دیس اور پردیس کا حال، بلاول کی کارکردگی!

جمعے کا روز مبارک دن ہے اور اُس روز نماز ظہر کی جگہ اجتماعی نماز پڑھنا واجب ہے۔ اُس کے لئے اضافی دو فرض پڑھنا ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں مکمل مذہبی آزادی ہے اور یہاں مساجد بھی ہیں۔ لاہور سے روانگی جمعے کی صبح کو ہوئی، اِس لئے یہ وقت راستے میں گزرا تاہم یہاں نماز جمعہ کی ادائیگی باجماعت ہوئی۔ عظمت نے صبح ہی دریافت کر لیا تھا کہ مسجد چلنا ہے، آمادگی پا کر تیاری بھی کی اور قریبی جامع مسجد گئے جو بلاشبہ ایک خوبصورت مسجد ہے۔ جماعت کے وقت مسجد بھر گئی تھی۔ نماز ادا کرنے والوں میں مختلف ممالک سے آئے حضرات تھے۔ خطیب محترم نے تحمل سے اللہ اور بندے کے تعلق کی بات کی، موضوع دعا تھا اور اُنہوں نے اپنے وعظ کو یہیں تک محدود رکھا، میرا خیال تھا کہ برطانیہ ایک جدید ملک ہے اور یہاں واعظ یقینا قرآن سے استفادہ کرتے ہوئے جدید سائنس کے حوالے سے بھی بات کرتے ہوں گے لیکن خطیب محترم نے ایک تو وقت کم لیا اور یہ عمل روایت سے ہٹ کر ہے،دوسرے وہ موضوع تک محدود رہے،بہرحال یہاں بھی نمازی حضرات سے چندہ لیا گیا اور اُس کا طریقہ چادر لے کر گھومنا نہیں بلکہ پلاسٹک کی ایک بالٹی لے کر ایک معزز مقتدی ہی نے چکر لگایا اور نمازیوں نے بھی اپنی اپنی مٹھی کھولی۔ نماز کے بعد میں نے عظمت سے دریافت کیا کہ کیا یہاں ایسے ہی محتاط وعظ ہوتے ہیں تو اُس کی طرف سے انکشاف ہوا کہ کبھی کبھی نوجوان بھی آتے ہیں اور اُن کے وعظ قرآن و حدیث کے حوالے سے سائنسی فکر لئے ہوتے ہیں۔ یہ نوجوان دین اور جدید علوم سے بہرہ ور ہیں اور لوگ اُن کو تسلی سے سنتے بھی ہیں۔اِس دور میں بھی یہاں بہت اچھا ہے، ابھی میں یہیں ہوں اور مزید موقع ملے گا تو پھر عرض کروں گا۔
جمعہ گزر گیا، آج کا کالم بھی۔اِس ہفتے کا آخری ہے اور اب بھی جن حضرات سے ملاقات ہوئی وہ فکر مند ہیں بلکہ عظمت کے ساتھ موٹر ورکشاپ بھی جانا ہوا، وہاں کا بڑا مستری بھی پاکستانی نژاد ہے۔ خصوصی طو رپر باہر آکر ملا سلام، دعا اور خیرو عافیت کے بعد یہی پوچھا آج (ہفتہ) کیا ہوگا۔ میں نے تسلی دی کہ کچھ نہیں ہوگا یہ سب ہمارے ملک کی سیاست کا انداز ہے۔ میری تسلی اپنی جگہ اُن کی فکر اپنی جگہ تھی۔ میں کیا بتاتا کہ خود بھی گومگو میں ہوں۔ خواہش تو یہی ہے کہ اللہ سب کو اپنے کرم سے نواز دے لیکن آثار بہتر نہیں۔ ہمارے سابق وزیراعظم عمران خان اب بھی بضد ہیں اور خود اپنے بقول وہ آج لبرٹی چوک لاہور میں اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے اعلان بھی کریں گے، یہ کالم اُس وقت سے پہلے تحریر اور کمپوز ہونا ہے اِس لئے میں کوئی حتمی بات کرنے سے قاصر ہوں لیکن یہ عرض ضرور کروں گا کہ یہ بوجھ اُتارنا اتنا بھی آسان نہیں، جتنا خان صاحب نے تصور کر لیا ہے۔ اُن کی یہ دلیل بالکل درست ہے کہ دونوں اسمبلیاں اور قومی اسمبلی کے اراکین تحریک انصاف والی نشستیں خالی ہوگئیں تو یہ عام انتخابات جیسا ماحول ہی ہوگا۔ دوسری طرف سے اب بھی اصرار ہے کہ عام انتخابات وقت پر ہوں گے اور یہ اِس لئے کہ اِن حضرات نے جو یہ بیڑہ اٹھایا تو اِس لئے نہیں کہ خان صاحب کو واک اوور مل جائے، وہ تو یہی چاہیں گے کہ مزید وقت مل جائے اور اُن کی طرف سے جو سخت اقدامات کئے گئے ہیں، اُن کی وجہ سے عوام کو جو مشکلات درپیش ہیں اُن میں کچھ کمی کی جا سکے لیکن یہ کپتان کو منظور نہیں،وہ عوامی مشکلات ہی سے مستفید ہونا چاہتے ہیں اور کسی الزام کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔
میرا اپنا ذاتی خیال اور تجربے کی بناء یہ تجزیہ ہے کہ کپتان نے اسمبلیوں کی تحلیل کو جتنا آسان جان لیا ہے، ایسا بالکل نہیں ہے۔ خود تحریک انصاف کے منتخب اراکین میں بہت سے حضرات ہم خیال نہیں ہیں خصوصاً چودھری پرویز الٰہی اپنے سیاسی تجربے کی بنیاد پر مزید وقت چاہیں گے اور اپنے صاحبزادے مونس الٰہی کے ٹائیگرانہ انداز کے باوجود وہ کپتان کو سمجھا چکے ہیں کہ ابھی پچ باؤنسی ہے اُسے مزید بہتر کر لینے دیا جائے، اگر کسی کو شک ہے تو وہ وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے اِن اقدامات سے اندازہ لگا لے کہ اُنہوں نے نئے اضلاع کا قیام، ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا حتیٰ کہ نئی بھرتیوں کا اہتمام کر لیا ہے۔ وہ اتنے فراخدل ہیں کہ خود اپنا ریکارڈ توڑتے چلے جا رہے ہیں، بہرحال جو کچھ ہونا ہے وہ آج لبرٹی چوک میں ظاہر ہو جائے گا۔ انتظار مجبوری ہے لیکن میں ایک بار پھر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ تحریک انصاف کے سربراہ اور اُن کے ”پُرجوش“ ساتھیوں کے موقف کی وجہ سے ملک میں کسی طور پر بھی استحکام نہیں بن پا رہا اور اُس کی وجہ سے حکومت بھی ایسے سخت اقدامات نہیں کر سکتی جو اتنے مفید ثابت ہوں کہ مہنگائی، بے روزگاری کا خاتمہ ہو اور امن و امان کی حالت بہتر ہو، یوں بھی خیبرپختون خوا اور پنجاب کے دو صوبوں میں تحریک انصاف حکمران ہے اور اِن صوبوں کی بدنظمی اور مسائل کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد نہیں ہوسکتی۔ تحریک انصاف کی طرف سے جو الزام بھی لگایا جائے وہ اُس کی پالیسی ہے لیکن از رؤئے انصاف ان دونوں صوبوں میں مافیاز کو قابو کرنا اور جرائم کو روکنا اِنہی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
میرا خیال تھا کہ آج وزیرخارجہ بلاول بھٹو کے حالیہ دورۂ نیویارک کے حوالے سے عرض کروں گا کہ بلاول کی کارکردگی بہتر ہے، اِس سلسلے میں ایک دلچسپ ویڈیو وائرل کی گئی جس کے مطابق ایک افغان بھائی بلاول کی طرف سے اپنے خطاب میں افغانستان کی خود مختاری اور اندرونی استحکام کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا اُس افغان بھائی کو اِس پر اعتراض تھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ ”تم اپنی سنبھالو! تمہیں پرائی کی فکر کیوں“؟ افغانی لہجے میں اردو بولتے ہوئے وہ جذباتی بھی تھے۔ بلاول نے اپنے حالیہ دورۂ نیویارک میں تقریریں کیں تو پریس کانفرنس کے علاوہ انٹرویو بھی دیئے، یوں اُنہیں یہ آسانی بھی میسر رہی کہ یہ سب انگریزی میں تھا، اگرچہ اب تک اردو کافی بہتر ہو چکی لیکن اتنی روانی نہیں جتنی درکار ہے۔ بہرحال بلاول نے بڑے عمدہ انداز سے سیلاب کی کیفیت، دہشت گردی، افغانستان اور تنازعہ کشمیر کے حوالے سے اپنا موقف بیان کیا اور اِسے پذیرائی بھی ملی۔ یہ درست کہ خارجہ امور کے بارے میں ہمارے ملک کی پالیسی طے شدہ ہے لیکن عالمی فورموں پر اِس حوالے سے اپنے موقف کو دلائل سے بیان کرنا ایک فن ہے اور بلاول بھٹو نے اچھے انداز میں بات کی، خصوصاً دہشت گردی اور تنازعہ کشمیر کے حوالے سے زور دار انداز میں بات کی۔ آصف علی زرداری نے بلاول کے مستقبل کو سوچتے ہوئے ہی اُس کے لئے خارجہ امور کی وزارت لی۔ اُس کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کا یہ میدان تھا تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی ہمیشہ یہ قلمدان اپنے پاس رکھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب موجودہ پاکستان کا اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل ہوا تو بے نظیر بھٹو زیر تعلیم تھیں،وہ لندن سے اسلام آباد آئیں تو اُنہوں نے وزارت خارجہ میں وقت گزارا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی وزارت خارجہ اپنے ہی پاس رکھی تھی۔
بلاول نے حالیہ دنوں میں چمن کی سرحد پر ہونے والے حادثات اور 16دسمبر کے حوالے سے سانحہ ملٹری سکول کا بھی خصوصی ذکر کیا،اب تو اُن کے جیالوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ اپنی کارکردگی کی وجہ سے بلاول عالمی سطح پر مقبول ہو گئے۔ یہ حضرات شاہ محمود قریشی کا موازنہ بھی کرنے لگے ہیں۔کارکنوں کے اپنے انداز ہیں۔ بہرحال بلاول بھٹو کی کارکردگی کو تو خود وزیراعظم محمد شہبازشریف نے بھی سراہا ہے۔بلاول نے دیگر موضوعات کے علاوہ ملکی سیاست پر بھی بات کی اور اتحادی حکومت ہی کے موقف کو دہرایا کہ عمران خان کے خلاف جمہوری روایات اور قواعد کے مطابق عدم اعتماد منظور کی گئی اور اب عام انتخابات بھی وقت پر ہوں گے۔ میرے نزدیک دفتر خارجہ نے بھارت کی طرف سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا اور ڈوزیئر تیار کرکے پہلے حنا ربانی کھر نے یہاں بیان کیا تو بلاول نے نیویارک میں عالمی طاقتوں سے بھارت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا اور دلائل سے بات کی۔ یہ ضرورت ہے اور ہمارے دفتر خارجہ کا بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا بھی لازم ہے، بلاول نے یہ عمل اچھے انداز سے کیا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات سے بھی میرے اندازے کی تصدیق ہوتی ہے کہ چودھری پرویز الٰہی نے جمعہ کی رات مونس الٰہی کو ساتھ لے کر راولپنڈی کا دورہ کیا۔ آدھی رات کو مونس الٰہی اپنے بھائی کے ساتھ عمران خان سے ملے؟ پھر واپس والد کے پاس آئے، پھر گئے، یوں مذاکرات ہوتے رہے، اب بڑا سوال یہ ہے کہ کس نے کس کو قائل کیا، یہ آج عمران خان کے خطاب سے علم ہو جائے گا۔
٭٭٭٭٭