کاروباری شعبہ کو دباؤ سے نکالنے کیلئے ٹیکسوں کی تعداد کم کی جائے: لاہور چیمبر 

کاروباری شعبہ کو دباؤ سے نکالنے کیلئے ٹیکسوں کی تعداد کم کی جائے: لاہور ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور(لیڈی رپورٹر)لاہور چیمبر کے صدرعرفان اقبال شیخ نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ کاروباری شعبہ کو دباؤ سے باہر لانے کے لیے ٹیکسوں کی تعداد میں کمی، ان کی ادائیگی کا طریقہ کا طریقہ کار تبدیل اور ریفنڈز کی ادائیگی کی لیے موزوں طریقہ کار وضع کرے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں کی ادائیگی کے طریقہ کار کے حوالے سے پاکستان کی عالمی درجہ بندی 173ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی کاروباری برادری سال میں 47مرتبہ مختلف نوعیت کے ٹیکس ادا کرتی ہے، اس کے مقابلے ہانگ کانگ کے تاجر سال میں تین، یو اے ای چار، آئرلینڈ نو، ملائشیاآٹھ، انڈیا تیرہ اور سری لنکا کے تاجر سال میں 36مرتبہ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور یہ ممالک ہیں جن کے ساتھ عالمی منڈی میں پاکستان کا مقابلہ ہے۔ عرفان اقبال شیخ نے کہا کہ پاکستان میں ایک کمپنی، جو چاروں صوبوں میں آپریشنل ہو، اسے سال میں پانچ مرتبہ کارپوریٹ انکم ٹیکس، بارہ مرتبہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ، بارہ مرتبہ سوشل سکیورٹی، ایک مرتبہ ایجوکیشن سیس، ایک مرتبہ پراپرٹی ٹیکس، ایک مرتبہ وہیکل ٹیکس، ایک مرتبہ سٹیمپ ڈیوٹی اور ایسے ہی کئی دیگر ٹیکسزادا کرنے پڑتے ہیں۔ لاہور چیمبر کے صدر نے تجویز پیش کی کہ کہ اولڈ ایج بینیفٹ، ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ اور صوبائی سیلز ٹیکس سال میں صرف ایک مرتبہ وصول کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ پروفیشنل اور پراپرٹی ٹیکس کو اکٹھا کردیا جائے، اسی طرح وفاقی اور صوبائی سیلز ٹیکس بھی یکجا کردینے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری برادری کو کریڈٹ کارڈ، ڈیبٹ کارڈ اور انٹرنیٹ و موبائل بینکنگ کے ذریعے ٹیکسز جمع کروانے کی اجازت دی جائے۔ لاہور چیمبر کے صدر نے مزید کہا کہ دس ملین روپے سے پچاس ملین روپے تک کے ریفنڈز فورا ادا کردئیے جائیں، مزید یہ کہ ریٹرن کی فائلنگ کے دو ماہ کے اندر تمام ریفنڈز کلیئر کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام محکموں کو پابند کیا جائے کہ وہ الیکٹرانک فائلنگ اور آن لائن پیمنٹ کا سسٹم وضع کریں، فزیکل آڈٹ کم کرنے کے لیے رسک مینجمنٹ سسٹم بہتر کیا جائے۔ الماس حیدر نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ان تجاویز پر عمل درآمد نہ صرف موجودہ ٹیکس دہندگان پر سے بوجھ کم کرے گا بلکہ نئے ٹیکس گزاروں کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی جبکہ ٹیکسوں کی ادائیگی کے حوالے سے پاکستان کی عالمی درجہ بندی میں بھی بہتری آئے گی۔ 

مزید :

کامرس -