”گوادر کو حق دو“ تحریک کی کامیابی
گوادر میں 30دن سے جاری دھرنا ختم ہو گیا ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے مطالبات منظور کیے جانے کے بعد ”گوادر کو حق دو“ تحریک کے رہنما،اور جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکرٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن نے اس کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔انہوں نے بتایا کہ ہمارا دھرنا کامیاب رہا ہے،اور ہم نے اپنے مطالبات پر عملدرآمد کے لیے باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بیشتر مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں،اور کئی پر تو عمل کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ان کے بقول،ان کا سب سے بڑا مسئلہ ساحل کے قریبی علاقوں میں غیر قانونی ماہی گیری کا ہے،ٹرالرز کے ذریعے ایک بڑا مافیا مچھلیوں کا غیر قانونی طور پر شکار کر رہا ہے،جس کی وجہ سے مقامی ماہی گیر بے روزگار ہو چکے ہیں۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بلوچستان کے ساحل سے 30 ناٹیکل میل کی حدود میں ٹرالنگ، یعنی بڑی کشتیوں اور ممنوع جالوں کے ذریعے مچھلی کے شکار پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔اس مقصد کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے گی۔سی فشریز ایکٹ میں ترامیم ہوں گی۔
مولانا ہدایت الرحمن سے مذاکرات میں وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی سربراہی میں اعلیٰ حکام نے حصہ لیا۔صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت سے مشاروت بھی جاری رکھی۔ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزرا اسد عمر اور زبیدہ جلال کو خصوصی طور پر گوادر بھجوایا تاکہ وہاں جاری احتجاجی تحریک کے خاتمے میں مدد کر سکیں۔وزیراعلیٰ بلوچستان کی صدارت میں معاملے کو حتمی شکل دینے کے لیے جو اجلاس طلب کیا گیا،اس میں مذکورہ وفاقی وزرا اور وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے سی پیک خالد منصور نے بھی شرکت کی تھی۔احتجاجی دھرنے میں عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد بھی شریک تھی۔اہم بات یہ تھی کہ مظاہرین مکمل پرامن رہے،اور گذشتہ تیس دِنوں کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کرنے والوں نے اپنے عمل سے ایک منفرد مثال قائم کی۔پاکستانی سیاست میں ہنگامہ خیزی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ چند افراد بھی اکٹھے ہوتے ہیں تو منفی نعروں،اور قانون نافذ کرنے والوں سے الجھنے میں کوشاں ہو جاتے ہیں،لیکن تیس روز تک جاری رہنے والے اس دھرنے میں کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی۔اس کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن نے حالات کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں رکھا،استدلال کے ساتھ اپنے موقف کو واضح کرتے رہے۔بات چیت کے دروازے بند نہیں کیے،بڑھکوں اور دھمکیوں سے گریز کیا۔اس عزم کا البتہ اظہار کرتے رہے کہ ان کا احتجاج لانگ مارچ میں تبدیل ہو سکتا ہے،وہ کوئٹہ، اور اسلام آباد تک بھی جا سکتے ہیں۔
اس دھرنے کے انداز،اور اس کی قیادت کے اسلوب نے قومی سیاست پر خوشگوار اثرات مرتب کیے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو پرامن جدوجہد کی افادیت سے آگاہ کرنے کا سبب بنا ہے۔بلوچستان میں خاص طور پر اس طرزِ سیاست کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے کہ یہاں بات،بے بات بندوق اٹھانا معمول بن چکا ہے۔پہاڑوں پر چڑھ کر طاقت آزمائی کرنے کو جدوجہد سمجھا جاتا ہے،اور مخالفین کا خون بہانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا۔ایسے عناصر اپنے آپ کو ہیرو قرار دیتے،اور اپنی قانون شکنی کو جہاد قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔مولانا ہدایت الرحمن نے جماعت اسلامی کے نظم کے تحت پرامن اور منظم احتجاج سے بلوچستان کی سیاست کو ایک نیا رخ دیا ہے،جس پر انہیں مبارکباد پیش کی جانی چاہیے،اور توقع رکھنی چاہیے کہ دوسری سیاسی جماعتیں اور ان کے پرجوش رہنما بھی اس راستے پر گامزن ہوں گے،قانون ہاتھ میں لے کر اپنا اور دوسروں کا نقصان کرنے کو جدوجہد کا لازمی حصہ نہیں سمجھیں گے۔
گوادر کو حق دو تحریک، کے مطالبات کی تفصیل سامنے آ چکی ہے۔ اس میں شراب خانوں کی بندش، چیک پوسٹوں میں کمی اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے مطالبات بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ پانی،اور بجلی کی فراہمی،یونیورسٹی کا قیام، مقامی آبادی کو فنی تعلیم، یہ سب امور ایسے ہیں جن پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنے طور پر ہی کام کرنا چاہیے تھا۔ان کے حق میں تحریک چلانے کی نوبت ہی نہیں آنی چاہیے تھی،لیکن ہمارے ہاں حکومت برائے حکومت کا جو چلن عام ہو چکا ہے،اس نے ہر جگہ بے زاری اور بے چینی کو جنم دے رکھا ہے۔لازم ہے کہ ہر حکومت ہر سطح پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے،اور کسی دباؤ یا احتجاج کے بغیر انہیں پورا کرنے کے لیے کمر بستہ رہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ دھرنا والوں سے جو معاہدہ کیا گیا ہے،اس پر پورا عمل ہو گا،اور کسی مزید احتجاج کی ضرورت در پیش نہیں ہو گی۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو معاہدے پر مبارکباد اُسی وقت دی جائے گی، جب اس کے ایک ایک نکتے پر عمل ہو گا۔اور گوادر کے شہری سُکھ اور چین سے زندگی بسر کر سکیں گے۔ گوادر کی قومی اور بین الاقوامی حیثیت کا اولین تقاضہ یہی ہے کہ وہاں کے رہنے والے ترقی کی دوڑ میں شریک ہوں،اور مستقبل کے امکانات سے بہرہ ور ہونے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ و تیار رکھیں۔