کون بنے گا گورنر پنجاب؟

کون بنے گا گورنر پنجاب؟
کون بنے گا گورنر پنجاب؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

صوبہ پنجاب گورنر اور وزیراعلیٰ کے درمیان ہمیشہ سے ’’پانی پت‘‘ کا میدان ہی ثابت ہوا ہے، نجانے کیا بات ہے کہ پنجاب واحد صوبہ ہے، جہاں کے گورنر اور صوبائی اسمبلی کے سپیکر کے دل میں اچانک وزیراعلیٰ بننے کی خواہش جاگ پڑتی ہے، مگر پاکستان کے دیگر صوبوں کے حالات کا اگر موازنہ کیا جائے، تو وہاں کے گورنر اور وزیراعلیٰ کے درمیان بس چھوٹی موٹی ’’جھڑپ‘‘ ہی ہوتی ہے جو کبھی بڑی جنگ میں نہیں بدلی۔ اس وقت سندھ واحد صوبہ ہے،جہاں ایک عرصے سے ایم کیو ایم کے نامزد گورنر کام کر رہے ہیں، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ گورنر سندھ کے جنرل پرویز مشرف کے دور کے وزراء اعلیٰ کے ساتھ بھی بہت اچھے تعلقات تھے اور اب پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ کے ساتھ بھی ان کے تعلقات مثالی ہیں، حالانکہ ایم کیو ایم اور وزیراعلیٰ سندھ کے درمیان اکثر و بیشتر سیاسی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ ایم کیو ایم کبھی حکومت میں شامل ہو جاتی ہے اور کبھی باہر نکل آتی ہے، آج کل بھی وہ حکومت سے باہر ہے، مگر کسی بھی وقت شامل بھی ہو سکتی ہے، ان سخت حالات کے باوجود گورنر سندھ نے کبھی وزیراعلیٰ سندھ کے حوالے سے کوئی بیان بازی نہیں کی، حالانکہ اس وقت ایم کیو ایم کو سندھ میں جاری آپریشن پر بہت سے اعتراضات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپریشن کے نام پر ان کے کارکنوں کو ہراساں کر کے انہیں اچانک غائب بھی کر دیا جاتا ہے۔
گورنر سندھ نے بظاہر نہ تو اس پر کبھی کوئی اعتراض کیا ہے اور نہ ہی ایم کیو ایم کو اپنے گورنر سے کوئی گلہ ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے بارے میں وزیراعلیٰ سے احتجاج کیوں نہیں کرتے۔ سندھ میں تاجروں سے بھتہ لینے کے واقعات بھی روزانہ ہو رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ کراچی کے تاجروں کی ایک بہت بڑی تعداد ایم کیو ایم سے وابستہ ہے، مگر اس حوالے سے بھی گورنر سندھ نے کبھی کوئی آواز بلند نہیں کی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ گورنر سمجھتے ہیں کہ صوبے کے حالات کو درست رکھنے کی ذمہ داری وزیراعلیٰ کی ہے اور اس حوالے سے جوابدہ بھی وزیراعلیٰ ہیں۔ ممکن ہے کہ گورنر سندھ اور وزیراعلیٰ سے ملاقات کے دوران اپنے تحفظات سے انہیں آگاہ کرتے ہوں، مگر بظاہر دونوں کے درمیان کبھی کوئی بیان بازی یا اختیارات کے حوالے سے اختلافات کی بڑی ’’خبر‘‘ سامنے نہیں آئی۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں بھی حالات بظاہر بہت اچھے ہیں، حالانکہ وہاں کے گورنر مسلم لیگ(ن) کے باقاعدہ عہدیدار رہے ہیں اور مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کی خواہش پر ہی خیبرپختونخوا کا گورنر بنایا گیا ہے۔
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، جو کہ مرکز میں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کی خواہش رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کے قائد چار ماہ تک اسلام آباد کے ڈی چوک میں حکومت کے خلاف ’’دھرنا‘‘ دے کے بیٹھے رہے، مگر گورنر خیبرپختونخوا نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کے ساتھ تعاون کی فضا بنا رکھی ہے۔خیبرپختونخوا کے مسائل کے حوالے سے بہت سے لوگ آواز بلند کرتے ہیں، مگر گورنر خیبرپختونخوا سمجھتے ہیں کہ آئینی طور پر وزیراعلیٰ ہی صوبے کے مسائل کو حل کرنے کے ذمہ دار ہیں اور وزیراعلیٰ ہی کو چاہئے کہ وہ عوامی مسائل کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے گورنر وہاں کے سماجی معاملات کو حل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے بھی کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ اور گورنر کے درمیان بظاہرکوئی جھگڑا نہیں، دونوں اپنے اپنے آئینی و قانونی اختیارات کے اندر رہتے ہوئے امورِ حکومت سرانجام دینے میں مصروف ہیں، مگر صوبہ پنجاب کے کسی بھی گورنر کو اچانک اپنی بے اختیاری کا خیال آ جاتا ہے اور پھر وہ وزیراعلیٰ کے بارے میں برملا اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے صوبے کے معاملات کے حوالے سے طرح طرح کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ بعض کا خیال ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کسی بھی گورنر کو خاطر میں نہیں لاتے اور وہ نیچے سے اوپر تک کے اختیارات اپنے پاس رکھتے ہیں۔

ممکن ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے بارے میں اٹھائے جانے والے یہ اعتراضات درست ہوں، مگر اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ آئینی طور پر گورنر کا عہدہ ایک ’’نمائشی‘‘ عہدہ ہے اور اس کے مقابلے میں وزیراعلیٰ کا عہدہ اپنے اندر بے پناہ طاقت رکھتا ہے۔ وزیراعلیٰ کو جہاں صوبے کے معاملات چلانے ہوتے ہیں، وہاں اپنی پارٹی سے وابستہ ایم پی ا یز اور ایم این ایز کو بھی خوش رکھنا ہوتا ہے۔ عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی طرف سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل بھی کرنی ہوتی ہے اور پھر دوبارہ انتخابات کی صورت میں پنجاب بھر کے عوام کے سامنے حاضر بھی ہونا پڑتا ہے،یعنی وزیراعلیٰ براہ راست عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اور اپنی کسی بھی سیاسی یا سرکاری کوتاہی کے بدلے اسے عوام کے غیظ و غضب کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کی پارٹی کو عام انتخابات میں شکست بھی سہنی پڑتی ہے۔ پنجاب کے حوالے سے تازہ ترین اختلاف چودھری محمد سرور کے حوالے سے سامنے آیا۔ چودھری محمد سرور لندن میں بہت بڑی سماجی اور سیاسی شخصیت کے طور پر جانے پہچانے جاتے تھے، مگر پاکستان کے عوام میں ان کی کوئی نمایاں سیاسی حیثیت نہیں تھی۔
نواز شریف نے انہیں لندن سے بُلا کر ’’لاٹ صاحب‘‘ کے منصب پر بٹھایا۔ نواز شریف کا خیال تھا کہ ’’لاٹ صاحب‘‘ کے عہدے پر بیٹھنے کے بعد پنجاب حکومت کے لئے ایک دوست گورنر کا کردار ادا کریں گے گو کہ چودھری محمد سرور کو گورنر بنائے جانے کے موقع پر بہت سے لوگوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ہمارے پیارے عطا الحق قاسمی نے بھی اپنے کالم میں چند ’’سطریں‘‘ لکھ دی تھیں، جن پر بہت سے لوگوں نے کہا کہ عطا الحق قاسمی خود گورنر کے امیدوار ہیں۔ میرے خیال میں عطا الحق قاسمی گورنر کے عہدے کے امیدوار ہر گز نہیں تھے، مگر چودھری محمد سرور کے حوالے سے ان کی رائے درست نکلی۔ اگر مسلم لیگی قیادت عطا الحق قاسمی کے ’’خدشات‘‘ کو مدنظر رکھتی تو ممکن ہے کہ چودھری محمد سرور گورنر پنجاب نہ بن پاتے، مگر ایسا ہونا تھا، سو ہو کے رہا، لیکن عجیب بات ہے کہ پنجاب کے حوالے سے خاص طورپر گورنر کے عہدے کے حوالے سے نواز شریف نے ہمیشہ غلطی کی ہے، بہت پہلے انہوں نے سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کو گورنر بنایا اور چند ماہ کے لئے ان کے بیٹے سیف علی خان کھوسہ کو وزیراعلیٰ کے منصب پر بٹھایا، اب دونوں باپ بیٹے مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے خلاف سرگرم ہیں۔
سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر بھی نواز شریف فیملی کے بہت قریب تھے، مگر جونہی گورنر پنجاب بنائے گئے ان کے مزاج میں بھی بدلاو آ گیا، چند روز تک انہوں نے ’’وزیراعلیٰ‘‘ بن کے دکھانے کی کوشش کی اور پھر بعد میں وزیراعظم کی کرسی کی طرف جست لگا دی ، اس سے پہلے صوبائی اسمبلی کے سپیکر میاں منظور وٹو بھی نواز شریف فیملی کو ’’ہاتھ‘‘ دکھا چکے تھے۔ بعدازاں سپیکر صوبائی اسمبلی چودھری پرویز الٰہی بھی نواز شریف فیملی کے لئے مشکلات پیدا کرنے والوں میں نمایاں نظر آئے، یعنی میاں نواز شریف کے لئے یا شہباز شریف کے لئے صوبائی اسمبلی کے سپیکرز اور گورنر نیک ثابت نہیں ہوئے، حالانکہ دونوں عہدوں کے لئے نواز شریف ہمیشہ ایسے لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں، جو سیاسی طور پر ان کے بہت قریب اور بااعتماد ہوتے ہیں، مگر ’’وقت‘‘ آنے پر سب سے پہلے ’’انگلی‘‘یہی اٹھاتے ہیں، جس کی تازہ ترین مثال چودھری محمد سرور ہیں وہ ابھی آہستہ آہستہ تنقید کر رہے ہیں، مگر عمران خان کی صحبت اپنا رنگ زور دکھائے گی اور آگے چل کے وہ نواز شریف کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ چودھری محمد سرور آنے والے دِنوں میں کیا کرتے ہیں اس کے لئے چند روز مزید انتظار کی ضرورت ہے، لیکن اس وقت سب سے ضروری پنجاب کے لئے گورنر کی تلاش کا سفر ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ(ن) کی قیادت آپس میں مشورے کر رہی ہے۔
گزشتہ روز ایک نیوز چینل نے پیارے عطا الحق قاسمی کے نام کا ’’ٹکر‘‘ چلا دیا تھا، ان کے علاوہ محترمہ ذکیہ شاہ نواز اورسعود مجید کا نام بھی سننے میں آ رہا ہے۔ عطا الحق قاسمی دانشور، شاعر، ادیب اور کالم نگار ہیں۔ وہ ناروے میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ہیں۔گزشتہ چار پانچ برسوں سے وہ الحمراء آرٹس کونسل کے چیئرمین بھی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دونوں مناصب کے ساتھ بہت انصاف کیا ہے، عام طور پر ان کے بارے میں بہت اچھی رائے ہے، ان کی شخصیت بھی غیر سیاسی ہے، ذاتی طور پر وہ گورنر کے منصب کے بھی امیدوار نظر نہیں آتے، سو آگے چل کے وزیراعلیٰ کے منصب کے لئے ان کی طرف سے ہاتھ پاؤں مارنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وہ (عطا الحق قاسمی) مُلک بھر میں موجود ہزاروں شاعروں اور ادیبوں کے سب سے بڑے نمائندے ہیں اور عطا الحق قاسمی کے گورنر بننے سے گورنر ہاؤس میں علم و ادب کے چراغ جگمگانے لگ جائیں گے اور وفا کے لازوال چراغ تو عطا الحق قاسمی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی جلا رکھے تھے، جب نواز شریف اور شہباز شریف کے نام کے چراغ تو دور کی بات کہیں کوئی ’’دیا‘‘ بھی جلتا نظر نہیں آتا تھا اور آخری بات یہ کہ عطا الحق قاسمی ہم سرائیکیوں کے لئے بھی اتنے ہی عزیز ہیں جتنے عزیز وہ ہمارے پنجابی بھائیوں کے لئے ہیں۔

مزید :

کالم -