امن کے بغیر شفاف انتخابات، ایک خواب!
کوئٹہ میں ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلی گئی، پھر چند مذمتی بیانات آئے، پھر حکومتی سطح پر اظہار بے بسی اور بے حسی ہوا اور معاملات جوں کا توں چلتے رہے۔ ایک خاص قبیلے کے افراد کو ہدف بنانے کا سلسلہ نہیں رک سکا، حالانکہ وہاں گورنر راج بھی نافذ کیا گیا۔ کوئٹہ کو شہر بے اماں بنا دیا گیا ہے اور حکومتی یا سیاسی سطح پر کوئی ایسی پالیسی سامنے نہیں آ رہی، جو اس بڑھتی ہوئی خون ریزی کا راستہ روک سکے، جو سب سے اہم سوال اُٹھ رہا ہے۔ اُس کا جواب حکومت کے پاس ہے اور نہ الیکشن کمیشن کے پاس۔ اس خون ریزی کی موجودگی میں کیا انتخابات کے پُرامن انعقاد کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اگر پولنگ سٹیشنوں کو محفوظ بنا بھی دیا جائے تو ووٹرز کویہ احساس تحفظ کون دے گا کہ وہ گھروں سے نکلیں اور ووٹ ڈالیں، جہاں آئے روز خونی واقعات ہوتے ہوں، وہاں جلسے جلوس کیسے ہوں گے اور اگر ہوئے تو ان میں جان و مال کی ضمانت کون دے گا؟ بات صرف کوئٹہ یا بلوچستان تک محدود نہیں۔ کراچی بھی آتش فشاں بنا ہوا ہے اور خیبر پختونخوا میں بھی امن ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ اس قدر گھمبیر صورت حال کے باوجود اگر آپ سیاسی و حکومتی سطح پر سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو وہاں اس اہم ترین مسئلے کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر نظر آئے گی۔ سارا زور ایک دوسرے کے بندے توڑنے، نگران سیٹ اَپ اپنی مرضی کا لانے اور نئے سیاسی اتحادوں کی تشکیل پر دیا جا رہا ہے۔ روم جل رہا تھا اور نیروبانسری بجا رہاتھا، اس کی عملی تعبیر دیکھنی ہو تو آج کل پاکستان میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ اے این پی نے پچھلے دنوں امن کے نام پر سیاسی جماعتوں کی جو کانفرنس بلائی، اس کا سارا فوکس تحریک طالبان سے مذاکرات پر رکھا گیا۔ ملک میں بدامنی کا یہ ایک عنصر ضرور ہو سکتا ہے، لیکن اسے ہر مسئلے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ تحریک طالبان سے مذاکرات کی قرار داد تو منظور کر لی گئی۔ اسے عملی جامہ کس نے پہنانا ہے۔ اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان نے مذاکرات کی اس پیشکش کو غیر سنجیدہ قرار دے کر رد کر دیا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں بہت سے کام صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے کئے جاتے ہیں۔ بظاہر کچھ نظر آتا ہے اور اندر خانے کچھ اور ہوتا ہے۔ اگر تحریک طالبان سے مذاکرات کے فیصلے کو حکومتی سپورٹ حاصل ہے تو پھر کوئی ایسا طریقہ ءکار اور ایجنڈا وضع کیوں نہیں کیا گیا، جس پر عملدرآمد کے لئے حکومتی سطح پر آغاز کیا جائے۔ صرف عوام کو یہ تاثر دینے کے لئے کہ ہم دہشت گردی اور بدامنی کے خلاف بہت سنجیدہ ہیں۔ ایک آل پارٹیز کانفرنس بلا لینے سے عملی طور پر ملک کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے، اس کا جواب شاید ہی کوئی دے سکے۔
بدامنی کے سونامی کو صرف تحریک طالبان کے کھاتے میں ڈال کے اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑا لینا، ایک سفاکانہ عمل ہے۔ بدامنی کی اصل وجہ حکومت کی بے عملی اور مصلحت کوشی ہے۔ کیا کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے افراد سے جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ تحریک طالبان کرا رہی ہے؟.... سب جانتے ہیں کہ یہ فرقہ وارانہ کشیدگی کا نتیجہ ہے۔ اس مسئلے کو جب تک صحیح معنوں میں پورے سیاق و سباق کے ساتھ نہیں دیکھا جائے گا، کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ صرف سٹیریو ٹائپ بیانات سے جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو طفل تسلیاں تو دی جاسکتی ہیں۔ اس خون ریزی کا سد باب نہیں کیا جاسکتا۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے اس میں غیر ملکی ہاتھ کا اشارہ دیا ہے تو گورنر بلوچستان نے یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں کہ کوئٹہ میں دہشت گردوں کو روکنا انتظامی اداروں کے بس میں نہیں۔ ایک طرف سارا زور انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے ضابطوں کی تشکیل پر دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف دہشت گردوں اور بدامنی کے مرتکب افراد اور گروہوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی کو ہی دیکھ لیں، وہاں ٹارگٹ کلنگ نے زندگی کو مفلوج کر رکھا ہے۔ وہاں علمائے کرام کی ٹارگٹ کلنگ بھی جاری ہے اور دیگر افراد کی بھی۔حیرت ہے کہ کراچی پر آج تک کسی نے نمائندہ آل پارٹیز کانفرنس نہیں بلائی اور اسے معمول کا مسئلہ سمجھ لیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم حال ہی میں بدامنی اور ٹارگٹ کلرز کو چھوڑنے کے مسئلے پر حکومت سے علیحدہ ہوگئی ہے۔ اسے سنجیدہ حلقے ایک سوچی سمجھی سکیم قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہہے کہ ایم کیو ایم، اے این پی کی آل پارٹیز کانفرنس میں تو شریک ہوتی ہے۔ کراچی میں بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کا بیڑہ کیوں نہیں اٹھاتی؟ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ کراچی میں طالبان بدامنی کا بڑا سبب ہیں۔ دوسری طرف لیاری گینگ وار کے مجرموں کو چھوڑنے کا الزام دے کر ایم کیو ایم حکومت سے نکل گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایم کیو ایم کے اس فیصلے سے کراچی میں امن ہو جائے گا؟ اس کا جواب خود متحدہ قومی موومنٹ والے بھی اثبات میں نہیں دے سکتے تو ایسے میں گھوم پھر کر سوال پھر اسی نکتے پر آ رکتا ہے کہ حالات میں حقیقی تبدیلی کیسے آئے گی اور کیسے وہ پائیدار امن قائم ہوگا جو اب ایک خواب بن چکا ہے۔ اگر حالات اسی طرح رہتے ہیں تو شفاف انتخابات کا انعقاد کراچی میں کیسے ہو سکے گا۔ حالت تو یہ ہے کہ ووٹرز لسٹوں اور نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کا سلسلہ ابھی سے جاری ہے۔ اگر انتخابات کے دورا ن اس میں دہشت گردی اور بدامنی کا عنصر بھی پوری شدت سے شامل ہوگیا تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ صورت حال کیا ہوگی۔
کراچی اور کوئٹہ میں امن و امان کی مخدوش صورت حال کے باعث یہ مطالبہ ہمیشہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہاں فوج بھیجی جائے۔ کچھ عرصہ پہلے کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے افراد نے لاشیں سڑک پر رکھ کر جو دھرنا دیا تھا، اس کا مطالبہ بھی یہی تھا کہ کوئٹہ کو فوج کے حوالے کیا جائے۔ ان کا یہ مطالبہ تو تسلیم نہ کیا گیا، البتہ گورنر راج نافذ ہوگیا۔ کراچی میں فوج بھیجنے کا اکثر سیاسی جماعتیں مطالبہ کرتی رہی ہیں، حتیٰ کہ عروس البلاد کے تاجر، صنعت کار اور دیگر طبقے بھی اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں، مگر حکومت نے یہ مطالبہ نہیں مانا۔ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ سندھ پولیس کراچی میں سماج دشمنوں کی آلہ کار ہے۔ ساڑھے چار سو سے زائد پولیس ملازمین باقاعدہ جرائم پیشہ ہیں، جن کی فہرست سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ہے اور انہیں لائن حاضر بھی کر دیا گیا ہے۔ جہاں تک رینجرز کا تعلق ہے تو اپنے 23 سالہ دور میں وہ بڑی حد تک ناکامی سے دو چار ہوئی ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں، تاہم یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ آج رینجرز بھی کراچی کا امن قائم کرنے میں پولیس کی طرح ناکام ہو چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب آئین میں یہ شق موجود ہے کہ منتخب حکومتیں اپنی مدد کے لئے فوج کو طلب کر سکتی ہیں تو پھر آئین کی حدود میں رہتے ہوئے ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟ کراچی اور کوئٹہ میں امن و امان کے حوالے سے جس طرح کے حالات ہیں۔ انہیں دیکھتے ہوئے ایک عام آدمی بھی کہہ رہا ہے کہ بڑے آپریشن کے بغیر بہتری کا کوئی امکان نہیں۔ پانچ سال پورے کرنے کا کریڈٹ لینے والی حکومت کو اس بات کا ڈس کریڈٹ بھی لینا چاہئے کہ وہ ملک کو معاشی بہتری کے ساتھ ساتھ معاشرتی امن دینے میں بھی بری طرح ناکامی رہی ہے۔ ٭