اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 62
بصرہ میں کوئی امیر آدمی فوت ہوگیا۔ اس کی پوری جائیداد اس کی اکلوتی لڑکی کو ملی۔ جو بہت خوبصورت تھی۔ ایک دن اس لڑکی نے حضرت ثابؒ لبنانی کی خدمت مین حاضر ہوکر کہا ’’میں نکاح کرنا چاہتی ہوں لیکن میری خواہش ہے کہ نکاح مالک بن دینارؒ کے ساتھ ہو تاکہ ذکر الہٰی اور دنیاوی کاموں میں وہ میری معاونت کرسکیں۔‘‘ چنانچہ حضرت ثابتؒ لبنانی نے اس لڑکی کا پیغام مالک بن دینارؒ کو پہنچادیا۔
آپ نے پیغام سن کر فرمایا ’’میں تو دنیا کو طلاق دے چکا ہوں اور چونکہ عورت کا شمار بھی دنیا ہی میں ہوتا ہے۔ اس لیے طلاق شدہ عورت سے نکاح جائز نہیں۔‘‘
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
***
لوگوں نے ایک مرتبہ حضرت عتبہ بن غلامؒ کو موسم سرما میں صرف ایک کرتے ہیں دیکھا اور اس کے باوجود آپؒ کا جسم پسینہ سے شرابور تھا اور جب لوگوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا’’مدت گزری کہ میرے یہاں کچھ مہمان آئے تھے اور انہوں نے بلا اجازت میرے ہمسایہ کی دیوار میں سے تھوڑی سی مٹی لے لی چنانچہ اس وقت سے آج تک جب بھی میری نظر اس کی دیوار پر پڑتی ہے تو مَیں شرمندگی سے پسینہ پسینہ ہوجاتا ہوں، حالانکہ میرا ہمسایہ معاف بھی کرچکا ہے۔‘‘
***
ایک مرتبہ حضرت بایزیدؒ کی والدہ محترمہ نے رات کو پانی مانگا لیکن اس وقت گھر میں قطعاً پانی نہیں تھا چنانچہ آپ گھڑا لے کر نہر سے پانی لائے مگر آمدورفت کی تاخیر کی وجہ سے آپ کی والدہ پھر سے سوگئیں۔ آپ رات بھر پانی لئے کھڑے رہے حتیٰ کہ شدید سردی کی وجہ سے وہ پانی آبخورے میں منجمد ہوگیا اور جب والدہ کی دوبارہ بیداری پر آپ نے انہیں پانی پیش کیا تو والدہ محترومہ نے فرمایا ’’یایزیدؒ ! تم نے پانی رکھ دیا ہوتا۔ اتنی دیر کھڑا رہنے کی کیا ضرورتی تھی۔‘‘
اس پر حضرت بایزیدؒ نے عرض کیا ’’محض اس خوف سے کھڑا رہا کہ مبادا آپ کہیں بیدار ہوکر پانی نہ پئیں اور آپ کو تکلیف پہنچے۔‘‘
یہ سن کر آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو بے شمار دعائیں دیں۔
***
ایک اجتماع میں بشر حافیؒ رضائے الہٰی کے اوصاف بیان فرمارہے تھے، کہ ایک شخص نے عرض کیا ’’یہ تو ہم بخوبی جانتے ہیں کہ آپ بہت ہی باصفا باکمال اور مخلوق سے بے نیاز ہیں لیکن اس میں کیا حرج ہے کہ اگر پوشیدہ طور پر دوسروں سے کچھ لے کر فقراء میں تقسیم کردیا کریں۔‘‘
گویہ بات آپ کو ناگوار گزری پھر بھی مسکراتے ہوئے فرمایا ’’فقراء کی بھی تین قسمیں ہیں۔ اول تو جو نہ تو مخلوق سے کچھ طلب کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کے کچھ دینے کے باوجود قبول کرتے ہیں۔ ان کا شمار تو ایسے روحانی بندوں میں ہوتا ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ سے مانگتے ہیں مل جاتا ہے۔ دوم وہ خود تو کسی سے طلب کرتے نہیں لیکن اگر کوئی دے دے تو قبول کرلیتے ہیں۔ یہ متوسط قسم کے متوکل ہوتے ہیں۔ اور انہیں جنت کی تمام نعمتیں حاصل ہوں گی۔ سوم وہ جو نفس کشی کرتے ہوئے صبر و ضبط سے کام لے کر ذکر الہٰی میں مشغول رہتے ہیں۔‘‘
آپ کے اس بیان سے لوگوں کو دوبارہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ آپ سے اس موضوع پر مزید گفتگو کریں گے۔
***
ایک مرتبہ حضرت حاتم اصمؒ نے جہاد کے ارادہ سے بیوی سے پوچھا ’’تمہیں چار ماہ کے اخراجات کے لئے کتنی رقم کی ضرورت ہے۔‘‘
بیوی نے عرض کیا ’’جتنی میری زندگی ہو اُتنی رقم دے دو۔‘‘
آپ نے فرمایا ’’زندگی تو میرے قبضہ قدرت سے باہر ہے۔‘‘
اس پر بیوی نے کہا ’’پھر میرا رزق آپ کے ہاتھوں میں کیسے ہوسکتا ہے۔‘‘
آپ یہ سن کر چپ ہورہے۔ اس کے بعد آپ جہاد میں شریک ہونے کی غرض سے چلے گئے۔(جاری ہے )