سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ
سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حوالے سے دائر کی گئی آئینی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ مختصر حکم تو پہلے ہی سنایا جا چکا تھا اور اس میں اٹارنی جنرل کی اس تحریری یقین دہانی کہ چھ ماہ کے اندر اندر اس معاملے میں قانون سازی کر لی جائے گی، کا ذکر کرتے ہوئے معاملہ پارلیمینٹ پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ موجودہ چیف آف آرمی سٹاف قمر جاوید باجوہ29نومبر کو ریٹائر ہونے والے تھے، اور حکومت نے ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کرتے ہوئے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا تھا، یا یہ کہیے کہ کئی نوٹیفکیشن جاری کر کے اپنی قانونی ٹیم کے ”بونگے پن“ کا ثبوت فراہم کر دیا تھا…… لیکن سپریم کورٹ میں اس کے خلاف درخواست دائر کر دی گئی۔ سماعت کے بعد عدالت نے آرمی چیف کی میعاد ملازمت میں چھ ماہ کا اضافہ کرتے ہوئے توقع ظاہر کی تھی کہ اِس دوران میں قانون سازی کے ذریعے جو ابہام یا خلا موجود ہیں وہ دور کر لیے جائیں گے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ چند روز میں ریٹائر ہونے والے ہیں، اس لیے شدت سے تفصیلی فیصلے کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ مختصر حکم کی تشریح مختلف قانون دان مختلف انداز میں کر رہے تھے، ایک خیال یہ تھا کہ مذکورہ مقصد کے لیے دستور کی دفعہ243 میں ترمیم کرنا پڑے گی، جبکہ دوسرا خیال یہ تھا کہ عام قانون سازی ہی کے ذریعے مطلوبہ مقاصد حاصل کر لیے جائیں گے۔اگر دستور میں ترمیم کرنا پڑ جاتی تو اس میں پیچیدگیاں حائل ہو سکتی تھیں کہ موجودہ مخلوط وفاقی حکومت کو پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے جانے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے،اور اس کے بعد بھی یقین نہیں تھا کہ وہ مذکورہ اکثریت حاصل کر لیتے۔اس پس منظر میں سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا کہ اسی کی روشنی میں آنے والے دِنوں کی تصویر دھندلی یا واضح ہو سکتی تھی۔
سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے،جس سے باقی دو جج صاحبان نے بھی اتفاق کرتے ہوئے دستخط ثبت فرما دیے ہیں۔ان میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر میاں خیل شامل ہیں۔فاضل چیف جسٹس نے دو صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی تحریر کیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ تاریخ کے مخصوص تناظر میں آرمی چیف کا عہدہ کسی بھی عہدے سے زیادہ طاقتور،لامحدود اختیارات اور حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ غیر متعین صوابدید خطرناک ہوتی ہے۔ آرمی چیف کے عہدے میں توسیع یا دوبارہ تقرری کی شرائط و ضوابط کا کسی قانون میں ذکر نہ ہونا باعث حیرت ہے۔آئین کے تحت صدر کے بطور سپریم کمانڈر مسلح افواج سے متعلق اختیارات قانون سے مشروط ہیں۔آرمی چیف کے معاملات کو کسی قانون کے بغیر ریگولیٹ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔چیف جسٹس نے برطانیہ کے ایک چیف جسٹس کے ایک قول کا حوالہ بھی دیا، کہ کوئی شخص کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو قانون(بہرحال) اس سے بڑا ہوتا ہے۔
فیصلے میں واضح کر دیا گیا ہے کہ اگر چھ ماہ کے اندر اندر مطلوبہ قانون سازی نہ کی جا سکی، تو پھر جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر تصور ہوں گے، اور حکومت کو ان کی جگہ کسی نئے جنرل کا تقرر کرنا ہو گا۔ اس فیصلے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ دستور میں ترمیم کیے بغیر ایسی قانون سازی کی جا سکتی ہے، جو موجودہ خلا کو پُر کر سکے۔حکومت کو قومی اسمبلی میں تو اکثریت کی حمایت حاصل ہے،لیکن سینیٹ میں اس کی حیثیت اقلیتی پارٹی کی ہے۔ بل کو وہاں منظور کرانے کے لیے اپوزیشن سے بات چیت کرنا پڑے گی،حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس وقت تعلقات کار کی جو نوعیت ہے،وہ کسی طور بھی قابل ِ اطمینان نہیں۔پارلیمانی طرزِ حکومت میں اگر حکومت اور اپوزیشن اپنے درمیان دیوارِ چین کھڑی کر لے تو پھر راوی چین نہیں لکھ سکتا۔حکومت کے بعض ذمہ دار اس حوالے سے غیر ذمہ داری کے جو مظاہرے کر چکے ہیں یا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،ان کی وجہ سے معاملات کو بگڑنے کی اجازت دینا خطرناک ہو گا۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے جو خود بھی ایک ماہر قانون ہیں،فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے نکتہ وری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی ہے،لیکن سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ قانون کی تشریح و تعبیر کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ حرفِ آخر ہے۔اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے،لیکن اسے ماننے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔سپریم کورٹ کی تشریح کے مطابق اگر آرمی چیف کی تقرری اور توسیع(یا دوبارہ تقرری) کے حوالے سے قانون سازی نہیں ہو گی، تو پھر موجودہ آرمی چیف کام جاری نہیں رکھ سکیں گے۔اس لیے کسی کھلنڈرے پن کا مظاہرہ کیے بغیر حکومت اپوزیشن سے رابطہ کرے، اور اتفاق رائے سے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ آرمی چیف جیسے منصب کے حوالے سے کسی بھی جماعت کو سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ یہ قومی معاملہ ہے، قومی مفاد ہی کے حوالے سے اس پر غور ہونا چاہیے۔