اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 93
پہرے داروں نے فوراً گردنیں پیچھے کھینچ کر دروازہ بند کردیا۔ میں کچھ دیر اسی طرح اشلوک پڑھتا رہا۔ کبھی دھیمی اور کبھی اونچی آواز میں۔ جب کچھ دیر ہوگئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ چترالی فصیل کی دریا والی برجی میں پہنچ گئی ہوگی تو میں اشلوک پڑھتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا۔ چترالی اس قلعے کے تمام خفیہ راستوں اور نشیب و فراز سے واقف تھی اور قلعے میں چند روز گزارنے کے بعد مجھے بھی معلوم ہوگیا تھا کہ فصیل کی دریا والی برجی چونکہ عقب کی طرف ہے اس لئے وہاں رات کو پہرہ چوکی نہیں لگائی جاتی۔
اب رات کا ایک پہر باقی رہ گیا تھا اور پجاریوں کے جلاد چترالی کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے کسی بھی وقت وہاں پہنچ سکتے تھے۔ میں دروازہ کھول کر باہر آگیا اور پہرے داروں سے کہا کہ مقدس عبادت پوری ہوچکی ہے۔ انہوں نے دروازے سے جھانک کر اندر دیکھا اور انہیں اطمینان ہوگیا کہ دیوداسی چترالی کے پاؤں میں زنجیر پڑی ہوئی تھی اور وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے خاموش بیٹھی تھی۔ اچانک ایک پہرے دار نے کہا
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 92 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’اس کے بال اتنے لمبے نہیں تھے۔‘‘
’’کیا کہا۔ یہ کون ہے پھر؟‘‘
دوسرے پہرے دار نے تعجب سے میری طرف دیکھا میں نے چلا کر کہا’’میرا منہ کیا تک رہے ہو اندر جاکر دیکھو کہ یہ کون ہے۔‘‘
دونوں پہرے دار تیزی سے اندر کی طرف دوڑے۔ ان کے اندر جاتے ہی میں نے قید خانے کی کوٹھڑی کا دروازہ بند کرکے باہر سے کنڈی لگادی اور تاریک زینے کی طرف بھاگا ۔ ان کے چلانے اور مد مدد پکارنے کی آوازیں آدھی سیڑھیوں تک میرا تعاقب کرتی رہیں۔ اس کے بعد ان کی آوازیں بھاری پتھروں کی سلوں میں دب کر رہ گئیں۔ میں اوپر قلعے کی پہلی منزل پر آگیا اور نیم روشن راہداری میں سے گزر کر فصیل کے جنوب کی طرف چلا۔ پچھلی رات کی ساعت تھی۔ قربانی کا وقت ہورہا تھا۔ جس طرف سومنات کا بت تھا مجھے پجاریوں کی نقل و حرکت نظر آئی۔ بھجن کیرتن کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔ میں اس طرف کتراتا ہوا دوسری جانب نکل کر مندر کے پجاریوں کی کوٹھریوں سے ہوتا ہوا کونے والی تاریک سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔ اچانک سامنے سے مجھے بڑا پجاری واستو آتا دکھائی دیا۔ میں نے اپنی رفتار آہستہ کرلی اور دھیمی آواز میں اشلوک پڑھنے لگا۔بڑے پجاری واستو نے قریب آکر مجھے حیرت سے دیکھا اوربولا ’’اشلوک کا دور پورا کرلیا، شاستری تم نے؟‘‘
’’ہاں واستو جی پورا کرلیا۔‘‘
’’تو پھر کدھر جارہے ہو؟ میرے ساتھ سومنات جی کے چرنوں میں چلو۔ بلی کا سمے ہو رہا ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’ذرا فصیل کے اوپر کھلی ہوا میں سیر کو جارہا تھا۔‘‘
پجاری واستو نے میرا بازو پکڑ کر کہا’’شاستری جی! یہ وقت سیر کا نہیں بلی کا ہے۔ قربانی کے سمے اشلوک بھی پڑھے جائیں گے۔ آخر وہ برہمن کی پتری ملیچھ ہوگئی تھی۔ اسے قربانی سے پہلے پوتر کرناہوگا۔‘‘
میں کیا کرتا۔ خاموشی سے اس کے ساتھ چلتا ہوا سومنات کے بت کے پاس آگیا۔
یہاں ایک لڑکی کو مذہبی رسوم کے مطابق پتھر کے ایک بے جان بت پر قربان کرنے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ بت کے آگے چمڑے کا ایک فرش بچھادیا گیا تھا تاکہ جب چترالی کے سینے میں خنجر گھونپ کر جلاد اس کا دل باہر نکالے تو خون سے سنگ مر مر کا فرش خراب نہ ہو جائے۔
میری جان سخت مصیبت میں آگئی تھی۔ میں جانتا تھا کہ فصیل کی برجی پر چترالی بے چینی سے میرا انتظارکررہی ہوگی اور ادھر ابھی تھوڑی دیر بعد جب نقلی چترالی کو قربانی کے لئے لایا جائے گا بلکہ اس سے پہلے ہی یہ بھانڈا پھوٹ جائے گا جب قید خانے کا دروازہ کھلتے ہی پہرے دار چور مچاتے ہوئے باہر کو دوڑیں گے اور یہاں آکر بتائیں گے کہ میں نے انہیں کوٹھری میں بند کرکے چترالی کو بھگادیا ہے۔ میرا ایک ایک لمحہ اضطراب کے عالم میں گزررہا تھا۔ میں خوب جانتا تھا کہ اگر میں تھوڑی دیر اور وہاں اسی طرح بیٹھا رہا تو وہاں ایک طوفان برپا ہوجائے گا اور عین ممکن ہے کہ اس طوفان میں چترالی کو ڈھونڈ کر ہلاک کردیا جائے۔
اچانک میں اٹھ کھڑا ہوا۔ بڑے پجاری واستو نے کہا
’’شاستری جی! کہاں چلے؟‘‘
میں نے کہا ’’بلیدان سے پہلے میرا شنان کرنا ضروری ہے۔‘‘
اب وہ مجھے نہیں روک سکتا تھا۔ ادھر میں سومنات کے بت کے سامنے سے اٹھ کر چلا اور ادھر پجاری واستو نے حکم دیا کہ جاؤ اور ملیچھ دیوداسی کو قربانی کے لئے لے آؤ۔ میں نے اپنے قدم تیز کردئیے۔ وہاں سے اپنی کوٹھری کی سیدھ میں چلا مگر اندھیرے میں آکر اس اندھیرے راستے کی طرف گھوم گیا جو اوپر فصیل کی طرف جاتا تھا۔ یہاں کوئی آدمی نہیں تھا۔ میں اندھیری سیڑھیاں پھلانگتا چھت پر آگیا۔
آسمان ستاروں سے بھرا ہوا تھا اور صبح کاذب کی روشنی پھیلنا شروع ہوگئی تھی۔ میں چھتے اور بارہ دریوں سے نکلتا ہوا سیدھا جنوب کی طرف والی سیاہ پتھروں کی بنی ہو ئی برجی میں پہنچ گیا۔ یہاں چترالی موجود نہیں تھی۔ میں دھک سے رہ گیا۔ کیا وہ پکڑی گئی ہے؟ میں اسے پکار بھی نہیں سکتا تھا۔ پھر اچانک پتھروں کے ڈھیر کے عقب سے ایک انسانی سایہ نکل کر سامنے آگیا۔
’’چترالی‘‘
’’ہاں‘‘ ایک دھیمی نسوانی آواز آئی۔
یہ چترالی ہی تھی۔ میں اندھیرے میں بھی اس کے چہرے کے نقوش دیکھ رہا تھا۔ فصیل کی دوسری جانب نیچے اندھیرے میں دریا کی لہریں قلعے کی دیوار سے ٹکرا رہی تھیں۔ میں نے چترالی سے کہا
’’تمہیں تیرنا آتا ہو یا نہ آتا ہو۔ دریا میں کود جاؤ‘‘
وہ گھبرائی۔ لیکن یہ وقت گھبرانے اور پس و پیش کرنے کا نہیں تھا۔ میں نے اسے دریا میں دھکا دے دیا۔ قدرتی طور پر اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ اس کی چیخ نے فصیل کی دوسری جانب پہرے پر کھڑے تیر اندازوں کو ہوشیار کردیا۔ انہوں نے جدھری سے چیخ کی آواز آئی تھی ادھر دیکھا تو اس وقت فصیل پر سے میں دریا میں چھلانگ لگاچکا تھا۔
ہم پر تیروں کی بارش ہونے لگی۔ میں نے دریا میں گرتے ہی اپنی تیز نظر سے کام لیتے ہوئے اندھیرے میں چترالی کو لہروں میں غوطے کھاتے دیکھ لیا اور اس کی طرف لپک کر اس کے سر کو پانی سے باہر نکال کر جتنی جلدی تیر سکتا تھا اسے لے کر دوسری جانب کنارے کی طرف تیرنے لگا۔ ہندو پہرے داروں نے ہمیں دیکھ لیا تھا اور برابر تیر برسارہے تھے۔ ایک تیر میری ٹانگ میں کھب گیا لیکن میں اسی طرح تیرتا رہا۔ میری برق رفتار ی میرے کام آگئی اور چند لمحوں کے بعد چترالی کو لے کر دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچ گیا۔
کنارے پر آتے ہی میں نے چترالی کو ٹھنڈی گیلی ریت پر اوندھے منہ لٹادیا۔ وہ بری طرح کھانس رہی تھی اور اس کے پھیپھڑوں میں گھسا ہوا پانی باہر نکل رہا تھا۔ ہم خطرے سے نکل آئے تھے۔ چترالی کی طبیعت تھوڑی دیر بعد سنبھل گئی۔ اب ہمارے ارد گرد دن کی روشنی پھیل چکی تھی۔ چترالی نے دریا کے کنارے کچھ فاصلے پر غزنوی لشکر کے خیموں کا میدان کار زار دیکھا تو گھبرا کر بولی’’شاستری جی! ہم دشمنوں میں آگئے ہیں۔ یہ مسلمان ہمیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
میں نے اسے بالکل نہ بتایا کہ میں مسلمان ہوں۔ میں نے اسے یہ کہہ کر تسلی دی کہ مسلمانوں کی فوج کا ایک سالار میرا جاننے والا ہے ہم اس کے پاس چلتے ہیں۔ میں سلطان محمود کے پاس ایک لمحہ ضائع کئے بغیر پہنچنا چاہتا تھا تاکہ اسے اپنی کارگزاری کے بارے میں اطلاع کروں۔ جونہی میں اسلامی لشکر میں پہنچا میرا ہندوانہ حلیہ اور میرے ساتھ ایک ہندو عورت دیکھ کر سپاہیوں نے مجھے گرفتار کرلیا۔ سلطان کے لشکر میں ہزاروں سپاہی تھے۔ ہر سپاہی میری شکل اور میرے رتبے سے واقف نہیں تھا۔ انہوں نے ہم دونوں کو رسیوں سے باندھ کر خیمے میں ڈال دیا۔ میں نے ان سے بہت کہا کہ مجھے سلطان کے پاس لے چلو۔ میں سلطان کا مقرب خاص ہوں۔ مگر میری کسی نے نہ سنی۔ میں فرار ہونے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ آسمان پر کالی سیاہ گٹھا اٹھی۔ بجلی کڑکنے لگی اور ایک دم سے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی فوج میں طبل جنگ بج گیا اور اسلامی لشکر نے قلعے پر دھاوا بول دیا۔(جاری ہے )