اےن اے 162ساہیوال سےاسی دھرنے بندیاں عروج پر برادریوں کے علاوہ مکاتب فکر کے علماءبھی نتائج پر اثرانداز ہوںگے
لاہور (شہباز اکمل جندران، معاونت الطاف الرحمن بیوروچیف)ہڑپہ جیسی ہزاروں سال قدیم تہذیب کے حامل قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 162میں سیاسی دھڑے بندیاںعروج پر جاپہنچیں۔ مختلف امیدواروں کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔حلقہ این اے 162ساہیوال نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں بننے والاضلع کا اہم ترین حلقہ ہے جو الیکشن کے حوالہ سے مشکل ترین حلقہ ہے ۔ اس میں چیچہ وطنی اور ساہیوال دو تحصیلوں کے قصبہ جات اور چکو ک شامل ہیں۔ یہ حلقہ ڈیرہ رحیم تھانہ سے ہڑپہ شہر ہڑپہ سٹیشن، دریائے راوی کے چکوک اور دوسری طرف چیچہ وطنی شہر سمیت 14/L,12/L,11/L,10/Lکے چکوک ،غازی آباد سے ہوتا ہوا بوریوالہ ضلع وہاڑی کی حدود تک محیط ہے۔ ووٹرز کی کل تعداد 790،2,94ہے جن میں سے مردوں کے ووٹ 1,69,255اور خواتین کے 1,25,535ہیں ۔ اس کے ساتھ متعلقہ حلقة جات صوبائی اسمبلی پی پی 223اور پی پی 224ہیں جن میں ووٹوں کی تعداد بالترتیب1,38,764اور 1,67,568ہے۔ اس حلقہ میں ووٹرز کی بڑی تعداد آرائیں اور رجپوت برادری سے تعلق رکھتی ہے۔ چیچہ وطنی شہر اور نواحی دیہات میں دیوبندی ، بریلوی اور اہل تشیع علماءاپنے اپنے انداز میں انتخاب پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ یہ حلقہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہاں سے رائے فیملی ہر قسم کے انتخابات میں اثرانداز اور بھرپور انداز سے حصہ لیتی ہے ۔ ساہیوال ضلع کی سیاست پر ان کے گہرے نقوش ہیں ۔وزےر اور ڈسٹرکٹ کونسل کے چئیرمین سے ممبران قومی اسمبلی ،صوبائی اسمبلی اور دوبارضلع ناظم ساہیوال کی کرسیوں پر متمکن ہونے کا اعزاز چیچہ وطنی کے معروف رائے فےملی کے پاس ہے ۔ رائے محمداقبال خاں(مر حوم)، رائے احمد نواز خاں(مر حوم) اور رائے علی نواز خان (مر حوم)کے بعد اس گھر سے انتخابی جنگ لڑنے والوں میں رائے حسن نواز خاں سابق ضلع ناظم ساہیوال ، رائے عزیز اللہ خاں سابق ممبرقومی اسمبلی اور رائے مرتضیٰ اقبال جیسے سپوت شامل ہیں ۔ خاندان شروع سے ہی مسلم لیگی رہا ہے ۔ اور مسلم لیگ ہی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑتا ہے ۔ 2002ءمیں جب مسلم لیگ (ن) کی قیادت وطن سے باہر تھی رائے حسن نواز خان نے سیاست سے الگ رہنے کی بجائے مسلم لیگ (ق)کے پلیٹ فارم سے ضلع ناظم کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے ۔ 2002ءکے عام انتخابات میں رائے عزیز اللہ خان مسلم لےگ (ق) کے ٹکٹ پر حلقہ NA/162کی سیٹ سے میدان میں اترے اور 74000ریکارڈووٹوں سے کامیاب ہوئے۔ ان کے مدمقابل پیپلزپارٹی کے امیدوار ان سے تیس ہزارووٹوں سے شکست کھاگئے۔ 2004ءمیں دوبارہ ضلع ناظم کے الیکشن میں رائے حسن نواز خاں کے چوہدری پرویزالہٰی سے اختلافات کی وجہ سے انہوں نے ضلع ناظم کا الیکشن آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑا اور حکومت وقت سے ٹکرلے کر واضح اکثریت سے جیتا لیکن 2008ءکے الیکشن میں رائے عزیز اللہ خاں نے این اے 162سے الیکشن آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑا ۔ دونوںبڑی جماعتوں کی موجودگی میں وہ جےت تو نہ سکے لیکن 65400ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے 2008ءکے الیکشن مےں حلقہ NA/162 میں دلچسپ امر یہ تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو اس حلقہ سے کوئی امیدوارنہ مل سکا ۔ 2012ءمیں اس حلقہ سے منتخب ہونے والے پیپلزپارٹی کے ممبرقومی اسمبلی چوہدری زاہداقبال دہری شہریت کی نیاپر نااہل ہوگئے ۔ ضمنی الیکشن تک انہوں نے قانونی تقاضے پورے کر کے دوبارہ ضمنی الیکشن میں حصہ لیا ۔ اس دوران رائے عزیز اللہ خاں اور رائے حسن نواز خاں پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے۔ میدان خالی چھوڑنے کی بجائے رائے حسن نواز خاں نے ضمنی الیکشن آزاد لڑنے کا فیصلہ کیا۔ چوہدری زاہد اقبال پیپلزپارٹی کو داغ مفارقت دے کر عین وقت پر مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوگئے ۔ بس پھر کیا تھا انہیں پنجاب حکومت کی بھرپورحمایت ملی ۔ پٹواری تحصیلدار ،پولیس سے لے کر ممبران قومی وصوبائی اسمبلی اورحمزہ شہباز تک سب نے ساہےوال مےں ڈیرے ڈال دیئے تھے۔ اس طرح زاہداقبال ایم این اے منتخب ہو گئے ۔ حلقہ پی این اے 162میں ارائیں اور راجپوت ود بڑی برادریاں آباد ہیں ۔ باقی برادریاں ملی جلی ہیں ۔ کچھ پیر علماءدین اور تاجران اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ جن میں پیرشیخو شریف والے، پیر سیدآصف گیلانی ، پیر سید محی الدین گیلانی ، تونسہ شریف والے خواجہ حافظ جمال تونسوی ، خواجہ انجم الحسن اور خواجہ نورمحمدکے نام شامل ہیں ۔ مفتی محمدعثمان علمائے دیوبند کے سرکردہ عالم دین ہیں ۔ جن کا تعلق جمعیت علماءاسلام(ف) سے ہے ۔ ان پیروں کے مریدین کی بہت بڑی تعداد اس حلقہ میں آباد ہے ۔ 2013ءکے متوقع الیکشن میں اس حلقہ میں سب سے بڑا مقابلہ ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کے راہنما اور سابق ضلع ناظم ساہیوال رائے حسن نواز خاں اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کے چوہدری زاہد اقبال کے درمیان ہو گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ابھی تک علی فرید کاٹھیا ہی امیدوار ہیں جو ضمنی انتخاب میں بری طرح شکست کھاگئے تھے ۔ علاوہ ازیں عمران بھلر جٹ بھی امیدوار ہیں ۔ جو جماعت اسلامی کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ بہرحال ایک بات طے ہے کہ اصل جوڑ رائے حسن نواز خاں اور چوہدری زاہد اقبال میں ہی پڑے گا لیکن اس بار زاہد اقبال کے پیچھے سرکاری مشینری نہ ہوگی ۔ جسکی وجہ سے رائے حسن نواز خاں کا پلڑا بھاری رہنے کا امکان ہے ۔ اس حلقہ سے متعلقہ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 223ک میں 2008ءکے انتخابات میں بہت بڑا اپ سیٹ ہوا تھا ۔ جہاں کئی عشروں سے صاحب اقتدار محمد ارشد خاں لودھی کو پیپلزپارٹی کے نوجوان چوہدری حفیظ اختر نے3100 ووٹوں سے شکست دے کرپنجاب کا بڑا برج الٹا دیا تھا۔ محمدارشد خاں لودھی اُس وقت مقتدر مسلم لیگ (ق) کے مرکزی سنیئر نائب صدر بھی تھے ، اب وہ دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکے ہیں ۔ چوہدری حفیظ اختر کو اس حلقہ میں آباد آرائیں برادری کی مضبوط حمایت حاصل ہے ۔ تیسرے امیدوار معروف سیاسی گھرانے کے مظہر فرید دادڑہ ہونگے جو تحریک انصاف کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ سکتے ہیں ۔ جےت کس کی ہو گی وہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ صوبائی اسمبلی کے دوسرے حلقہ پی پی 224میں صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ 2008ءکے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امید وار شہزاد سعید چیمہ 3600ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے ۔ ان کے مدمقابل آزاد امیدوار او رسابق ممبر صوبائی اسمبلی وحید اصغر ڈوگر جنہےں رائے حسن نواز کی حماےت حاصل تھی، دوسرے نمبر پر رہے۔ ایک اور اہم بات یہ تھی کہ اس حلقہ سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار نذرحسین کاٹھیا صرف 3500ووٹ لے سکے تھے۔ 2013ءکے متوقع اہم امیدوار اب بھی شہزاد سعےدچیمہ اور وحید اصغر ڈوگر ہی ہےں ۔مسلم لےگ (ن) کے امےد وار کا نام سامنے آنے پر صورتحال وا ضح ہو گی اور وہ امےدوار چو ہدری زاہد اقبال کے اعتماد کا ہی ہو گا ۔الےکشن مہم شروع ہو نے اور تمام امےدواروںکے نام فائنل ہو نے پر ہی پےشنگوئی کی جا سکے گی کہ فتح کا تاج کس کے سر سجے گا ۔لےکن اےک بات طے ہے کہ ان حلقہ جات مےں کامےاب ہو نے والے ملکی سےاست مےں اہم رول ادا کرےں گے۔ اس علاقہ کے مسائل مےں دےہات کو بجلی کی فرا ہمی ،سڑ کوں کی تعمےر ،دےہات مےں سولنگ،نالےاں ،سےورےج،پےنے کے پانی کی فراہمی اور کسانوں کی بہبود شامل ہے ۔کھالوں کی پختگی جو ضلعی حکومتوں کے دور مےں کمےونٹی بورڈز کے تو سط سے شروع ہوئی تھی اور کسان خوش تھے وہ التوا کا شکار ہے ۔نہری پانی کی ٹےل تک فراہمی بھی ضروری ہے ۔ان حلقہ جات مےں تعلےمی سہولےات کی بہتر فراہمی ،علاج معا لجہ کےلئے محکمہ صحت کی مزےد ڈسپنسرےوں اور ہےلتھ سنٹرز کا قےام اےسے وعدے ہےں جنہےں بنےاد بنا کرا نتخابات مےں حصہ لےنے والے امےدوار اپنی انتخابی مہم پر زور طرےقے سے شروع کر سکتے ہےں
این اے 162