تاریخ ساز برطانوی انتخابات2019ء
برطانوی الیکشن 2019ء:پانچ سال کے دوران یہ تیسرا الیکشن تھا جس میں برطانوی شہریوں نے، برطانوی عوام نے،انگریزوں نے، بریگزٹ کے بارے میں کنزرویٹو پارٹی کے موقف کی واضح انداز میں تائید کر دی ہے۔ 1987ء کے بعد،32 سال بعد 650 کے ہاؤس آف کامن میں 365 نشستیں جیتنے پر، پارلیمینٹ میں واضح اکثریت حاصل کر لی ہے۔ اب کنزرویٹو پارٹی اپنے اعلان کردہ منشور کے مطابق برطانوی عوام کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کرے گی۔ بورس جانسن کی قیادت میں کنزر ویٹو پارٹی نے لیبر پارٹی کی اقتدار پر طویل گرفت کا خاتمہ کر دیا ہے۔لیبر پارٹی صرف 203 سیٹیں جیت سکی ہے۔ 1935ء کے بعد لیبر پارٹی کی یہ بدترین کارکردگی تھی۔ لیبر پارٹی لیڈر جیریمی کاربین نے بدترین شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پارٹی قیادت چھوڑنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ کاربین نے الیکشن نتائج کے بعد اپنی تقریر میں کہا: ”مَیں آئندہ عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی قیادت نہیں کروں گا۔ نتائج کے بارے میں،پارٹی پالیسیوں پر گفتگو و شنید کا سلسلہ شروع کیا جائے گا تاکہ پارٹی کے لئے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے، اس عمل کے دوران حتمی معاملات طے کئے جائیں گے“۔
برطانوی الیکشن 2019ء:دو بنیادی ایشوز پر بحث و مباحثہ ہوا۔ اول: برطانیہ کو یورپی یونین میں شامل رہنا چاہئے یا نہیں اور دوم:عوامی خدمت پر اٹھنے والے اخراجات کم یا زیادہ ہونے چاہئیں۔ دونوں جماعتوں کے ان موضوعات پر متضاد خیالات تھے، لیکن واضح تھے ابہام نہیں تھا۔ الیکشن مہم کا مرکزی ایشو بریگزٹ یعنی برطانیہ کا یورپی یونین کے ساتھ تعلق تھا۔گزرے پانچ سال کے دوران یہ تیسرا عام انتخاب ہے۔ دو انتخابات کے دوران عوامی رائے منقسم تھی، کوئی بھی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر سکی،اس لئے یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات بارے حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ 2017ء کے عام انتخابات میں اس وقت کی وزیراعظم برطانیہ تھریسامے پارلیمینٹ میں اکثریت کھو بیٹھی تھیں،اس لئے وہ پارلیمینٹ سے بریگزٹ بارے فیصلہ نہ کرا سکیں، پھر انہیں مستعفی ہونا پڑا بورس جانسن نے وعدہ کیا کہ وہ 31 اکتوبر تک بریگزٹ پر پارلیمان سے حتمی فیصلہ حاصل کر لے گا۔
اسی فیصلے کے وعدے پر وہ برطانیہ کا وزیراعظم بنا، لیکن وہ بھی پارلیمان سے حتمی فیصلہ نہ لے سکا،اس لئے 2019ء میں ایک بار پھر الیکشن کرانا پڑے اور ہم نے دیکھ لیا ہے کہ انتخابی نتائج کے مطابق بورس جانسن اپنے اعلان کردہ منصوبے پر عمل درآمد کر سکیں گے،انہیں ہاؤس آف کامن میں واضح اکثریت مل گئی ہے اور اب وہ آسانی سے برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 1957ء میں چھ یورپی ریاستوں نے مل کر معاہدہئ روم کیا، جس کے مطابق 1967ء میں یورپی کمیونٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1973ء میں وزیراعظم برطانیہ ایڈورڈ ہیتھ نے کمیونٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ 1975ء میں لیبر وزیراعظم ہیرالڈولسن نے یورپی کمیونٹی میں برطانوی ممبر شپ بارے ایک ریفرنڈم منعقد کیا،جس میں 66 فیصد رائے دہندگان نے برطانیہ کے یورپی کمیونٹی میں رہنے کے حق میں ووٹ دیا۔
1991ء میں ایک معاہدے کے تحت ایک یورپی کرنسی کا اجراء کیا گیا، اس طرح عالمی منڈی میں ڈالر کی حکمرانی کو چیلنج کیا گیا،اس معاہدے میں برطانیہ نے اپنے لئے ایک شق ڈلوائی کہ برطانیہ کو سنگل کرنسی احتیار نہ کرنے کا اختیار بھی دیا جائے،یعنی برطانیہ یورپی کمیونٹی کا ممبر رہتے ہوئے بھی اس کی کرنسی اختیار نہیں کرے گا۔ اس وقت کے وزیراعظم برطانیہ جان میجر نے برطانیہ کا کیس بڑے شاندار انداز میں لڑا تھا۔ 1993ء میں یورپی یونین کا قیام عمل میں لایا گیا اور یکم جنوری 2002ء میں یورو متعارف کرایا گیا، لیکن برطانوی عوام نے اس بارے میں بہت خوشدلی کا مظاہرہ نہیں کیا اور سنگل کرنسی اختیار کرنے کے حوالے سے متضاد آراء پائی جاتی رہیں، حتیٰ کہ جون 2016ء میں برطانیہ میں اس بات پر ریفرنڈم ہوا کہ برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنا چاہئے کہ نہیں۔ ریفرنڈم میں 51.9 فیصد ووٹوں کے ساتھ یہ فیصلہ ہوا کہ برطانیہ کو یورپی یونین سے نکل جانا چاہئے حکومت برطانیہ نے با ضابطہ ئ طور پر اعلان کیا کہ مارچ 2017ء میں برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے گا۔اس وقت سے یہ معاملات برطانوی پارلیمینٹ میں زیر بحث رہا ہے، لیکن کوئی حکومت حتمی طور پر معاملات طے نہیں کر سکی۔ اسی بات پر پانچ سال میں 3 بار الیکشن ہو چکے ہیں اور الیکشن 2019ء (14 دسمبر 2019ء) میں بورس جانسن کی قیادت میں کنزرویٹو پارٹی نے ہاؤس آف کامن میں واضح اکثریت حاصل کر کے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ برطانیہ31 جنوری 2020ء تک یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ یہی برطانوی عوام کی خواہش ہے اور یہی برطانیہ کے قومی مفاد میں ہے۔
اس کے علاوہ برطانیہ سنگل مارکیٹ اور کسٹم یونین سے بھی نکل جائے گا،پھر یورپی یونین کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کئے جائیں گے۔ بورس جانسن نے برطانوی عوام کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ 2020ء کے آخر تک یورپی یونین سے نکلنے کے معاملات طے کر لیں گے۔ 31 جنوری 2020ء تک پارلیمان سے معاملات طے کرنے کی منظوری لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔ درمیانی عرصے کے دوران برطانیہ یورپی یونین کے تمام ضوابط پر عمل پیرا رہے گا، کیونکہ یورپی یونین کے ساتھ نئے معاہدے کئے بغیر، اس سے قطع تعلق کرنا قطعی طور پر برطانیہ کے مفاد میں نہیں،کیونکہ سردست برطانوی معیشت بہت مضبوط و پائیدار بنیادوں پر کھڑی نہیں ہے۔اب2.7 ٹریلین پونڈ کی برطانوی معیشت کا انحصار امریکہ کے ساتھ ہونے والے تجارتی معاہدے پر ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بورس جانسن کو الیکشن جیتنے پر مبارکباد دی اور کہا کہ امریکہ کے ساتھ برطانیہ کا تجارتی معاہدہ، یورپی یونین کے ساتھ برطانوی معاہدے سے کئی گنا بہتر اور فائدہ مند ہوگا۔
31 جنوری 2020ء کے بعد برطانیہ ایک درمیانی عرصے میں داخل ہو گا، جس میں اسے یورپی یونین کی دیگر 27ریاستوں کے ساتھ معاملات طے کرنا ہوں گے۔ یورپی یونین کے قواعد و ضوابط کے مطابق یہ دور دسمبر 2022ء تک جاری رہ سکتا ہے، لیکن کنزرویٹو پارٹی نے برطانوی عوام کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے کہ ایسے تمام معاملات دسمبر 2020ء تک طے کر لئے جائیں گے۔جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کی واضح اکثریت سے یورپی یونین کے بہت سے ممالک کو سُکھ کا سانس لینا نصیب ہوا ہے، کیونکہ وہ بریگزیٹ کے معاملے پر لندن میں پائی جانے والی تضاد خیالی سے پریشان تھے۔اب بورس جانسن کو واضح اکثریت ملنے سے بریگزیٹ کے معاملے میں ابہام کا خاتمہ ہو گیا ہے، لیکن اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دسمبر 2020ء تک تمام معاملات طے کرنا بھی مشکل ہو گا، کیونکہ اس میں بہت سی نظری و عملی پیچیدگیاں بھی پائی جاتی ہیں جنہیں اتنے مختصر وقت میں حل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ بورس جانسن نے اپنی الیکشن مہم میں معیشت میں کھلے پن کو فروغ دینے کی بات کی تھی، کیونکہ لیبر پارٹی 1935ء سے سوشلسٹ ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ کاربین نے بھی اپنی الیکشن مہم کے دوران نیشنلائزیشن اور سرکاری اخراجات بڑھانے کی بات کی تھی۔برطانوی عوام نے ووٹ کے ذریعے لیبر پارٹی کے ایجنڈے کو مسترد کر کے کنزرویٹو پارٹی کے ملک چلانے کے اعلان کردہ ایجنڈے کی حمایت کر دی ہے۔اب بورس جانسن برطانوی معیشت کو امریکی معیشت کے ساتھ ہم آہنگ کر کے اپنے ملک کو جس طرح چاہیں آگے بڑھانے میں آزاد ہوں گے۔
بیان کردہ مثبت امکانات کے ساتھ ساتھ ایک بات اور بڑی واضح نظر آ رہی ہے کہ الیکشن نتائج کو انگلش، سکاٹش اور آئرش قوم پرستوں کی طرف سے بہت سراہا گیا ہے، جس سے متحدہ برطانیہ (یو کے) کے مستقبل پر سوالیہ نشان اٹھنے لگے ہیں۔بریگزیٹ کی مخالف اور آزادی کی حمایتی سکاٹش نیشنل پارٹی نے کنزرویٹو پارٹی اور لبرل دونوں پارٹیوں کو شکست دے کر سکاٹ لینڈ پارلیمینٹ کی 59 میں سے 48 نشستیں جیت لی ہیں۔ سکاٹش نیشنل پارٹی کی سربراہ اور سکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نکولا سرجن نے کہا ہے: ”اب اپنا مستقبل خود طے کرنے کا وقت آ گیا ہے“۔ دوسری طرف شمالی آئر لینڈ میں متحدہ آئر لینڈ کے حامی، برطانوی اتحادی رہنے والوں کو شکست دے چکے ہیں۔1921ء میں برطانوی شمال کو آئرش ریپبلک جنوب سے الگ کر دیا گیا تھا، یعنی آئرلینڈ کے ایک حصے نے برطانیہ سے آزادی حاصل کر لی تھی۔اب شمالی آئرلینڈ میں متحدہ آئرلینڈ کے حامی الیکشن جیت چکے ہیں،جبکہ یونائیٹڈ کنگڈم کے حامی یہاں آئرلینڈ میں انتخابی معرکہ ہار چکے ہیں۔
گویا سکاٹ لینڈ، اور آئرلینڈ میں مرکز گریز قوتیں انتخابی معرکے سر کر چکی ہیں، گویا برطانیہ عظمیٰ کا مستقبل مخدوش ہو سکتا ہے۔ سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ نے بھی اگر برطانیہ سے بریگزٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا اور وہ اس سے الگ ہو گئے تو پھر ذرا غور کریں متحدہ برطانیہ کہاں کا رہ جائے گا؟……برطانوی عوام نے بورس جانسن کو تاریخی مینڈیٹ دے کر ایک نئے دور کی ابتداء کرنے کا موقع دے دیا ہے۔ یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر کے برطانیہ ایک نئے دور میں داخل ہو سکتا ہے۔امریکہ کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کے ذریعے تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے، لیکن سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کے بریگزٹ سے پیدا ہونے والے نئے حالات سے بورس جانسن کس طرح نمٹتے ہیں،یہ ایک کڑا امتحان ہو گا۔ برطانوی عوام کے لئے بھی اور بورس جانسن کے لئے بھی۔