن خواہیں ادا کرتے ہیں۔ بعض سکول ایسے بھی ہیں جہاں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ خواتین اور مرد اساتذہ کو دس ہزار روپے ماہانہ سے کم تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ خواتین کا زیادہ ہی استحصال کیا جاتا ہے۔
بھٹو حکومت نے 1971 ء میں ملک کا اقتدار سنبھالا تھا۔ کئی اہم فیصلوں میں نجی تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لینے کا فیصلہ بھی شامل تھا۔ پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے وقت میں اس فیصلہ کو غلط فیصلہ قرار دیا تھا ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں تعلیمی ادارے مالکان کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور ساتھ ہی نجی تعلیمی ادارے قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے پاکستان میں نجی تعلیمی اداروں کی بھر مار ہوئی۔ یونی ورسٹیوں ، میڈیکل کالجوں سے لے کر پرائمری سکول تک نجی شعبے میں قائم ہوئے۔

اکثر بڑے شہروں میں رہائشی علاقے ایک طرح سے تعلیمی اداروں کے علاقوں میں تبدیل ہوگئے۔ سکولوں میں کھیل کے میدان نہیں ہیں ، نہ ہی لائبریریاں موجود ہیں۔ بچوں کے لئے بیت الخلا رہائشی مکانات میں تو کلاس روموں میں قائم ہیں۔ بھلا کیا رہائشی علاقوں میں سکول قائم کئے جاتے ہیں؟ ہر شہر میں حکومت تعلیمی اداروں کو آسان قسطوں پر زمین تمام سہولتوں کے ساتھ کیوں نہیں فراہم کر سکتی ہیں؟ معاملہ صرف دلچسپی کا ہے؟ بعض بڑے اداروں نے تو تعلیم کے نام پر کئی شہروں میں سرکاری زمینیں اور عمارتیں اپنے اپنے نام کرا لیں یا کرایہ پر حاصل کر لیں۔ چونکہ وفاقی حکومت اپنے آپ کو تعلیم کے شعبے سے بری الذمہ کر چکی ہے اور اٹھارویں آئینی ترمییم کے بعد تعلیم پوری طرح صوبائی معاملہ بن گیا ہے، لیکن صوبائی حکومتوں نے تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں کے لئے کوئی قابل عمل ضابطے ہی نہیں بنائے ہیں۔

کاغذی خانہ پوری کے لئے نجی سکولوں کے معاملات کی دیکھ بھال کے لئے افسران اور عملے کا تقرر کر دیا گیا ہے، لیکن افسران تعلیمی اداروں کا برائے نام بھی معائنہ نہیں کرتے ہیں، کارروائی کرنا تو دور کی بات ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ افسران اپنی ’’خدمات‘‘ کا معاوضہ باقاعدگی سے ہر ماہ وصول کر لیتے ہیں اور تعلیمی اداروں کو ہر طرح کی من مانی کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔
نجی سکولوں میں فیسوں میں اضافوں اور تعطیلات کے مہینوں کی بھی فیسوں کی زبردستی وصولی کا معاملہ والدین کی عدالتوں سے شکایت کے بعد اس طرح سامنے آیا کی سندھ ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ کو فیصلہ دینا پڑا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نجی سکولوں کی وکالت کے لئے بڑے بڑے نامور وکلاء کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

ہمارے ملک میں وکلاء بھی کمال کرتے ہیں۔ پینے کے پانی کے نام پر جو پانی فروخت کیا جا رہا تھا، دودھ کے نام پر کیمیکل ملا کر جو رنگ فروخت کیا جا رہا تھا ،سرکاری اور نجی زمینوں پر جابرانہ قبضوں کے ذمہ داران کی عدالتوں میں وکالت کرنے ایسے ایسے نامور وکیل پیش ہوتے ہیں کہ شرم آتی ہے کہ کس کس معاملہ کو رویا جائے۔ کوئی ایک وکیل ہو تو نام لیا جائے۔ یہاں تو کئی وکلاء کے نام پر سوالیہ نشان لگایا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کئی تو عوام کی بڑے ایوانوں میں نمائندگی بھی کرتے رہے ہیں یا کرتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -