ڈرون حملوں پر امریکیوں کی تنقید

ڈرون حملوں پر امریکیوں کی تنقید

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پچھلے دس سال میں پہلی بار امریکی کانگریس کے ایوان سینٹ میں ڈرون حملوں پر نئی، مگر جامع بحث گزشتہ ہفتے دیکھنے میں آئی۔ بحث کا آغاز اس وقت ہوا، جب امریکی محکمہ انصاف کی طرف سے ایک میمو سامنے آیا، جس میں یہ کہا گیا کہ اگر ڈرون حملوں میں وہ امریکی، شہری جو خطرے کی تعریف پر پورے اُترتے ہوں، بھی مارے جائیں تب بھی یہ قابل قبول ہیں اور ان کا قانونی اور اخلاقی جواز موجود ہے۔ امریکی محکمہ انصاف کے اس16صفحات پر مشتمل اس میمو کو این بی سی نیوز نے ٹیلی کاسٹ کیا ہے۔ اس دستاویز کو امریکہ میں شخصی آزادی کی یونین نے حیرت انگیز قرار دیا۔ اس دستاویز کے سامنے آنے کے بعد کئی امریکی سینیٹرز نے اس دستاویز کا نوٹس لیتے ہوئے امریکی انتظامیہ سے وضاحت طلب کر لی، جبکہ نو امریکی سینیٹرز نے باقاعدہ امریکی صدر اوباما کو خط لکھا کہ سینیٹ میں ان خفیہ دستاویزات کو سامنے لایا جائے، جن کی رو سے ڈرون حملوں کو قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہے۔
صدر اوباما نے امریکی محکمہ انصاف کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ خفیہ دستاویزات بحث کے لئے فوری طور پر سینیٹ ممبران کو دکھائی جائیں۔ امریکی صدر کے انسداد دہشت گردی کے مشیر اور حال ہی میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے نامزد سربراہ جان برینن اپنے عہدے کی توثیق کرانے جب سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے، تو کمیٹی ممبران کی جانب سے انہیں تندو تیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی سینیٹ ممبران کی اکثریت کو ان دستاویزات کے بارے میں شدید تحفظات ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملوں میں اگر امریکی شہریوں کی بھی اموات ہو جائیں، تب بھی امریکی ڈرون حملوں کو قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہے۔ امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے جان برینن نے ڈرون حملوں کے پروگرام کا دفاع کیا اور کہا کہ ڈرون ٹیکنالوجی کو آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور اس بات کی پوری کوشش کی جاتی ہے کہ ان ڈرون حملوں میں سویلین اموات کم سے کم ہوں۔
 پاکستان کے خلاف ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال 2004ءمیں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لینے والے دہشت گردوں کے خلاف کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق آج تک امریکہ نے مختلف ممالک میں تقریباً 400 ڈرون حملے کئے ہیں۔ سب سے زیادہ ڈرون حملے پاکستانی علاقوں میں کئے گئے، جن کی تعداد تقریباً 350 ہے۔ امریکی فاﺅنڈیشن کے مطابق اب تک ڈرون حملوں سے تقریباً 4000لوگ مارے گئے ہیں، جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ اس بارے میں اعداد و شمار دینے سے قاصر نظر آتا ہے۔ سیاسی و دفاعی ماہرین کے مطابق اس وقت امریکی انتظامیہ ڈرون حملوں کی پالیسی پر اندرون اور بیرون ملک شدید دباﺅ کا شکار ہونے کے باوجود اپنی ڈرون پالیسی پر پوری طرح ڈٹی نظر آتی ہے۔ پچھلے دس سال میں پہلی بار ڈرون حملوں کی وجہ سے امریکی انتظامیہ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گو کہ یہ تنقید ڈرون حملوں میں کسی دوسرے ملک کے شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس میمو کے حوالے سے کی گئی، جس کے مطابق ڈرون حملوں میں امریکی شہریوں کی ہلاکتوں کو بھی جائز قرار دے دیا گیا۔

 پاکستان جو ہمیشہ کسی نہ کسی طرح ڈرون حملوں کی مخالفت کرتا آیا ہے، گزشتہ ہفتے امریکہ میں پاکستان کی سفیر شیری رحمن نے امریکی صحافیوں کو دیئے گئے ناشتے میں اس بات کا ایک بار پھر برملا اظہار کیا کہ ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی خود مختاری کے بھی خلاف ہیں اور پاکستان نے کبھی ڈرون حملوں کی حمایت نہیں کی۔ اس کے ساتھ شیری رحمن نے یہ بھی کہا کہ ڈرون حملے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون میں سرخ لائن ہیں۔ شاید پہلی بار پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ ڈرون حملوں پر مشکلات کی شکار امریکی انتظامیہ پر سفارتی دباﺅ ڈال کر خاطر خواہ نتائج حاصل کر سکتا ہے۔ عالمی سیاست اور دہشت گردی پر گہری نظری رکھنے والے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال میں بڑی احتیاط برتنا ہو گی۔ ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال سب سے پہلے امریکہ نے کیا، اس لئے بعض ماہرین کے مطابق اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے امریکہ پر بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کا استعمال کم سے کم اور اس کا ہدف بڑا واضح ہو، کیونکہ اس وقت دُنیا کے50مختلف ممالک اِس ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔ اگر اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال شروع ہوا تو باقی ممالک جو اس پر کام کر رہے ہیں ان کو بھی روکنا ممکن نہیں ہو گا اور یہ سوچ مستقبل کے امن کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے غلط اور بے جا استعمال کے شواہد بھی موجود ہیں اور امریکی خفیہ ادارے کے سربراہ جان برینن نے اِس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ ڈرون حملوں میں عام لوگوں کی اموات بھی ہوئی ہیں، تو اس نئی بحث کے بعد اِس بات کے بھی قوی امکان موجود ہیں کہ شائد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی دوسری طاقت کھل کر امریکہ کی ڈرون پالیسیوںپر تنقید کرے، کیونکہ دُنیا کی مختلف انسانی حقوق کی تنظیمیں پہلے امریکہ پر کڑی تنقید کر چکی ہیں اور اب امریکہ کے اقتدار کے ایوانوں کے اندر بھی ڈرون حملوں پر تنقید کی آوازیں بڑی آسانی سے سنی جا سکتی ہیں۔  ٭

مزید :

کالم -