انکوائری صدر کریگا تو عدلیہ کی آزادی کہاں کھڑی ہو گی؟ جسٹس منیر
اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم کے رکن حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ ریفرنس بد نیتی پر مبنی ہے، ریفرنس دائر کرنے سے پہلے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے،ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیکر خارج کیا جائے،آئین کے آرٹیکل209کوپہلی مرتبہ1962ء کے آئین میں شامل کیا گیا، 1973کے آئین میں بھی209میں زیادہ تبدیلی نہیں کی گئی،شروع میں 2ہائیکورٹس تھیں اور2ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان تھے،1976ء میں 4ہائیکورٹس بنیں اوراب ملک میں 5ہائیکورٹس ہیں،1973ء کے آئین میں آرٹیکل209میں صدرپاکستان صرف اپنی رائے قائم کرسکتاتھالیکن1973ء کے آئین میں سترھویں ترمیم کے بعدسپریم جوڈیشل کونسل بھی اپنی رائے قائم کرسکتی ہے،سپریم جوڈیشل کونسل کوآرٹیکل209رولزبنانے کااختیارنہیں دیتا۔2005ء میں سپریم جوڈیشل کونسل نے چندضوابط بنائے،میں انہیں قواعدنہیں کہوں گا،صدرمملکت ملنے والی اطلاعات پراپناذہن استعمال کرتے ہیں،قاضی فائزعیسیٰ کیخلاف آنیوالے ریفرنس کے پیراگراف8اس بات کیخلاف جاتی ہے،ریفرنس کاپیراگراف8صدرکاآزادذہن استعمال کرکے اپنی رائے قائم کرنے کی نفی کررہاہے،آئین کی سکیم واضح کرتی کہ صدرمملکت ریاست کے تمام ستونوں کاسربراہ ہے،صدرمملکت صرف حکومت کاسربراہ نہیں ہوتا،صدرمملکت خودکوحکومت تک محدودنہیں کرسکتا،آئین کاآرٹیکل50واضح کرتاہے کہ مجلس شوریٰ دونوں ایوانوں پرمشتمل ہے اورصدراسکاحصہ ہے،آرٹیکل256واضح کرتاہے کہ صدران دونوں ایوانوں سے خطاب کرتاہے،آرٹیکل58صدرمملکت کواسمبلی تحلیل کرنے کااختیاردیتاہے،آرٹیکل58ون میں صدروزیراعظم کی سفارش پراسمبلی تحلیل کرتاہے،آرٹیکل58ٹوا ے میں صدرمملکت،وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتمادکامیاب ہونے اوردوسرے کسی رکن کے وزیراعظم منتخب نہ ہونے کی صورت میں اسمبلی تحلیل کرسکتاہے،آرٹیکل75کے مطابق اب صدرکے پاس کوئی بل آتاہے تو15دن کے اندرترمیم کیلئے واپس ایوان کوبھیج سکتاہے،آرٹیکل89صدرکوآرڈیننس جاری کرنیکااختیاردیتاہے،آرٹیکل90میں صدروزیراعظم اورکابینہ کی سفارش پروفاق کی ایگزیکٹواتھارٹی استعمال کرتاہے،آرٹیکل 91ایگزیکٹو،وزیراعظم اورکابینہ صدرکواپنے اختیاراستعمال کرنے کی سفارش کرتے ہیں،آرٹیکل48کی شق ون میں صدروفاقی کابینہ اوروزیراعظم کی سفارش کو15دن میں واپس کابینہ کوبھجواسکتاہے،15دن کے بعدمزید10دن گزرنے کے بعدصدراس سفارش پرعمل درآمدکرنے کاپابندہوتاہے،ایگزیکٹوکی ذمہ داری ہے کہ وہ صدرکوبیرونی واندرونی معاملات سے آگاہ رکھے،آئین کے آرٹیکل175اے،177اور193مشترکہ طورپرصدرمملکت کوسپریم کورٹ اورہائیکورٹ کے ججز کی تقرری کااختیاردیتاہے،آرٹیکل186میں صدررائے دینے کااختیاررکھتاہے،آرٹیکل209صدرمملکت کوحتمی اتھارٹی قراردیتاہے،آئین پاکستان میں صدرمملکت ریاست کاغیرفعال سربراہ نہیں ہے،آئین میں صدرمملکت ریاست کے مختلف حصوں سے انٹریکٹ کرتاہے،بطورریاست کے سربراہ صدرکاکام ریاست کے تمام حصوں سے اوپرہے،صدرریاست کے تمام حصوں کوالگ بھی کرتاہے اورآپس میں رابطہ بھی قائم کرتاہے،صدرکواس بات کوبھی یقینی بناناہے کہ ریاست کے حصوں کے درمیان معاملات کوانصاف سے چلائے،ایگزیکٹو ایکشن میں وزیراعظم سفارش لازم تاہم ججز کے معاملے وزیراعظم کی سفارش لازم نہیں۔رائے قائم کرنے کیلئے کی جانے والی انکوائری ابتدائی نوعیت کی ہوتی ہے۔صدر کو معاملہ سپریم جوڈیشل بھیجنے سے پہلے ایک عبوری انکوائری کرنا تھی،معاملے کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ بنچ نے کی۔دوران سماعت جسٹس منیر اختر نے سوال اٹھایا کہ کیاصدرمملکت ازخودریفرنس براہ راست سپریم کورٹ کوبھیج سکتاہے،کیاایسانہیں کہ صدرمملکت کابینہ کی سفارش کاپابندہوتاہے،اگر صدر جج کی انکوائری کرے گاتو عدلیہ کی آزادی کہاں کھڑی ہوگی،انکوائری میں تو جج کو ایک سے زائد بار بلایا بھی جا سکتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر شکایت وزیراعظم کی طرف سے آئے تو کیا اس صورت میں بھی وزیراعظم کی سفارش درکار ہوگی،جسٹس سجاد علی شاہ نے ایک موقع پر کہا کہ یہ کیسے ممکن کہ ایک معاملے میں دو انکوائریاں کی جائیں کہ صدر بھی انکوائری کرے اور سپریم جوڈیشل کونسل بھی۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اس متعلقہ ریفرنس میں صدر نے لکھا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کی سفارش پر اپنی رائے قائم کی ہے۔ کیس کی سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
قاضی فائز عیسیٰ کیس