ارے نادانو!خود کو پہچانو 

ارے نادانو!خود کو پہچانو 
ارے نادانو!خود کو پہچانو 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ریسر چ کی دنیا میں ایلن مسک Elon Musk کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ایلن مسک ٹیسلا Teslaکمپنی کا مالک ہے، جس نے پہلی بار انسان کو مریخ میں آباد کرنے کاسو چا۔ اب تو وہ مریخ Mars پر ایک شہر بسانے کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ مریخ کے بارے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ مریخ سورج سے قریب ترین چوتھاسیا رہ ہے اور یہ سیارہ زمین سے تقریباََ54.6   ملین کے فاصلے پر ہے۔ نظام شمسی کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو یہ سیارگان میں دوسرا چھوٹا سرخ سیارہ ہے۔ روم اور یونان کی قدیم تہذیب میں اس کے سرخ رنگ کو خون اور جنگ کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ مریخ کا ایک دن میں زمین کے گرد چکر چوبیس گھنٹے اور 37 منٹ کا ہوتا ہے، ایسا شخص جس کا وزن زمین پر 170 کلوگرام ہوگا مریخ پر اُس کا وزن کم ہوکر صرف 26 کلوگرام رہ جائے گا۔

مریخ پر زمین کے مقابلے میں کششِ ثقل 62% کم ہے اوروہاں ہوا کا پریشراور پانی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔امریکہ کا ریسرچ ادارہ" ناسا" مریخ میں سپیس اسٹیشن بھیجنے میں متعد د بار ناکام ہونے کے بعد بالآخر 1965 میں پہلی بار مریخ پر پہنچ جانے میں کامیاب ہوا اورتب انسانوں کے لیے زندگی کے وجود کا نیا سیارہ دریافت ہوا۔ ایلن مسک کا منصوبہ ہے کہ اب وہ ایک ملین لوگوں کے لیے مریخ میں ایک شہر آباد کرے گااور اس مقصد کے لیے ٹیسلا اور ناسا مل کر کام کررہے ہیں۔ آخرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم زمین کو چھوڑ کر دوسرے سیارے پر زندگی بسر کرنے کے خواہش مند کیوں ہیں؟ اُس کی بنیادی وجوہات میں ایک تو دن بدن زمین پر درجہ حرارت کا بڑھنا، گلیشیرز کا پگھلنا،گلو بل وارمنگ اور دنیا کی آبادی میں تیزی سے اضا فہ اور فیول کا بہت زیادہ استعمال جس کی وجہ سے Ozone Layer پر بہت بُر ے اثرات ہو رہے ہیں۔

اس کے علاوہ اور بھی بے شمار مسائل جن کا اس وقت پوری دنیا کو سامنا ہے جیسے سیلاب، سونامی او ر ز لزلوں کا بہت زیادہ آنا وغیرہ۔ ٹیسلا اور ناسا کے مقاصد میں 2050 تک انسانوں کے لیے مریخ پر ایک شہر آباد کر کے ان کو تمام بنیادی ضروریات مہیا کرکے انھیں نوکریاں دینا بھی شامل ہے۔ ان دونوں کمپنیوں نے مل کر سٹار شپ راکٹ بھی تیار کر لیے ہیں اور ان پردن رات کام ہورہا ہے۔ مسک کا پروگرام ہے کہ ایک ہزار راکٹ بنائے جائیں اور اُن میں بیٹریاں بھی ٹیسلا کمپنی کی استعمال ہوں تاکہ فیول کم سے کم استعمال کیا جائے۔ مختصر سے عر صہ میں راکٹ کی مدد سے مشینوں کو مریخ پر پہنچایا جائے اور اس کے بعد یہ مشینیں وہاں پر انسانوں کے لیے Protective Shelter بنائیں گی۔ جہاں مٹی بہت زیادہ ہوگی وہاں پروٹیکٹوو شیلٹر بنا کر انسانوں کو مٹی کے طوفان اور خشک آب و ہوا سے محفوظ رکھیں گی۔ ان مشینوں میں سنسرزاور کیمرے بھی لگے ہوں گے تا کہ وہاں کی زمین کا اچھے طریقے سے معائنہ بھی کیا جاسکے۔ بعد ازاں مریخ پر انسانوں کاایک گروہ آباد کیا جائے گا جن کے پاس دو سالوں کا مکمل سامان کھانا پانی، آکسیجن اور دوسری تمام بنیادی چیزیں موجود ہوں گی۔ پھر وہاں پلانٹیشن یعنی پودے لگانے کا کام بھی شروع کر دیا جائے گا تاکہ آکسیجن کا حصول ممکن بنایا جائے اس طرح مریخ پر ایک مکمل شہر جس کی آبادی دس لاکھ ہوگی آباد کیا جا ئے گا۔

اِس تحقیق نے مجھے ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا کہ اب انسان پوری کائنات کو مسخر کرنے کے درپے ہے مگر خود اپنی ذات کا شعور حاصل کرنے میں ناکام کیوں ہے اور آج تک مندرجہ ذیل سوالات کا اطمینان بخش جواب دینے سے قاصر ہے۔ میں کون ہوں کیاہوں؟ میری حقیقت کیا ہے؟ میرا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ خاص طور پر اگر ہم اسلامی فلسفے کی بات کریں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کیوں بھیجا ہے، اس کائنات کے وجود کا مقصد کیاہے اور میں اپنی خودی کی شناخت کیسے کرسکتا ہوں وغیرہ۔ مولانا رومؒ نے بڑی خوبصورت بات کہی کہ ”تمہاری ذات ایک بحرِ ِبیکراں ہے، اپنی تلاش کے لیے تمہیں اِس کی گہرائی میں اُترنا ہوگا۔“ تاریخ میں اہل یونان دنیابھر میں فلسفہ، حکمت و دانائی میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں اور اُن کے بار ے مشہور ہے کہ اُن کی ہر درسگاہ کے باہریہ جملہ لکھا ہوتا تھا کہ ”خود کو پہچانو“مگرآج کا انسان اپنی پہچان کو چھوڑ کر کائنات کو مسخر کرنے میں لگا ہوا ہے جبکہ اُس کی ذات کا ادھورا پن ایک لاش بن کر ابھی بھی اُس کے کندوں پر لٹک رہاہے اور کب تک وہ اپنی ذات کو چھوڑ کر کائنات کی الجھنوں اور مادہ پرستی materialism میں پھنسا رہے گا۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں  سفر کر  نہ  سکا

مزید :

رائے -کالم -